کیا وزیر اعظم اس امتحان میں سر خرو ہوں گے
وزیر اعظم ایک ایسے امتحان میں پڑ گئے ہیں جس میں وہ اگر محنت اور ذہانت سے کام لیں تو وہ اس امتحان میں سرخرو ہو سکتے لیکن کامیابی لازمی ہے اور اس کے بغیر چارہ نہیں۔
وزیر اعظم کے سامنے ایک طرف ملک کے معاشی حالات ہیں جن کی خرابی میں سب سے زیادہ حصہ ہماری اپنی حکومتوں کا ہے اور دوسری طرف عالمی معاہدے ہیں جن کی وجہ سے پاکستان ہمیشہ دبائو کا شکار رہتا ہے کہ یہ عالمی ساہوکار اپنے قرضوں کی وصولیوں کے لیے پاکستان میں مختلف سہولیات کی قیمتوں کے تعین میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور حکومت کو مجبور کرتے ہیں کہ ان کی مرضی اور منشا کے مطابق بجلی گیس وغیرہ کی قیمتوں کا فارمولا طے کیا جائے تا کہ ان قرضوں کی وصولی کی ممکن ہو سکے۔ ان عالمی قرض خواہ اداروں کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ وقت کے حکمرانوں کے ساتھ مل کر بہت بڑی دھاندلی کر رہے ہیں اور جو بھی حکومت ان کے بعد اقتدار میں آئے گی شور ضرور مچائے گی۔
اس لیے انھوں نے ان معاہدوں کو ناقابل تنسیخ بنانے کے لیے تما م قانونی پہلوئوں کو جمع کر رکھا ہوتا ہے اور حکومت نے ایسی ایسی ضمانتیں دی ہوتی ہیں کہ وہ ان سے پھر نہیں سکتی اور اگر کوئی حکومت ان معاہدوں سے پھرنے کی کوشش کرتی ہے تو ایک طویل مقدمہ بازی شروع ہو جاتی ہے اور یہ عالمی ادارے آپ کو عالمی عدالت میں گھسیٹ لیتے ہیں جہاں پر ان معاہدوں پر قانون کا اطلاق ہوتا ہے اور فیصلہ آپ کے حق میں نہیں ہوتا۔ ایسے کئی مقدموں میں پاکستان ان عالمی ساہوکاروں سے عدالت کے باہر ہی معاملات طے کرنے میں کامیاب ہو سکا ہے۔ پاکستان ہمیشہ ایک عجیب صورت حال کا شکار رہتا ہے ملکی معیشت ہمیشہ دائو پر لگی ہونے کا خطرہ سر پر منڈلاتا رہتا ہے۔
ماضی کی حکومتوں نے اس ملک پر جو حملے کیے ہیں ان سے جانبر ہونے کے لیے کسی معجزے کی ضرورت ہے اور ایسے معجزے بار بار نہیں ہوتے۔ اس ملک نے ہمیں ہمارے خوابوں سے زیادہ دیا ہے لیکن ہم نے اس کے بدلے میں ملک کو کچھ دینے کے بجائے جب بھی دائو لگا کاری وار لگائے ہیں۔ قدرت نے اگرچہ ہمیں اس کی بار بار سزا بھی دی لیکن ہمیں اس سے عبرت حاصل کرنے کی توفیق نہ ہوئی۔
ہمارے گوناگوں سیاستدانوں نے اپنی اپنی حکومتوں کے دوران ملک اور قوم کو ایسے ایسے مسئلوں میں پھنسا دیا ہے کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کون سا مسئلہ سب سے بڑا ہے۔ ان دنوں آٹے اور چینی کا مسئلہ سر فہرست آ گیا ہے اور وہ وقتی طور پر کئی دوسرے مسائل پر چھا گیا ہے کہ عوام کا اس سے براہ راست تعلق ہے اور یہ بنیادی ضرورت کی وہ اشیاء ہیں جن کے بغیر کسی خاص و عام کا گزارا نہیں ہوتا۔
وزیر اعظم نے خود اس کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ گرانی نے میری راتوں کی نیند اڑا دی ہے۔ یعنی ہمارے حکمران کو اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ عوام کس مشکل میں مبتلاء ہیں، بے روزگاری اور بد امنی کے دور میں جب گرانی بڑھ جائے تو عوام کی مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں۔ ایک تو روزگار کے ذرایع محدود ہوتے ہیں اور اوپر سے روزمرہ ضرورت کی اشیاء کا مہنگا ہونا سونے پہ سہاگے کا کام کرتا ہے۔
وزیر اعظم نے مہنگائی کی اس لہر پر ایکشن کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہفتے بھر کے دوران مہنگائی کم ہونا شروع ہو جائے گی۔ آٹے، چینی اور دوسری ضروریات زندگی کی عام آدمی کو فراہمی کے لیے شہر شہر سہولت بازار لگائے گئے ہیں جہاں پر حکومت کے مقرر کردہ نرخوں پر اشیاء کی فراہمی جاری ہے۔ آٹا اور چینی وافر مقدار میں دستیاب ہیں جب کہ اس کے خریدار کم ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ ملک میں موجود ذخیرہ اندوز مافیا کسی جنس کی قلت کا ڈھول پیٹ کر اس جنس کو ذخیرہ کر لیتا ہے اور مارکیٹ میں مہنگے داموں اس کی سپلائی شروع کر دیتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام کی قوت خرید جواب دے جاتی ہے اور ملک میں مہنگائی کا شور پڑ جاتا ہے۔
ان مسائل سے نپٹنے کے لیے حکومتوں کو پیشگی منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے اور جو حکومت اس بات کا ادراک نہیں رکھی وہ ایسی ہی مشکلات کا شکار ہو جاتی ہے جیسا کہ موجودہ حکومت کے ساتھ ہو رہا ہے، اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم کو ملک میں گندم اور چینی کی وافر مقدار میں موجودگی کے متعلق غلط اعداد و شمار پیش کیے گئے جس کی وجہ سے انھوں نے اس کی برآمد کی منظوری دے دی اور اب حالت یہ ہے ہم اپنے ہاتھوں برآمد کی گئی چینی اور گندم واپس اپنے ملک میں لانے کے لیے مہنگے داموں خرید رہے ہیں۔ یہ کون سی عقلمندی اور منصوبہ بندی ہے اور وہ کون سے عقلمند اور منصوبہ ساز ہیں جواپنی حکومت کو غلط اعداو شمار فراہم کر کے اس کی ہزیمت اور عوام میں غیر مقبول کرنے میں اپنا کردار ادا کرہے ہیں۔
کیا وزیر اعظم اپنے ان ساتھیوں کے خلاف بھی ایکشن لیں گے جس طرح انھوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ نواز شریف کو برطانیہ سے واپس لا کر جیل میں ڈالیں گے، چاہے اس کے لیے انھیں خود جا کر برطانوی وزیر اعظم سے بات بھی کرنا پڑی تو وہ کریں گے۔ نواز شریف تو ملک سے باہر موجود ہیں لیکن حکومت کے جو دوست ملک میں موجود ہیں اور حکومت کو چونا لگاتے ہوئے اس کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں، ان کی باری کب آئے گی اس کا فیصلہ وزیر اعظم نے جلد کرنا ہے تا کہ وہ اپنی حکومت کو اس تاثر کو زائل کر سکیں کہ حکومت صرف اپوزیشن کے خلاف مقدمے بنا رہی ہے اور اپنے دوستوں کے لیے عام معافی ہے۔ کیا وزیر اعظم اس امتحان میں سر خرو ہوں گے۔