Taqdeer, Mazhab Aur Ilm Ul Kalam
تقدیر، مذہب اور علم الکلام

تقدیر اور جاوید غامدی صاحب دو ایسی اجناس ہیں جو آج تک سمجھ نہ آسکیں۔۔ غامدی صاحب کو تو چھوڑیں۔۔ ان کی لکھی میزان کے تازہ ایڈیشن کو بھی نہیں پتا ہوتا کہ اگلا ایڈیشن سالم حالت میں چھپے گا یا آئین پاکستان کی طرح ترمیم شدہ ہوگا۔۔ تو ہم کیا سمجھیں۔۔
پر تقدیر کا ایڈیشن کہنے والے کہتے ہیں کہ مسلم ہے۔۔ ایک زمانے میں علم الکلام پر پڑھنے کا شوق ہوا۔۔ بہت کچھ کنگال ڈالا پر چس نہ آئی پھر شبلی کی علم الکلام اور الکلام ہاتھ لگی۔۔ اردو میں اپنی نوعیت کی سب سے منفرد کتاب۔۔
بے شمار فلسفوں و نظریات کو مشرف الہیات کرکے کتاب میں بھرتی کیا گیا۔۔ اشعریہ و معتزلہ کی دھینگا مشتی۔۔
نیوٹن کی حرکیات۔۔ فخرالدین رازی، ابولہذیل کے کلامی کمالات، غزالی و اشعری کے منقولات۔۔ افلاطون و سقراط کے فلسفیانہ کلمات۔۔ کیا کچھ نہیں ہے۔۔ مگر جبر و قدر کا سرا اقبال کی بیان کردہ وہ گتھی بنتا گیا جو سلجھنے میں نہ آئے۔۔
پرویز کی کتاب التقدیر، نیاز فتح پوری کی من و یزداں بھی پھانک ڈالیں مگر افاقہ نہیں ہوا۔۔ کسی طبیب حاذق نے مشورہ دیا کہ فلاں فلاں کو پڑھو۔۔ جتنا پڑھتا گیا، الجھنوں کی گانٹھیں بڑھتی در بڑھتی گئیں۔۔
پھر ایک عدد قدرے دلچسپ کتاب ہتھے لگی۔۔ مودودی صاحب کی لکھی "جبر و قدر" کتاب دراصل جواب ہے پرویز صاحب کے ایک خط کا جس میں پرویز نے سوال پوچھا۔۔
قرآن میں ایک جگہ خدائے لم یزل نے فرمایا۔۔ و تعز من تشاء وتذل من تشاء یعنی جسے خدا چاہے تو ھدایت دے اور جسے خدا چاہے گمراہ کرے۔۔ یعنی ھدایت و گمراہی صرف خدا کی مشیت ایزدی کے تحت ہے مگر قرآن میں دوسری جگہ خدا نے یوں بھی فرمایا۔۔ فمن شاء فلیومن فمن شاء فلیکفر۔
ترجمہ۔ تم میں سے جو چاہے ھدایت اختیار کرے اور جو چاہے گمراہی اختیار کرے۔۔
پرویز نے سوال کیا۔۔ ان آیات میں جبرو قدر کا تضاد کیوں ہے۔۔
مودودی صاحب نے جواب ایک تکون کی صورت میں دیا جس کے ایک سرے پر انسان ہے دوسرے سرے پر رحمان اور تیسرے پر شیطان۔۔ مگر جب وہ تکون کو جانچنے بیٹھے تو زاویے تھوڑے غلط کر بیٹھے اور نہ غالباً پرویز کو سمجھ آئی ہوگی اور یقیناً مجھے تو نہیں آئی۔۔
پھر واصف علی واصف یاد آگئے۔۔ کہا کرتے بعض دفعہ مان لینا جان لینے سے زیادہ بہتر ہوتا ہے۔
قبلہ واصف بھی اسی کی دہائی میں نمودار ہونے والے اس روحانی گینگ کے رکن تھے جس کے سرغنہ قدرت اللہ شہاب تھے۔۔ شہاب خاصے تیز طرار بزرگ تھے۔۔ اپنی روحانیت کے خرمن کو اشفاق صاحب اور واصف صاحب سے بچائے رکھا اور آخر میں شھاب نامہ کے آخری باب چھوٹا منہ بڑی بات لکھ کر تہلکہ خیز واردات کر گئے اور اس کے بعد بغیر ایکسلیریٹر سے پاؤں اٹھائے اسلام آباد کے ایچ تیرہ کے قبرستان میں جا پہنچے۔ اور عوام آج تک ان کے روحانی مؤکل جو خاصا فرنگی النسل تھا کو سونگھتی پھر رہی ہے۔۔
بات واصف صاحب کی چل رہی تھی۔۔ پتہ نہیں واصف صاحب نے یہ بات کس کھاتے میں کہی۔۔ جیسے آڑی ترچھی لکیریں حادثاتی طور پر پینٹنگ کا شاہکار سرزد کر دیتی ہیں ٹھیک ویسے ہی بعض آڑھی ترچھی بابی باتیں بھی کمال سرزد کر دیتی ہیں۔۔ یقیناً یہی کمال ہے۔۔
ہمارے سلفی تبلیغی جماعت اور دیوبندیوں کے اس لئیے خلاف ہوتے تھے وہ کہتے تھے کہ اگر قرآن اگر ترجمہ کے ساتھ پڑھا تو گمراہ ہونے کا خدشہ ہے۔۔
ہم بھی کہتے تھے یہ کیا بات ہوئی۔۔ مگر اس نتیجے پر پہنچنے پر مدت لگی۔۔ واقعی تھانوی صاحب ٹھیک کہہ گئے۔۔
مذہب فلسفے و منطق سے زیادہ کلچر کا میدان ہے۔۔ کلچر و تہذیبی روایات کی لوگ صرف پیروی کیا کرتے ہیں ان سے دانشوری کے گونگلو نہیں جھاڑا کرتے۔
کلچر کے جثے میں دماغ نہیں ہوتا اس کی کھوپڑی میں صرف جذبات ہی دھڑکتے ہیں۔۔ اس کی رگوں میں منطق کا لہو نہیں دوڑتا۔۔ یہ عقلیات کے تنفس سے سانسیں نہیں لیتا۔۔
اس کو لوگ صرف پوچتے ہیں۔۔ کھانا، پینا، نشت و برخاست سب کلچر کے تابع ہے۔۔ اب انسان کی ہمت کہاں اتنی چھوٹی چھوٹی چیزوں پر عقلی چونچلے اٹھائے اس لئیے اس کو صرف مان لیتا ہے۔۔
یہ غیر مشروط تابعداری تین نسلوں میں سفر کرنے کے بعد جییز کا حصہ بن جاتی ہے۔۔
مذہب بھی کچھ ایسا ہی ہے۔۔ اس کو علم الکلام سے سلجھانا پیچ کس سے ویلڈنگ کرنے جیسا ہے۔۔
اکابرین کی روایات کو بھی بس مانا جاتا ہے۔۔ ایک صدی یا دو صدی ہی وہ جھوٹ رہیں گی۔۔ پھر تاریخ کا جب دم لگتا ہے تو تیسری صدی میں وہ گرما گرم تازہ سچ بن کر دیگچی سے باہر نکلتی ہیں۔۔ پھر وہاں عقل کی خارش کرنا بیکار ہے۔۔
اب کسی کے بابے نے گوشت کے سیخ کباب بنانے کے لیے کرامت دکھا کر سورج کو سوا نیزے پر لے آیا تو مُجھے کیا ضرورت ہے کہ میں اسے روش خیالی کی دعوت دے کر اڑتا نیزا اپنی پشت پر لوں۔۔
یہ باتیں صرف مانی ہی جاتی ہیں۔۔ ان کو سمجھا جا نہیں سکتا۔۔
مذہب سمجھنے سے زیادہ منوانے کے لیے اتارے گئے۔۔ کثرت کے سینے میں دل تو ہوتا ہے مگر دماغ میں دل کا ہی سیزن ٹو ہوتا ہے۔۔
چاہے تقدیر ہو، یا کچھ ہو اور۔۔
سارتر کی سفاک وجودیت کے تحت یہ تو انسان اپنے وجود کی ساری ذمہ داری اٹھانے کا ظلم خود پر کر سکتا ہے یا تو تقدیر کے کندھے پر یہ بار گراں رکھ سکتا ہے۔۔ پر سمجھ پھر بھی نہیں سکتا۔۔
نصرت فتح علی خان کی شاہکار قوالی تم ایک گورکھ دھندہ ہو کا ایک مصرعہ کچھ یوں ہے۔۔
جو سمجھ میں آگیا وہ خدا کیونکر ہوا۔۔

