کھچڑی پہلے سے تیار تھی
کشمیر کی حیثیت تبدیل ہونے والے دن ایک طبقہ بہت دکھی تھا۔ ایک صاحب تو 16دسمبر کے سقوط ڈھاکہ کو یاد کر کے رو پڑے۔ انہوں نے جنرل نیازی کو "خراج عقیدت"بھی پیش کیا۔ صرف ایک طبقے کے دکھی ہونے کی بات سچ ہے۔ بہت سے طبقات کو لاتعلق کر دیا گیا ہے۔ ایک سال سے عمران خان کی ریاست مدینہ لوگوں کے بچوں سے منہ کا نوالہ بھی چھین رہی ہے۔ دو وقت کی روٹی نا ممکن ہو گئی ہے۔ ایسے میں لوگوں کو کشمیر یا سقوط ڈھاکہ پر سوچنے کا ہوش ہی کہاں رہتا ہے۔ پنجابی محاورہ ہے کہ "ڈھڈ وچ نئیں روٹی تے ہر گل کھوٹی" کل ہی کی ایک کلپ ٹویئرٹر پر دیکھا۔ دل دہلا دینے والا۔ پھٹے پرانے کپڑے پہنے ایک چھوٹی سی بچی دکان پر آئی، دس روپے کا نوٹ دے کر بولی دال اور لال مرچ دے دو۔ دال دس روپے میں یوں چھٹانک بھی نہیں آتی۔ بہر حال، یوں چھٹانک دال کا آدھے کلو پانی میں شوربہ بنایا جائے تو دن بھر گزارا ہو سکتا ہے لیکن عمران خان یہ گزارا بھی کہاں رہنے دیں گے۔ ان کی چیخیں نکالنے کی خواہش دال کو دس روپے تولہ کیے بغیر پوری نہیں ہو گی۔ چنانچہ ایک طبقہ، بس ایک طبقہ دکھی ہے۔ آپ نے بھی اس دن نکلنے والے جلوسوں کی اور ان جلوسوں میں شریک لوگوں کی گنتی کر لی ہو گی۔ ٭٭٭٭٭بہرحال، دکھی ہونا اتنا ضروری نہیں۔ با ہمت لوگ اپنے کام میں مگن رہتے ہیں۔ عمران خان نے پودا کاری کی اور اس موقع پر فرمایا کہ با اثر مجرموں کو جیلوں میں سہولیات ملنا غلط ہے۔ با اثر مجرموں سے مراد نواز شریف ہیں۔ ظاہر ہے، نواز شریف مجرد مجرم نہیں، "مجرموں" ہیں۔ حوصلہ بڑھانے کے لیے مریم نواز کے امور کی وفاقی وزیر فردوس عاشق کا بیان بھی قابل قدر ہے۔ فرمایا، بھارت نے جو کچھ کیا، کاغذی کارروائی ہے، کاغذی کارروائی سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے بھارت کی اس کاغذی کارروائی کو مسترد کر کے بھارت کا سارا کیا کرایا مٹی میں ملا دیا ہے نہ حوصلہ افزا بات۔ ہنسنے ہنسانے کا موڈ ہو تو سراج الحق کا بیان پڑھ لیجیے۔ فرماتے ہیں، کشمیریوں کو استصواب رائے یعنی رائے شماری کا حق دیا جائے۔ زندہ دل آدمی ہیں، زندہ دلی کی بات کر دی۔ جماعت کے ایک سابق امیر قاضی حسین احمد بھی زندہ دل تھے، امیرالمومنین پرویز مشرف کی زیر قیادت دلی کے لال قلعے پر جھنڈا گاڑنے کی باتیں کرتے تھے۔ وہی پرویز مشرف جنہوں نے کارگل میں پاکستان کا گڑا گڑایا جھنڈا اکھڑوا دیا تھا۔ ٭٭٭٭٭ویسے انصاف کی بات ہے، ستر سال سے سوہان روح بنے ہوئے کانٹے کو اس طرح کھٹ سے نکال باہر کر دیا کہ ہر طرف سکون ہی سکون ہو گیا۔ اس سکون کا خراج تحسین کیسے پیش کیا جائے؟ عمران خان دورہ امریکہ کو کامیاب قرار دینے کے بعد وطن واپس پہنچے تو اعلان کیا کہ ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں(ایسا مجھے لگتا ہے)، چوروں، ڈاکوئوں کو نہیں چھوڑوں گا۔ قوم ورلڈ کپ جیتنے کی خوشی سے نہال ہو گی لیکن یہ ورلڈ کپ خفیہ رکھا گیا۔ بہرحال، اب اس ورلڈ کپ کی رونمائی ہو گئی ہے اور قوم خوشی سے دوسری مرتبہ نہال ہو گئی ہے۔ صدر ٹرمپ نے ثالثی کی پیشکش کی، وہ اب بھی برقرار ہے اور خدانخواستہ جنگ ہونے کی صورت میں بروئے کار آئے گی۔ امریکہ نے بھارت کی طرف سے کشمیر کو ضم اور ہضم کرنے کی کارروائی پر تبصرہ فرما دیا ہے۔ یہ کہا ہے کہ بھارت تو اسے اپنا اندرونی معاملہ قرار دے رہا ہے۔ (آگے کا فقرہ ترجمان نے نہیں کہا جو شاید یوں ہوتا کہ اندرونی معاملہ ہے تو کسی بیرونی کو پریشان ہونے کی کیا ضرورت) اس بیان سے ثالثی کی پیشکش کی وضاحت مزید در مزید ہو گئی۔ خبر تو یہ بھی ہے کہ ساری کھچڑی دو ماہ پہلے پک چکی تھی، پکنے کا عمل تو اس سے بھی پہلے شروع تھا۔ بھارتی اخبار نے لکھا کہ نریندر مودی نے لکڑ ہضم پتھر ہضم پلان کی تفصیل دو ماہ پہلے، اوساکا میں ٹرمپ کو بتا دی تھی۔ یعنی کامیاب دورہ امریکہ پر "معاملات" پہلے ہی سلجھ چکے تھے اور کھچڑی سازی تو پرویز مشرف دور سے شروع تھی پھر 2016ء میں یعنی آج سے تین سال پہلے عمران خان نے کشمیری صحافیوں کو ایک تاریخی انٹرویو جو قومی پریس میں نہ آ سکا البتہ علاقائی طور پر چھپا، وہ یہی فارمولا تھا جو اب نافذ ہوا ہے۔ اسے تواردکہئے یا یہ کہ بڑے آدمی ہمیشہ ایک ہی طرح سوچتے ہیں لیکن وہ ہو گیا ہے جو ہونا تھا۔ نادم تحریر چین کی طرف سے خاموشی ہے، حتیٰ کہ اس نے ثالثی کی پیش کش بھی نہیں کی۔ سعودی عرب بھی اپنے چہرے پر خاموش مسکراہٹ سجائے ہوئے ہے۔ ماشاء اللہ۔ ٭٭٭٭٭بہرحال، قوم کو یہ تاریخی، تاریخ ساز اور جغرافیہ شکن ورلڈ کپ مبارک ہو۔ اور یاد رہے، یہ تاریخی ورلڈ کپ اتنی آسانی سے نہیں ملا۔ چار پانچ سال کی جانگسل جدوجہد کرنا پڑی ہے۔ اگست 2014ء میں شروع ہونے والی جنگ ورلڈ کپ کا جولائی 2018ء میں پہلا مرحلہ مکمل ہوا، پھر سال بھر کی محنت اور کرنا پڑی، تب یہ ورلڈ کپ ہاتھ آیا۔ مبارک ہو، مبارک ہو، اور مبارک ہو۔ ٭٭٭٭٭خبر ہے کہ گورنر ہائوس پختونخواہ کے شاہی اخراجات نے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ یوٹیلٹی بلز ساڑھے چار کروڑ کے ہو گئے۔ گاڑیوں اور جہاز کے لیے ایک کروڑ 36لاکھ کا پٹرول، تحفوں پر 2کروڑ خرچے ہو گئے۔ خبر میں اس طرح کے دوسرے اخراجات کی تفصیل بھی ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ گورنر نے کچھ غلط نہیں کیا۔ وزیر اعظم ہائوس نے کفایت شعاری پر عمل کیا، بھینسیں، گاڑیاں بیچ ڈالیں، اللے بھی ختم کر دیئے تللے بھی۔ سال کے آخر میں پتہ چلا کہ اخراجات کم ہونے کے بجائے سترہ اٹھارہ کروڑ بڑھ گئے۔ چنانچہ گورنر نے سوچا، کفایت شعاری کا رزلٹ بھی وہی، فضول خرچی کا بھی وہی تو پھر تردد کیسا۔