Nasli Dunki
نسلی ڈنکی

برصغیر کے مسلمانوں کی سب سے دلچسپ بات یہ ہےکہ بیشتر کے شجرہ نسب میں ایک عدد ڈنکی ضرور لگی، کسی کے جد امجد ایران سے ڈنکی لگا کر یہاں آن براجے تو کسی کے آباء منگولیا اور افغانستان کے دروں کو پھلانگ کر یہاں آئے، سب سے دلچسپ تو عرب تھے، جو سمندری راستے سے ڈنکی لگا کر جوق در جوق، فوج در فوج یہاں آتے گے اور ہندوستان کو قریشیوں، ہاشمیوں اور انصاریوں کا منی حجاز بنا دیا جیسے انگلستان میں بریڈ فورڈ کو پاکستانیوں نے منی پاکستان بنا دیا۔
اب عربوں کی ڈنکی کی داستان بنو امیہ سے شروع ہوتی ہے۔ کہتے ہیں ہاشمی بنو امیہ کے مظالم سے بچنے کے لیے پہلے پہل یہاں آئے، یقیناً آئے ہوں گے، کرنل ویلکز نے historical sketch of southern India میں میسور کے ایک ایسی ہاشمی خاندان کا تذکرہ کیا ہے جن کے آبا و اجداد بنو ہاشم کے مظالم سے تنگ آکر یہاں آئے تھے۔
اس ضمن میں تھرسٹن ایڈگار کی کتاب "کاسٹ اینڈ ٹرائب آف ساؤتھ انڈیا" پڑھنے کی چیز ہے، کس دقت نظر سے جنوبی ہند کے ذاتوں اور قبیلوں کا احوال اپنی کتاب میں لکھا، جلد چہارم میں تامل ناڈو کی مسلم برادریوں کا تفصیلی تذکرہ ہے جن کے آبا ان کے دعویٰ کے مطابق عرب سے آئے تھے۔ ملا بار کے تامل بادشاہ کی داستان تو اشتیاق حسین قریشی کی کتاب "برعظیم پاک و ہند کی ملت اسلامیہ" میں ملتی ہے، جو جنوبی ہند میں بسے عرب تاجروں کی دعوت پر مسلمان ہوا اور مکہ کی طرف ہجرت کر گیا۔
عرب تاجر جنوبی ہند میں کیا کر رہے تھے، کیا صحرائی علاقے کے عربوں کے پاس اتنے مضبوط بحری جہاز بنانے کی صلاحیت تھی کہ وہ بحر ہند کراس کرکے سورت اور جنوبی ہند تک پہنچ گے، کیا صحرا نشین عربوں کے پاس اتنے بہترین جہاز ران تھے کہ جو ہندوستان جیسی سونے کی چڑیا تک پہنچنے کا بحری راستا ڈھونڈ پاتے جو ہزار سال بعد بھی کولمبس نہ ڈھونڈ پایا، سید سلیمان ندوی نے کسی دور میں ایک کتاب لکھ ماری تھی "عربوں کی جہاز رانی" کتاب کمال کی ہے، ندوی صاحب نے قدیم عرب شاعری کو کھدیڑ کر دلائل کے انبار لگا دیئے کہ قبل از اسلام کے عربوں میں جہاز رانی کی بے شمار صلاحیت تھی مگر وہ یہ نہ بتائے پائے کہ اگر قبل از اسلام کے عرب میں اتنے جید جہاز ران تھے تو پہلا اسلامی بحری بیڑا تخلیق کے لیے سیدنا امیر معاویہ رض کا منتظر کیوں رہا۔
مگر سیلمان ندوی نے کئی عرب جہاز رانوں کو جنوبی ہند تو پہنچا دیا میں ان پر یقین کر لیتا مگر وہ ایک عدد لمبی پھینک گے اور امریکہ کو بھی عربوں کی دریافت قرار دیا اس پر طرہ یہ کہ معلم احمد بن ماجد نامی ایک عرب جہاز ران کو واسکوڈے گاما کو ہندوستان کا راستہ دریافت کرنے والا بنا دیا۔
بات شجرے سے نکلی تھی۔ تو دیسی عربو کے شجرے میں ڈنکی لگنے کی داستان تو سن لی۔ حقیقت کیا ہے وہ تو مولا جانے۔
پختونوں کا شجرہ عرب میں نہیں رکا بلکہ وہ صحرائے سینا میں پڑاؤ ڈالے بنی اسرائیل تک جس پہنچا۔ کسی راوی نے کہہ دیا کہ پشتون بنی اسرائیل کی نسل سے ہیں، سعد اللہ جان برق جو خود بھی پشتون ہیں اپنی کتاب "پشتون اور نسلیات ہندوکش" میں اس کی تردید کی، تاریخ میں جس قوم نے سب سے زیادہ ڈنکیاں لگائیں وہ بنی اسرائیل ہے، ادھر قاسم فرشتہ کی تاریخ فرشتہ کی سنیئے تو وہ افغانوں کو قطبی فرعون کی اولاد کہتا ہے، جس نے ابرہہ کے لشکر کا ساتھ دیا تھا۔ (تاریخ فرشتہ صفحہ 82 ج اول)۔
یہ تو الگ بات ہے کہ امریکہ نے افغانوں کو کمیونزم کے راستے پر بٹھا دیا اور دوسری طرف قاسم فرشتہ کے مطابق لاہور کے ایک ہندو راجہ نے کچھ پشتونوں کو درہ خیبر سے ہے درپے حملہ آور ہوتے مسلم لشکروں کا راستہ روکنے واسطے پشاور میں بٹھا دیا۔ سچی بات تو مولا جانے ہم نے تو سنا تھا کہ پٹھان شروع سے ہی اسلام کے مجاہد رہے۔
پٹھان کے اسم گرامی سے سے یاد آیا کہ "ایس ٹی ہالنس اسکوائر جو انگریز دور میں یو پی سپرینٹنڈنٹ آف پولیس تھا اس نے بڑی دلچسپ کتاب لکھی "صوبیات متحدہ کی اقوام جرائم پیشہ"۔
کتاب میں جوگی پٹھانوں کا تذکرہ ملتا ہے جو جرائم پیشہ قوم تھی جس کا کوئی لڑکا پہلی واردات کرتا تو وہ برداری کو کھانا کھلاتا۔
ایس ٹی ہالنس قبلہ نے گوجروں اور رانگھڑوں کو بھی جرائم پیشہ اقوام میں رگڑ دیا جو مویشی چوری میں ید طولی رکھتے تھے۔ اس ضمن میں صوبیات متحدہ میں مشہور ایک کہاوت سنیے۔
کتا بلی دو، گوجر رانگھڑ دو
یہ چار نہ یوں تو کھول کو اڑے سو
یعنی کتا بلی اور گجر رانگھڑ نہ ہوں تو امن کا یہ عالم ہو کہ لوگ گھر کے دروازے کھول کے بھی سو سکتے ہیں۔
ایس ٹی ہالنس تو انگریز تھے، کچھ بھی اگل دیتے۔
بات ڈنکی سے نکلی تھی اور قلم ڈنکی لگا کر کہاں سے کہاں نکل گیا۔
تو بھیا سب سے دلچسپ ڈنکی تو ہندوستانی سیدوں کی ہے، عموماً یہ ایک ذات سے دوسری ذات تک ڈنکی لگاتے۔ یوپی والوں کی کہاوت تھی کہ "کل میں جولاہا تھا آج کل میں شیخ ہوں اگر کل میری فصل نے غلہ اچھا دیا تو سید بھی بن جاؤں گا"۔
یقینا حکیم الامت اشرف علی تھانوی اس بات سے واقف تھے اور مولانا سید حسین احمد مدنی کو سید ماننے سے انکار بیٹھے اور انھیں۔ ٹانڈے کا جولاہا کہا کرتے۔
جاٹ کے شجرے میں فی الحال کوئی ڈنکی نہیں لگی، البتہ آرائیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ عرب سے آئے ہیں۔ جاٹ سے اشتیاق حسین قریشی کی کتاب The Muslim community of indo pak Sub continent یاد اگی جس میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ ظہور اسلام سے پہلے جاٹ سپاہی ایرانی فوج میں ہوا کرتے جو فتح ایران کے بعد حضرت علی کے لشکر میں آگئے۔
ایڈگار تھرسٹن نے جنوبی ہند میں بسنے والی عرب ذاتوں کی caphilic index کے تحت پیمائش کی تو زیادہ تر دیسی ہی نکلے، بی ایس ایلسی کی y chromosomes والی ریسرچ بھی کچھ اسی قبیل کی ہے۔
یہ شجرے سینہ بہ سینہ روایت ہوتے ہیں۔ کیا پتہ سینے میں دبے جذبات گوجری روایت کو قریشی بنا کر اگلی نسل کو لڑکھا دیں۔ امیر خسرو نے موسیقی بارے کہا تھا۔
"موسیقی علم سفینہ نہیں علم سفینہ ہے "۔
میں علم الانساب کے بارے یہی کہوں گا۔

