Qalmi Kharoos
قلمی کھڑوس

میں قلمی لحاظ سے خاصا کھڑوس واقع ہوا ہوں۔ میں کسی اصلاحی سکیم کے تحت نہیں لکھتا اور نہ میں فکری اصلاح پر یقین رکھتا ہوں، شاید یہ لایعنیت کی ہی کوئی آخری منزل ہے جس پر میں کھڑا ہوں، مگر یقین مانیں میں تبلیغ سے بدکتا ہوں، چاہے وہ تبلیغ مذھب کی ہو، فلسفے کی یا سائنس کی۔
فلسفی کی تبلیغ اور ملاں کی تبلیغ ایک ہی میعار پر پورا اترتی ہے، فلسفی اس زعم میں مبتلا رہتا ہے اس کی تلقین روشن خیالی کے پارسل میں پیک ہے اور ملاں کی تبلیغ تنگ نظری کے شاپر میں ٹھونسی ہوئی ہے۔
میرے لکھنے کا واحد مقصد لکھنے کی ٹھرک پوری کرنا ہے، میرے قلم میں کوئی دل نہیں ہے، میرے الفاظ کے بھیجے میں انقلابی مشن نہیں ہے، میری سطروں کی کوئی منزل نہیں، یہ سطریں صرف لوفریاں ہی کرتی ہیں۔ اگر میرے ان لفننگے جملوں سے آپ کی نظریات کا کوئی سوئچ آن آف ہو جائے یا فکری ساکٹ شارٹ سرکٹ ہو جائے تو یہ میری تحریروں کا "سائیڈ ایفیکٹ" ہوگا۔
کیونکہ میں آپ کے خیالات بدلنے کے لیے نہیں لکھتا، نہ ہی میرے دبستان کی رسوئی میں انقلابی سوچ ہے جس سے میں پڑھنے والوں کی سوچ میں کوئی انقلاب برپا کر دوں۔
انقلابی فکر اور نظریاتی اصلاح والی کاوشوں سے کب کا توبہ تائب ہو چکا ہے۔
یک دم تبدیل ہونی والی سوچ یا فکر خاصی نحیف بنیادوں پر کھڑی ہوتی ہے۔ میں اس حق میں نہیں ہوں کہ کوئی ایک تحریر پڑھ کر سوچ کی نئی درازیں اور کھڑکیاں کھول کے بیٹھ جائے، کوئی ڈاکٹر لال کی ایک سپیچ سے چے گویرا کا اشتراکی پتر جائے یا ڈاکٹر اسرار احمد کے خلافتی لیکچر کی تاب نہ لاکر مونڈھوں پر نفاذ خلافت کا بوجھ لئے پھرے۔
سرعت انزال اگر جسمانی بیماری تو سرعت افکار فکری بیماری ہے۔
میں شاید اتنا فکری بے حس ہو چکا ہوں، میرے سامنے کوئی گھنٹہ بھر بھی کسی نظریے یا فلسفے کو مختلف دلکش آسنوں سے بیان کرتا رہے میں ٹس سے مس نہیں ہوتا۔
فکری تبدیلی ارتقاء سے ہوتی ہے انقلاب سے نہیں۔
بڑے دانشوروں اور اہل قلم کو پڑھنے میں پاؤں پھونک پھونک کر رکھنے پڑتے ہیں۔ قاری کے لئے تو پھر بھی مسئلہ نہیں مگر ایک لکھاری کو مطالعے کے دوران خاصا بے حس ہونا چاہیے، کس بھی ادیب نے اسے جکڑ لیا تو لکھاری کے قلم پر اس ادیب کی چھاپ پڑ جائے گی۔ وہ لکھاری اپنا اسلوب کبھی نہیں بنا پائے گا۔ اس اثر سے اپنے قلم اور فکر کو کنواری حالت میں نکالنا بڑے جگر کا کام ہے۔
پڑھیں ضرور مگر قلمی عمارت کسی ابو الکلام، آزاد، ابن انشاء، یوسفی کے سامنے زمین بوس نہ کریں۔ وگرنہ آزاد کی طرح عربی زدہ اُردو لکھتے پھریں گے۔
کبھی کبھی تبلیغ سے بدپرہیزی کر بیٹھتا ہوں شاید یہ واحد تبلیغ ہے جو میں کرؤں گا اور وہ ہے انفرادیت کی۔
شاید اس میں جان جاناں غالب کا چٹاکی بھر پیرو کار ہوں۔ غالب کی انفرادیت کے کیا کہنے۔ انھیں بڑا ناز تھا کہ دہلی میں ایک ہی غالب رہتا ہے۔ دوستوں کو جب خطوط لکھتے تو کہتے۔ پتہ بے شک میرا غلط لکھو مگر خط کو مجھ تک پہنچے میں غالب نام ہی کافی ہوگا۔ میر مہدی مجروح کے نام خط میں لکھتے ہیں۔
"ایسے شہر میں رہتے ہی کیوں ہو جہاں دوسرا میر مہدی ہو"۔
میں کہتا ہوں۔ ایسی فیسبک پر لکھتے ہی کیوں ہو جہاں دوسرا زبیر ہو۔ یہ بات آپ زبیر کے خانے میں اپنا نام لکھ کر بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ خود پسندی نہیں بس غالب کے حکم کی تعمیل ہے۔
نہ جانے کیا الغم بلغم بکے جارہا ہوں۔۔
فی الحال کے لیے اجازت دیجیے گا۔