Sab Maya Hai Boss
سب مایا ہے بوس

پہلی نوکری اور پہلی محبوبہ اگر راس آجائیں تو وہ وہ کمبل بن جاتیں ہیں جسے آپ چھوڑنا چاہیں بھی تب بھی کمبل آپ کو نہ چھوڑے۔۔مجھے پہلی نوکری ہی کچھ ایسی ٹکری۔۔ شروع میں خاصی بے زاری میں اسے جوائن کیا، یہ سوچ کر کہ کچھ عرصہ کام کرکے دیکھتے ہیں پھر چھوڑ دیں گئے۔۔
اب کہاں مجھ سے کاہل الوجود سست قسم کا انسان جس نے مردم بیزاری کا ڈپلومہ اعلی نمبروں سے پاس کیا ہو وہ کسٹمر سروس اور فارمیسی مینجمنٹ کے جھنجھٹ میں پڑ جائے۔۔
جہاں ہر کسٹمر اپنے ساتھ لائے مریض کی پریشانی میں سر کھولنے کے درپے ہو۔۔ایسے کسٹمر کو ڈیل کرکے پرسکون کرنا مجھ جیسا انٹرورٹ بندہ کہاں کر سکے۔۔مگر رفتہ رفتہ وہ جاب راس آتی گئی اور اتنی راس آئی کہ جن سے کام سیکھا وہ اس ادارے سے چلے گئے جن کو کام سیکھایا وہ بھی استعفی دے گئے مگر میں آثار قدیمہ کی طرح ادھر ہی رہا۔۔
وہ پارٹ ٹائم جاب ہی تھی۔۔ صبح یونیورسٹی جاتا اور شام کو جاب کرتا۔۔ پہلے سیمسٹر سے میں نے پارٹ ٹائم جاب شروع کر دی تھی۔۔نہیں تو پہلے ہم بھی کتابیں پکڑے منجی کے بان کی توڑتے رہتے۔۔ تنگی نہیں تھی۔۔ مگر گھر سے پاکٹ منی لینے سے ایک وقت کے بعد شرم آنا شروع ہو جاتی ہے۔۔اور جس باغی مزاج کا میں اس کچی جوانی میں تھا ایسی بغاوت خالی جیب کے افورڈ نہیں کی جا سکتی وہ بھی ایک خالصتاً مذہبی گھرانے میں۔۔نہیں تو ہمارے بہت سے دوست چے گویرا تھے مگر پاکٹ منی کے چکر میں سیدھا یا تو فیضان مدینہ کو پیارے ہوئے یا رائیونڈ کو۔۔
ظاہری بات ہے یونیورسٹی کی زندگی کے اپنے خرچے ہوتےہیں، ہیں۔۔ نئی سے نئی Asthettic قسم کی ڈریسنگ کرنی ہے۔۔ اچھے سنیکرز لینے ہیں۔۔ دوستوں کے ساتھ چائے، کڑاہی کی محفلیں برپا کرنی ہیں۔۔ اگر حادثاتی طور پر کسی زلف جاناں کے اسیر ہوں گئے تو اپنی بندی کے ناز و نخرے اٹھانے کے لیے خرچے ڈبل ہو جاتے ہیں۔۔
لڑکے تو بٹ کڑاہی یا سموسے پکوڑے سے ہی ٹرک جاتے ہیں۔۔ بندی ہو تو پھر فینسی ریسٹورنٹ میں جانا پڑے گا۔۔ مینیو میں لکھی ڈشز جن نام پڑھنے کے لیے الگ سے دماغ کھپانا پڑتا ہے۔۔ ایسے مشکل نام کے لگے مینو ہے یا اطالوی زبان کا تھسیز۔
Coquilles Saint-Jacques، Tournedos Rossins، Poulet Cordon Bleu، Crème Brûlée، Mille-Feuille
ایسے نام پڑھ کر کھانے سے زیادہ کھانے کے درست تلفظ کو ادا کرنے کے لالے پڑ جاتے ہیں۔۔
اب ایسے خرچوں کے لیے خود کا جگاڑ ہونا لازم ہے۔۔ میرا ماننا ہے۔۔ یونیورسٹی کے پہلے سیمسٹر سے ہی پارٹ جاب ضرور کرنی چاہیے۔۔ یہ ایک تو آپ کو اعتماد دیتی ہے دوسرا ڈگری ہے بعد کی زندگی کے رگڑوں سے بچنے کے لیے حفاظتی بیلٹ مہیا کر دیتی ہے۔۔
میں نے پارٹ ٹائم جاب اپنی بغاوت افورڈ کرنے کے لیے شروع کی تھی۔۔ کنگال باغی اور دانشور پہلے زمانے میں چل جایا کرتے تھے۔۔ اب تو دانشوری بھی دعا کی طرح دل سے زیادہ پیٹ سے نکلتی ہے۔۔
خیر وہ نوکری کی اور چھ سال گزار دیئے۔۔ میں جلد ہی کسی جگہ کو کمفرٹ زون بنا کر اس کے ساتھ چمٹ جاتا ہوں۔۔ اس کمفرٹ زون کو چھوڑنے میں چھ سال لگ گئے اور ایک دن دماغ گھوما تو آخر کار وہ جاب چھوڑ دی۔۔
نوکری چھوڑنے سے پہلے ہمیشہ دوسری کا آپشن رکھنا چاہیے۔۔ مگر مجھ جیسے سرپھرے کہاں دیکھتے ہیں۔۔ مگر دلچسپ بات یہ ہوئی نوکری چھوڑے دو ہفتے ہی ہوئے ایک اور جگہ سے آفر آگئی۔۔
ہم تو جاب والے رگڑے یونیورسٹی کی زندگی سے کھا آئے تھے۔۔ اس لئے دماغ میں وہ بھوسا نہیں ہوتا کہ attitude والی ہی نوکری کرنی ہے۔۔
ویسے بھی ڈگری کے بعد پہلے سال سارے ہی سی ایس ایس کے خواب دیکھتے ہیں۔۔ دوسرے سال نوے فیصد لڑکے کہتے ہیں۔۔
ہم سے کسی کے نیچے کام نہیں ہوتا۔۔ ہم صرف اپنا کاروبار کریں گئے۔۔
پھر خیالوں کے محل ٹوٹنا شروع ہوتے ہیں۔۔ ڈپٹی کمشنر اور موٹیویشنل سپیکرز کے بل گیٹس زدہ لیکچرز کی دھند چھٹنی شروع ہوتی ہے۔۔ پھر تیسرے سال سے بے روز گاری کے بین شروع ہوتے ہیں۔۔
میرا ماننا ہے کہ ہر بندہ کاروبار کے لیے نہیں ہوتا۔۔ جس نے کاروباری بننا ہوتا ہے وہ Atomic habits یا کامیابی کے سو اصول جیسی مصنوعی کتب پڑھے بغیر بھی بن جاتا ہے۔۔
Atomic habits صرف آپ کے دماغ کے ایٹم تتر بتر کرے گئی اور تھوک میں پکوڑے تلنے کے خواب دکھا کر جوانی کے تین سے چار سال ضائع کرا دے گئی۔۔
موٹیویشنل انڈسٹری کے زہر نے بہت سے نوجوانوں کے ذہن خراب کرکے ان کا وقت اور صلاحتیں ضائع کرائی ہیں۔۔ قاسم علی شاہ اور شیخ عاطف جیسے جغادری آپ کو باتوں میں پر پاش کرکے کامیاب انسان اور امام بننے کے سارے نسخے بتا دیں گئے۔۔
اور آخر میں سیشن کے دس ہزار پر بندہ ٹکٹ کے جیب میں ڈال کر چلتے بنیں گے۔۔
شروعات ہلکی پھلکی جاب سے کریں۔۔ اگر جیب اپنے دم پر بھاری ہے تو پھر نظریات، بغاوت، ادب، دانشوری سب کچھ مزہ دے گی۔۔
نہیں تو سب مایا ہے بوس۔۔

