Wednesday, 15 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Molvi Abdul Salam Niazi

Molvi Abdul Salam Niazi

مولوی عبد السلام نیازی

مولوی صاحب اپنی نوعیت کے ایک ہی پیس تھے۔ پہلی بار جوش کی یادوں کی بارات میں مولوی صاحب کا تحریری تعارف کچھ یوں ہوا کہ میں ان کا فین ہوگیا، جتنے مولوی صاحب خود نادر و نایاب تھے اس سے زیادہ ان کا ذکر کتابوں میں نادر تھا، ڈھونڈنے سے خدا ملتا ہے یا نہیں اس کا تو نہیں پتہ مگر مولوی صاحب تپسیا کے بعد مل گے۔

نیازی صاحب میرٹھ میں پیدا ہوئے، دہلی کو وطن بنایا اور دہلی کے ترکمان دروازے کو اپنی مچان، کسی زمانے میں مسجد میں امامت خطابت کرتے تھے، زور خطابت اتنا کہ لوگ سننے کے لئیے دور دور سے کھنچتے چلے آتے، شرعی حلیے میں رہتے، مگر ایک وقت وہ بھی آیا، مسجد چھوڑی، امامت رد کی، خطابت تیاگی، کئی سال صوفیوں کے ہاں رہے، وہاں سے بور ہوئے تو ہردوار کے ہندوؤں سادھوؤں کے ساتھ دس سال لگا دیے، داڑھی پر استرا پھیرا، بھنویں منڈاوئیں، کہا کرتے میں افلاطون کے یونان کی مہذب تصویر ہوں اور وہ تھے بھی، ترکمان دروازے کے پاس نینوا تیلی کے بالا خانے میں کمرہ لے کر بیٹھ گے۔

کمرہ کیا تھا، ہندوستان کے اعلی دماغ مولوی عبد السلام نیازی کے پاس حاضری لگانے آرہے ہیں، علم و فضل کا یہ عالم، عربی تو عربی، کیا سنسکرت کیا فرنچ، کیا انگریزی زبانوں پر عبور، ریاضی و فلسفہ جیسے گھر کی لونڈی ہوں، حافظے کا یہ عالم، فارسی و عربی کی کئی کئی جلدیں کھوپڑی میں پڑی ہوئیں، قوت لسان کا یہ عالم جس موضوع پر چھیڑو، گھنٹوں بولتے اور سننے والے بور ہونے کے بجائے ھل من مزید کی فرمائش کرتے، فارسی پر اتنا عبور کہ وائسرے کو ایک بار ایک ٹھیٹ فارسی میں لکھے مخطوطے کو ترجمے کرانے کی ضرورت پڑی، دہلی میں ایک سے بڑھ کر ایک فارسی کا عالم، مگر سب پڑھنے میں ناکام، آخر کسی نے مولوی عبدالسلام نیازی کا نام لیا، مگر مولوی صاحب اکڑ گے کہ میں کیوں وائسرائے کے پاس جاؤں ضرورت اس کو ہے تو وہ مخطوطہ بھیجے، وہ بھیجا گیا اور مولوی صاحب نے ترجمہ کر دیا۔

معتقدین کو دیکھیے، خواجہ حسن نظامی جیسا قلم کار و صوفی مولوی صاحب کے سامنے دو زانو بیٹھا ہے، ملا واحدی آخری صفوں میں اپنی جگہ ڈھونڈ رہے ہیں، جوش جیسا بے باک شاعر اور بولڈ ملحد باوجود اپنے دور الحاد کے نیازی صاحب کی محفل میں بیٹھ رہا ہے، اقبال دہلی آتے ہیں تو ترکمان دروازے کے مولوی عبدالسلام کے ہاں حاضری دے کر جاتے ہیں، ابو الکلام آزاد جیسا امام الہند ملنے کی درخواست کرتے ہیں تو لفٹ نہیں کرواتے، نہرو کو بھی ٹرخا دیتے ہیں، عزیز میاں قوال ابن عربی کی فتوحات مکیہ پڑھنے واسطے استاد ڈھونڈتا ہے تو پاکستان کے درجنوں صوفی و سکالر چھوڑ مولوی عبد السلام نیازی کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرتا ہے۔

شاگردوں کو دیکھیے، سید ابو الا علی مودودی جیسے لوگ شاگردان نیازی کی فہرست میں آتے ہیں، اکثر کہا کرتے "میاں میرے تو ڈھائی شاگرد ہیں، ایک ابوالخیر مودودی، دوسرے ابوالاعلیٰ مودودی اور باقی آدھے طاہر میاں"۔

مودودی صاحب نے منطق و حدیث ان سے پڑھی کلاس کے لیئے صبحِ فجر کا وقت مقرر تھا، دہلی کی سخت جاڑے کی سردی میں مودودی نیازی صاحب کے پاس پڑھنے جاتے۔

مودودی صاحب کے بیٹے حیدر مودودی ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے "مجھے تایا ابوالخیر مودودی نے بتایا کہ، ایک دفعہ مولوی صاحب مجھے اور ابو الاعلیٰ مودودی کو لے کر نائی کی دوکان پر چلے گے اور نائی کو کہا "چلو داڑھی مونڈھو"، ہم نے کہا یہ کیا، تو مولوی صاحب نے کہا "کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا، وہاں لکھا ہے اپنی سب سے محبوب چیز خدا کی راہ میں قربان کردو، مجھے تو سب سے محبوب داڑھی ہے"۔

اس کے بعد سے مولوی صاحب نے داڑھی نہیں رکھی، نیازی صاحب نرے علم و ادب کی پوٹلی نہ تھے، بلا کے حسن پرست تھے، قوالی کے شیدائی تھے، مجروں میں بڑے اہتمام سے شرکت کرتے، اچھی آواز والی طوائفوں کے عاشق تھے، قوالوں پر خوب پیسے لٹاتے، رزی جے پوری نے "دہلی کے ایک پڑھے لکھے شخص" کے عنوان سے مولانا پر خاکہ لکھا ہے۔

اس میں لکھتے ہیں، ایک دفعہ بیس سال کی ایک مغنیہ جس کا نام فقیرن تھا، بازار حسن سے تعلق رکھتی تھی، جے پور میں مولانا کے قیام دوران آئی اس کی آواز نے مولانا کو اتنا متاثر کیا، کئی ہزار روپے ایک رات میں اس پر لٹا دیئے۔

تصوف سے خاصی رغبت تھی، طوائف ببو جہاں کو لے کر ہندوستان کے ہر بزرگ کے عرس میں شرکت کرتے۔ وہ دم درود والے صوفی نہ تھے، خاصی بم بارود والے تھے، اتنے بے باک کہ بڑے سے بڑے عالم، صوفی یا مفتی کی طبیعت صاف کر دیتے، مزاج خاصا نازک تھا، اگر کوئی مزاج کے مخالف بات کر دیتا تو مولوی صاحب کا ناریل "دماغ" چٹخ جاتا اور پھر ان ادبی گالیوں و مغلظات کا ارشاد ہوتا کہ سننے والے اکثر غصے کے بجائے لطف لیا کرتے۔

خاصا عجیب قسم کا بولڈ مزاج پایا تھا، جو جی میں آئے بے دھڑک کر گزرتے، دہلی کی ایک طوائف جو کسی کو بھی لفٹ نہ کرواتی، ماہ رمضان میں مولانا نے ایک دفعہ کہہ دیا، کون اللہ کا بندہ میرا روزہ اس کے بوسے سے افطار کروائے گا، مولانا کے ایک مالدار معتقد نے ان کی افطاری اپنے ہاں کی اور اس طوائف کو بھی کسی طرح بلا لیا اور مولانا کی خواہش بھی اس کو بتادی، مولانا آئے تو طوائف نے کہا "مولانا ابھی کچھ کرنا ہے کر لیجیے میں تو رنڈی ہوں مجھے کچھ نہیں ہوگا، مگر جب افطار کے وقت سب آئیں گے تو شاید آپ خواھش پوری نہ کر سکیں"۔

مولانا نے کہا، "آپ چاہتی ہیں کہ میں اپنا روزہ وقت سے پہلے توڑ دوں، جب اذان ہوگی میں تو اسی وقت افطار کروں گا"۔

اب سارے لوگ آگئے ہیں، وہ جنھوں نے ان سے حدیث پڑھی تھی، منطق و فلسفہ پڑھا تھا، تصوف کی تجلیات سمیٹی تھیں، ان کے سامنے ہی جب ادھر اذان ہوئی، مولوی صاحب نے الھم لک سنت علی رزقک افطرت دعا پڑھی اور چٹاخ سے ایک زور دار بوسہ طوائف کے گالوں جڑ دیا۔

ایک اور واقعہ سن لیجئے، عزیز میاں بہت پڑھے لکھے قوال تھے، سیاسیات میں ایم اے کر رکھا تھا، ابن عربی کی کتاب فصوص الحکم پڑھنے مولوی صاحب کے ہاں جاں پہنچتے ہیں، مولوی صاحب شاگردی میں کسی کو مشکل سے ہی لیتے، عزیز میاں کو پڑھانے کے لیئے شرط عائد کر دی کہ اگر ہم سے پڑھنا ہے تو رات بازار حسن کی فلاں طوائف کے ہاں گزارو گے، عزیز میاں دن کو مولوی صاحب کے ہاں وحدت الوجود کی موشگافیوں پڑھتے، تصوف کے اسرار و رموز سیکھتے، صحو و سکر کی ایکسرسائز کرتے اور رات طوائف کے کوٹھے پر گزارتے۔

مولوی صاحب کسی کو اپنے سامنے پر نہیں مارنے دیتے، دکن کے نظام جن کا ہندوستان میں طوطی بولتا تھا، جوش جیسے شاعر، ہادی رسوا جیسے نثر نگار جس کے دربار سے وابستہ ہیں، عبد الماجد دریابادی جیسے لوگ وہاں کے وظیفہ خوار ہیں، ایک دفعہ نظام کے وزیر تعلیم مہدی یار جنگ ان کے پاس آئے اور کہا چلئے نظام کے پاس، آپ کا اچھا خاصا وظیفہ مقرر کروا دوں گا۔

یہ سننا تھا کہ مولوی صاحب کا ناریل چٹخ گیا اور پھنکارتے ہوئے کہا "تمھارے نظام کی مونچھوں سے افضل تو میرے موئے زیریں ہیں"۔

سر اکبر حیدر آبادی آئے تو کمرے سے ہی فرمایا کہ آپ کی قسمت میں مولوی عبد السلام کی یہی تین سیڑھیاں لکھی تھیں، چوتھی پر قدم نہ رکھنا۔ (از اخلاق احمد دہلوی "یادوں کا سفر")

ایک دفعہ دہلی کے پنڈتوں کے لڑکے نے کم عمری میں ایم اے فلسفہ کر لیا تو خود بھی دیسی فلسفی بن گیا، فلسفہ انفرادیت کا اس درجہ قائل ہوگیا کہ کہتا کہ "یہ ماں، بہن، خالہ، پھوپھی کے رشتے سب ڈھکوسلے ہیں، اگر فرد کی نشو نما میں یہ فرضی رشتے حائل ہوں تو تکمیل ذات ادھوری رہ جاتی ہے"۔

خاندان کے بزرگوں نے بڑے اسکالروں سے اس لونڈے کو بھڑوایا مگر وہ کسی سے قابو نہ آتا، کسی ستم ظریف نے مولوی عبدالسلام کا پتہ دے دیا۔

اب فلسفی لونڈا مولوی عبدالسلام کے سامنے انفرادیت پر تقریر کر رہا ہے اور رد انفرادیت پر دلائل مانگ رہا ہے، فلسفی لونڈا بدقسمتی سے تھوڑا خوبصورت تھا۔

مولوی صاحب بجائے فلسفہ جھاڑنے کے اسے پیار بھری غلط نظروں سے تاڑنے لگے اور کہا "یہ سب تو الو کے پٹھے ہیں، ہم خود تمھاری انفرادیت کے مداح ہیں، اب دیکھو تم ہمارے سامنے بیٹھے ہو، جی چاھتا ہے کہ تمہاری آنکھوں کا سرمہ بنائیں، تمھیں اٹھا کر کلیجے پر رکھ لیں، تمھارے لب و رخسار چومتے رہیں اور ہر اس خواہش کو پورا کریں جو تمہارے رخ زیبا کو دیکھ کر پیدا ہوگی ہے"۔

فلسفیانہ جواب کی توقع رکھنے والا لونڈا یہ توبہ شکن ٹھرکی جملے سن کر سٹپٹا گیا ابھی سنبھلا ہی نہ تھا مولانا نے خاندان کے بزرگوں کے سامنے اس کی دھوتی کھول دی اور نیم عریاں حالت میں لونڈے کو دھوپ میں کھڑا کرکے کئی گھنٹے رد انفرادیت پر تقریر کرتے رہے۔ (از مقصود زاہدی "اجڑا دیار")

خاصے خود دار تھے بعض اوقات یہ خود داری نرگسیت تک پہنچ جاتی، کسی سے ملنے نہ جاتے، ایک دفعہ خواجہ حسن نظامی نے کہا، "چلیے ابوالکلام آزاد آپ سے ملنا چاہتے ہیں ان کے ہاں جاتے ہیں"۔

یہ سننا تھا کہ مولانا کا پارہ چڑھ گیا اور فرمایا "میاں نظامی اگر کوئی تمھاری جگہ ہوتا تو ایک موٹی سی گالی اسے دیتا، جاکر ابو الکلام سے کہو، پہلے وہ نو من تیل لے کے آئے اور دو گھنٹے تیل کے ساتھ میرا ***** سہلائیں، پھر میں ملنے آؤں گا"۔ (یادوں کی بارات)

گالیاں کیا خوب دیتے، ملحدین کو پیار سے وجودی حرامی کہا کرتے، ایک دفعہ ایک مولوی مولانا نیازی سے کج بحثی کرنے لگے، تو مولانا کا ناریل چٹخ گیا تو اسے کہا "خدا نے مُجھے اتنی طاقت دی ہے کہ اپنا عمود لحمی آپ حلقہ زیریں پر وار کروں تو خون کے فوارے جاری ہو جائیں گے"۔

یہ اس دور کی بات ہے جب مولوی بھی مفتی کفایت اللہ، ایوب دہلوی کی طرح تھے، اگر مولانا آج کے دور میں ہوتے تو، گھمن، جھنگوی، رضوی جیسوں دیکھ کر ان پر عمود لحمی وار کے خون زیریں کی آبشاریں پھوڑ ڈالتے۔

مولوی صاحب نے ایک سو چھ برس کی طویل عمر پائی تھی، آپ کمال دیکھیے، ایک ہی زندگی میں اقبال، مودودی، آزاد سے لے کر عزیز میاں قوال تک سب کو بھگتا گے۔

Check Also

Zamano Ki Awaz

By Ali Akbar Natiq