Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Tumhari Zindagi Ka Maqsad Kya Hai?

Tumhari Zindagi Ka Maqsad Kya Hai?

تمھاری زندگی کا مقصد کیا ہے؟

منظم نظریات شدت پسندی کو جنم دیتے ہیں، نظریے میں جنتی تنظیم ہوگئی اتنی ہی اس میں اکڑ اور کٹر پن ہوگا۔ یہ کٹر پن چاہے تو مذہب کا ہو یا الحاد کا یا روشن خیالی کا اس سے فرق نہیں پڑتا۔

الحاد کی صورتحال اس میں خاصی دلچسپ ہے، رفتہ رفتہ الحاد ڈھیلے ڈھالے نظریات کے پلندے سے مستقل ایک منظم افکار کی انجیل بنتا جا رہا ہے، مذہب کی طرح اس کی اخلاقیات کی بھی ایک نئی کرنسی بنتی جا رہی ہے، تنظیم تو اس میں پہلے کی بھی تھی، مذہب کہ طرح اس کے ہاں بھی اپنی تعبیر کائنات ہے، یہ سب لوازمات کافی ہوتے ہیں ایک کٹر پن سوچ کو پروان چڑھانے کے لیے۔

ہم تو نظم کی زندگی سے بدکتے ہیں، جس میں لگی بندھی ایک روٹین ہو چہ جائیکہ کسی منظم نظریے کا درد سر پالیں، ہمیں حسن تو بکھراؤ میں نظر آتا ہے، اصل خوبصورتی بے ترتیبی میں ہے، تنظیم تو خالی خولی میک آپ کے۔

محمد حسین آزاد نے غالب کے بارے میں لکھا تھا ایک دفعہ غالب نے آسمان پر بکھرے بے ترتیب ستاروں کو دیکھ کر کہا تھا "جو کام بغیر صلاح مشورے کے کیا جائے وہ ایسے ہی بے ڈھنگا ہوتا ہے"۔

اب غالب تو غالب تھے، زندگی بے ترتیب اتنی تھی کہ مغل دربار سے لڑھک کر فورٹ ولیم کالج پہنچتے تو کبھی پینشن کی بحالی کے لیے صاحب بہادر کے ہاں آسن مارے بیٹھ جاتے، پھر نہ جانے کیوں ستاروں کی بے ترتیبی پر صاحب تخلیق کو مشورے دینے پر تلے جاتے، شاید یہ اسی لکیور کا اثر تھا، مندی کے زمانے میں بھی ولایتی شراب سے شغل فرماتے اور میر مہدی مجروح کو خط لکھ کر دھونس جماتے۔

"تم کیا جانو لکیور، انگریزی شراب ہوتی ہے، قوام کی بہت لطیف، رنگت کی بہت خوب اور طعم کی ایسی میٹھی جیسے قند کا قوام پتلا"۔

ہمیں تو دیسی ٹھرا بھی میسّر تو تو کہاں غالب کی طرح ستاروں کی ترتیب پر مشورے دیتے پھرتے، ہمیں تو بے ترتیبی ہی پسند ہے۔

زندگی کو نظریات جیسی حقیر شے کے لیے گزارنا ہی سب سے بڑی بے وقوفی ہے، نظریات صرف دماغی چس لینے کے لیے رکھیں، نہ کہ انھیں منظم کرکے دماغ کی صندوقچی میں ٹھونستے پھریں۔

عرصہ پہلے کسی نے پوچھا تھا۔

"برخوردار تمھاری زندگی کا مقصد کیا ہے"۔

میں نے اسے مصنوعی قسم کے مقاصد بتا کر کوٹہ پورا کیا تھا۔ مگر مجھے کبھی کسی مقصد نے مطمئن نہیں کیا۔

شاید اس کی وجہ منظم نظریے کا قائل نا ہونا ہے، یہی چیز زندگی میں وسعت اور تنوع لاتی ہے، اگر زندگی کو کسی مقصد کے تابع کر دیا جائے تو زندگی کا فریم بہت چھوٹا ہو جاتا ہے۔

ابوالکلام آزاد احمد نگر کے قلعے میں قید ہیں، غبار خاطر کے خطوط لکھی جارہے ہیں، کبھی فنجان میں پڑی چائے کو موضوع بناتے ہیں، کبھی موسیقی کو قلم کی صلیب پر چڑھاتے ہیں۔

چائے پر لکھتے ہوئے کہتے ہیں۔

"میں چائے کو چائے کے لیئے پیتا ہوں اور لوگ چائے کو دودھ اور شکرکے لیے پیتے ہیں"۔

زندگی کو بھی زندگی کے لیے جیا جائے نہ مقصد اور نظرئیے کے لیے۔

مقصد بھی ہونا چاہیے مگر زندگی کو مقصد سے بڑا نہیں بنانا چاہیے یا احمد ندیم قاسمی کے الفاظ میں۔

ایک دفعہ ان کے ہاں احمد فراز بھی بیٹھے تھے جو سیگریٹ سلگانے سے پہلے اس کے اردگرد تھوک لگاتے۔ جید سگریٹ نوش جانتے ہیں تھوک لگانے سے سلگتے سیگریٹ کی عمر بھی تھوڑا اضافہ ہو جاتا ہے۔

قاسمی صاحب نے احمد فراز کی یہ حرکت تاڑ لی۔

جملہ چست کیا۔

"یہ تم سگریٹ کو سلگانے سے پہلے اسے استنجاء کیوں کراتے ہو"۔

ہم بھی یہی کہتے ہیں"زندگی کو مقصد کا استنجاء کیوں کراتے ہو بھیا"۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan