اقبا ل اورخرد
1938میں اسی مہینے اپریل کی 21تاریخ وہ دن تھاجب دورِ حاضر کے عظیم مفکر و مدبر علامہ محمد اقبال اس دارِ فانی کو چھوڑ کر اپنے کریم رب کے پاس چلے گئے۔ امید کرنی چاہیے کہ وہ اپنے رب کے پاس بہترین جگہمیں ہوں گے۔ ہم علامہ اقبال کو بنیادی طور پر ایک شاعر کے روپ میں دیکھتے اور پہچانتے ہیں لیکن جس طرح غالب کہتے تھے کہ" کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے " بالکل اسی طرح اقبال بھی اپنی شاعری کو اپنا نبیادی مطمع، نظر نہیں گردانتے، فرماتے ہیں "خوش آ گئی ہے جہاں کو قلندری میری-وگرنہ شعر میرا کیا اور شاعری کیا ہے"۔ سنا ہے کہ قلندر اس کو کہتے ہیں جو سیدی و سیدنا علی ؓ کے دربارِ دُرِ بہار کا دربان ہو۔
اگر یہ صحیح ہے تو اقبال کی عظمتِ ختم المرسلینﷺکے گھرانے کی خدمت میں پوشیدہ ہے۔ شاید یہ قلندری کا ہی فیض ہے جسے اقبال جاری و ساری ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں جس کے سوتے کئی صدیوں سے پھوٹے نہیں، بند ہو گئے تھے۔ بالِ جبریل کی آٹھویں غزل میں فرماتے ہیں "تین سو سال سے ہیں ہند کے مے خانے بند-اب مناسب ہے ترا فیض عام ہو اے ساقی"۔ اقبال کی قلندرانہ نگاہ نے اُن پر آشکار کر دیا تھا کہ سرزمینِ ہند میں پچھلے کئی سو سال سے ایک ایسا رہنما نہیں آیاجو دین و دنیا دونوں کی رہنمائی کر کے مسلمان قوم کی کشتی کو منجدھار سے نکال کر بے کراں کر سکے۔
بڑے سے بڑے صوفی و مفکر کے پیغام کا خلاصہ یہ رہا ہے کہ اپنی ذات کو مٹاتے مٹاتے وہ اُس مقام پرآ جائے کہ وہ وہ نہ رہے اور مکمل طور پر کُل کے اندر فنا ہوجائے۔ اس کی اپنی ہستی نیست ہو جائے۔ اسلامی فکر اس سے جدا ہے۔ ایک ایمان والے سے یہ تقاضہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی ذات کو اتنا Develop کرے کہ ساری کائنات مومن کے قلب میں آکر سمو جائے یعنی دینِ اسلام اپنے ماننے والے سے یہ تقاضہ کرتا ہے کہ وہ ساحل کی طرف مت دیکھے بلکہ اچھل کر بے کراں ہو جائے۔ اقبال فرماتے ہیں "تو اے شرمندہء ساحل اچھل کر بے کراں ہو جا۔"
آرٹسٹ عام انسانوں سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ خدا نے اسے خصوصی مشن سونپ رکھا ہوتا ہے۔ اقبال تعلیم مکمل کرکے وطن لوٹے تو گورنمنٹ کالج لاہور جہاں وہ خود زیرِ تعلیم رہ چکے تھے وہاں ہی فلسفے اور ادب کے استاد مقرر ہو گئے، ساتھ ہی ساتھ اُن کو یہ خصوصی اجازت مل گئی کہ وہ بطورِ وکیل اپنی قانونی پریکٹس کر سکیں۔ 1911میں انھوں نے اپنی ملازمت کو جب چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تو اپنے خادم علی بخش کو ان الفاظ میں اپنے فیصلے سے آگاہ کیا۔" علی بخش میرے پاس اپنی قوم کے لیے ایک پیغام ہے اور سرکاری ملازمت )گورنمنٹ کالج لاہور میں ملازمت( میں یہ پیغام نہیں پہنچایا جا سکتا۔ چنانچہمیں نے سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دیا ہے اور مجھے امید ہے کہ اب میری آرزو پوری ہو جائے گی۔"
انگریزی شعراء پر اگر نگاہ دوڑائی جائے تو تمام شعراء میں جان ملٹن کویہ اعزاز حاصل ہے کہ ملٹن کی پیراڈائز لاسٹParadise Lost کا اندازِ بیان بہت پر شکوہ ہے۔ جان ملٹن اپنے وقت کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے آدمی اور شاعر تھے۔ ان کا اپنا بیان ہے کہمیں بچپن سے علم و آگہی اور مطالعہ سے اتنا شغف رکھتا تھا کہمیں کبھی صبح سویرے چھ بجے کے بعد بستر میں نہیں رہا اور کبھی بھی رات گیارہ بجے سے پہلے بستر پر نہیں لیٹا۔ جان ملٹن کی پُر شکوہ زبان کو Grand Styleکا نام دیا گیا ہے۔ اقبال بھی جان ملٹن کی طرح بہت مطالعہ کرنے والے پڑھے لکھے شاعر تھے۔
1903میں انھوں نے لکھا کہ"میں ایک طویل عرصے سے ملٹن کی پیراڈائیز لاسٹ کے انداز میں لکھنے پر غور کر رہا ہوں۔ میرے خیال میں اب اس کام کے لیے وقت تیزی سے قریب آ رہا ہے۔ کیونکہ ان دنوں شاید ہی کوئی لمحہ ایسا ہو جس میں مَیں سنجیدگی سے اس پر غور نہ کرتا ہوں۔ یہ خواہش پچھلے پانچ چھ برس سے میرے دل و دماغ میں پرورش پا رہی ہے لیکن جو تخلیقی کرب مَیں اس وقت محسوس کر رہا ہوں اس سے پہلے ایسی کیفیت مجھ پر کبھی طاری نہیں ہوئی۔"
عظیم اور تمام زمانوں پر محیط باقی رہنے والے ادب کے اندر مزاح اور دکھ گندھے ہوئے ہوتے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ کرب کی شدید کیفیت کو بھی یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ماحول بوجھل نہ ہو۔ اقبال کو اپنے پیغام کی اہمیت کا اتنا احساس تھا کہ بہت بذلہ سنج طبیعت کے باوجود انھوں نے اس کو اپنے کلام میں کم کم ہی برتا ہے حالانکہ علامہ اقبال کے اندر بذلہ سنجی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
ان کو گفتگو کرنے کا سلیقہ آتا تھا۔ وہ ہمیشہ سامعین کی دلچسپی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بات چیت کرتے۔ ابھی وہ آئن اسٹائن کے نظریہء اضافت پر اظہارِ خیال کر رہے ہوتے اور اگلے ہی لمحے وہ کُشتی لڑنے کے فن پر تبصرہ کرتے دکھائی دیتے۔ علامہ کی بات چیت شگفتہ اور حاضر دماغی پر مبنی ہوتی۔ ان کی گفتگو میں بہت چاشنی ہوتی اور حاضرینِ محفل جہاں ان کے علم سے فیض یاب ہوتے وہیں ان کی محفل سے اٹھنے کو جی نہ کرتا۔ گفتگو تصنع اور بناوٹ سے بالکل پاک ہوتی۔ عام گپ بازی سے کوسوں دور، بات چیت کے دوران ان پر نادر اور نئے نئے خیالات کی بارش ہوتی رہتی جس میں بغض، کینے یا ذاتی عداوت کو کوئی جگہ نہیں ملتی تھی۔ زندگی کے آخری دنوں تک علامہ اقبال کی گفتگو میں حاضر دماغی اور بذلہ سنجی کا عنصر نمایاں رہا۔
اقبال نے دو زبانوں، اردو اور فارسی میں شاعری کی۔ وہ اپنی خوبصورت اور پرشکوہ فارسی شاعری کی وجہ سے ایران، آذربائی جان اور دوسری مسلم وسط ایشیائی ریاستوں میں بہت عزت سے دیکھے اور پڑھے جاتے ہیں۔ ان تمام ممالک میں وہ اقبال لاہوری کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ 1990میں جب سوویت یونین ختم ہوا اور وسط ایشیائی مسلم ریاستیں آزاد ہوئیں تو پاکستانیوں کے پاس ایک نادر موقع تھا کہ وہ اقبال کے فارسی کلام شناس ماہرین کے ذریعے پاکستان کی کاز کو آگے بڑھاتے۔ اقبال کا نام اور اقبال کا فارسی کلام ہمارے پاس ایک قیمتی زرِ مبادلہ تھا لیکن ہم تو موقع گنوانے والے، ہمیشہ دیر کر دینے والے ٹھہرے۔
قرآنِ پاک میں ربِ کریم بار بار اولوالباب یعنی عقل والوں کو اچھے انداز میں مخاطب کرتا ہے۔ علامہ اقبال قرآنِ کریم کے مطالعے میں غرق رہتے تھے۔ اس لیے اقبال کا عقل و خرد کو کم تر سمجھنا بظاہر حل طلب ہے اور سمجھ میں نہیں آتا۔ اقبال ایک جگہ فرماتے ہیں، "پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل" ایک جگہ فرماتے ہیں کہ "چراغِ راہ ہے منزل نہیں ہے"ایک اور جگہ فرماتے ہیں "خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں تیرا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں " قرآنِ کریم عقل و خرد والوں کو ایڈریس کرتا ہے جب کہ اقبال جیسا قرآن آشنا کہتا ہے کہ خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ بھی نہیں۔ مَیں اپنے انتہائی معزز و فاضل قارئینِ کرام سے درخواست کروں گا کہ اس سلسلے میں اپنے خیالات سے نوازیں اور رہنمائی فرمائیں۔ اقبال نے اتنے سارے متنوع موضوعات کو برتا ہے کہ تمام موضوعات کا یہاں احاطہ کرنا مشکل ہے بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اقبالیات اتنا متنوع موضوع ہے کہ اس پر کوئی ایک جامع تصنیف شایدممکن ہی نہیں۔ فلسفے اور ادب دونوں شعبوں میں اقبال کا شمار دنیا کے عظیم ادیبوں اور مفکروں میں ہوتا ہے۔ امیر شکیب ارسلان، اقبال کو پچھلے ایک ہزار سال میں پیدا ہونے والا عالمِ اسلام کا عظیم ترین مفکر سمجھتے ہیں۔
قارئینِ کرام عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں سوموار کو ایک دفعہ پھر کریش کر گئیں۔ پچھلے کالم میں تیل کی عالمی قیمتوں کے حوالے سے عرض کیا تھا کہ امیر اور طاقتور ممالک نے گٹھ جوڑ کر کے تیل کی قیمتوں کو مصنوعی طریقے سے بڑھانے کی کوشش کی ہے لیکن قیمتیں مزید نیچے آ کر رہیں گی، اب دیکھتے ہیں کہ پاکستانیوں کو ہر دم گرتی قیمتوں کا کب فائدہ ملتا ہے۔