Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Tande Ka Jolaha

Tande Ka Jolaha

ٹانڈے کا جولاہا

اشرف علی تھانوی مولانا سید حسین احمد مدنی کو "ٹانڈے کا جولاہا" کہا کرتے۔ مولانا مدنی ذات کے سید تھے مگر تھانوی صاحب انھیں سید ماننے سے انکاری تھے۔ بعدازاں ایک مستند دیوبندی کی زبانی معلوم ہوا "ٹانڈے کے جولاہے"کے پیچھے کانگریسی اور مسلم لیگی اختلاف چھپا تھا، مولانا مدنی کانگریسی تھے جبکہ تھانوی صاحب مسلم لیگی، یہ اختلاف اس حد تک بڑھ گیا کہ صاحب بہشتی زیور مخالف کے نسب پر آگے۔

لکھنے والوں نے تو لکھا کہ پاکستان کا تصور بھی علامہ اقبال کا دیا ہوا نہیں بلکہ اشرف علی تھانوی کا دیا ہوا تھا جو انھوں نے جون 1928 میں تھانہ بھون کی ایک محفل میں پیش کیا تھا۔

یقیناََ پاکستان کا تصور کبوتر، تیتر اور شاہین لڑانے والے اقبال کہاں دے سکتے، یہ سیاسی بدعت تو تھانہ بھون کی دین ہو سکتی ہے، ہمیں اس سے کیا، اقبال تصور دیں یا تھانوی، "وکیل" نے مذہب کے نام پر کامیابی سے پلاٹ ہتھیا لیا۔

منشی عبد الرحمن نے "تعمیر پاکستان اور علمائے ربانی" کے نام سے ایک عدد کتاب لکھی تھی، منشی جی کی زبانی علماء کی فہرست میں صرف تھانوی جی، شبیر احمد عثمانی اور مفتی شفیع آئے، کیونکہ باقی زیادہ تر علماء اس وقت غیر ربانی یعنی کانگریسی تھے، عطا اللہ شاہ بخآری بھی ابوالکلام آزاد کے نقش قدم پر تھے، حسین احمد مدنی بھی نہرو کے ہاتھ پر مشرف بیعت تھے، مودودی صاحب نے پٹھان کوٹ میں دارلسلام کھول کر الگ سے اپنا جگاڑ لگا لیا تھا۔ رہ گے شبیر احمد عثمانی اور مفتی شفیع وہ مسلم لیگی ہونے کی وجہ سے دارلعلوم دیوبند سے استعفیٰ دے کر "علمائے ربانی" میں بھرتی ہو گے۔

مودودی صاحب کا جگاڑ خاصا دلچسپ تھا، حیدر آباد دکن جیسے دارالکفر کو چھوڑ کر پٹھان کوٹ میں دارلسلام کھول لیا، ترجمان القرآن کے پرچے نکالتے، سیاسی کشمکشِ لکھی، مسلمانوں کے لیے الگ وطن کا مطالبہ پہلی دو جلدوں میں بڑی شدومد سے کیا پھر انھیں تھوڑا سانس چڑھ گیا اور تیسری جلد میں یو ٹرن لے کر مسلم لیک کی قیادت پر چڑھ دوڑے، مسلم لیگ کے حامیوں کو ترجمان القرآن فروری 1946 کے پرچے میں جنت الحمقاء میں رہنے والا قرار دیا اور پشین گوئی فرمائی کہ "جنت الحمقاء میں رہنے والے جتنے مرضی سبز باغ دیکھ لیں آزاد پاکستان لازماً جمہوری لادین سٹیٹ کے نظریے پر بنے گا"۔

پھر سن سینتالیس آئی تو مودودی صاحب نے اپنے رجوع سے بھی رجوع کر لیا اور جنت الحمقاء میں رہنے واسطے آگے اور تمبو قناتیں پٹھان کوٹ سے اکھاڑ کر اچھرہ میں گاڑ لیں۔ جمہوری لادین سٹیٹ میں آکر ممتاز دولتانہ سے سیٹنگ کی تو ترپین کے احمدی فسادات میں دھر لیئے گے۔

مودودی صاحب نے یوٹرن تو اڈیالہ والے مرشد سے زیادہ لیئے تھے۔ مولانا امین احسن اصلاحی غصب کے جملے باز تھے مودودی صاحب کے رجوعات سے تنگ آکر مودودی صاحب پر باکمال جملہ کسا "ہمارا مشورہ اگر جماعت اسلامی در خور اعتناء سمجھے تو کرے یہ کہ اپنی تمام کتابوں پر سرخ رنگ سے لکھوا دیں کہ فلاں کتاب کس تاریخ تک قابل استناد ریے گی اور کس تاریخ کے بعد منسوخ سمجھی جائے گی"۔

آج تو خیر جماعت اسلامی والے نظریہ پاکستان کے چمپین بنے بیٹھے ہیں، دو قومی نظرئیے کے محمد علی کلے ہیں۔

ایک زمانے میں سید عطاء اللہ شاہ بخآری بھی متحدہ ہندوستان کے چمپین تھے، زور و شور سے تقسیم کے خلاف تقاریر کرتے مگر جب پاکستان بن گیا تو اسی تقسیم شدہ خطے میں احراری ٹوکے اور چھروں سمیت آن براجے اور گوشہ نشین ہوگے یہاں تک ایک سرکاری آدمی امیر شریعت کو ملنے آیا جس کا ذکر بخآری صاحب کے قریبی ساتھی جانباز مرزا نے ان کی سوانح "امیر شریعت" کے صفحہ 336 پر کیا جس کے بعد سید عطاء اللہ بخاری قندھاری ٹوکے لے کر تحفظ ختم نبوت کی تحریک میں شامل ہو گے اور پھر جلد ہی علمائے ربانی کی فہرست میں بھرتی بھی مل گی۔

یہ سب سے دلچسپ امر تھا کہ جو مولوی قائد اعظم اور تقسیم کے مخالف تھے، قائد کے گورنر جنرل بنتے ہی علمائے غیر ربانی میں سے بیشتر کو قائد کے بارے میں روحانی خوش خبریاں ملنے لگیں، آرمسٹرانگ چاند پر گیا تو اسے ہم نے نے اذان سنوا دی، ادھر قائد کو بھی علما نے مجددی تلوار تھما دی جس کا تذکرہ حیات شیخ الاسلام کے ﷺ 43 پر ہے کہ "شیخ السلام کے ایک مرید کو خواب میں مجدد الف ثانی آئے اور اسے اپنی تلوار تھما دی اور فرمایا کہ اسے شبیر احمد عثمانی جو دینا"۔

اور اس خواب کی تعبیر نون لیگ کی فتح کی خوشخبری کی صورت میں شبیر احمد عثمانی نے نکالی اور قائد کا جنازہ پڑھا کر انھیں سنی بھی بنا دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ قائد کا پہلا جنازہ ان کی کھوٹی کے اندر پڑھا گیا تھا جو شیعہ عالم علامہ انیس نے پڑھایا تھا۔

بہر حال شبیر احمد عثمانی کی تعبیر رنگ لائی، مجددی تلوار اور عسکری پھنکار نے ملک کو اسلام کا قلعہ بنا دیا اور قلعوں میں ویسے بھی فوج کا بسیرا۔ خیر بات علماء کی ہو رہی تھی۔

وہ دن اور آج کا۔ دھڑا دھڑ علمائے ربانی کی بھرتی کا عمل یہاں جاری و ساری ہے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari