Lofer, Musa Ke Musalle Par
لوفر، موسیٰ کے مصلے پر

میرے ساتھ ایک مسئلہ تھا، میں جب بھی کسی جگہ گھومنے پھرنے کا پروگرام بناتا، دوستوں کو تیار کرتا اور وہ تیار بھی ہو جاتے، پورے خشوع و خضوع کے ساتھ سفر کی منصوبہ بندی کرتے، سچے سالک کی طرح ٹرپ کے لئیے پُرعزم ہوتے، ہم بڑے مصمم ارادے کے ساتھ ایک دن طے کرتے، اس دن ہر حال میں جائیں گے، مگر پھر طے کردہ دن سے پہلے ٹوپیاں کروانے کا ایک ریلہ آتا۔
یکی کا سلسلہ ایک دوست کے افسردہ میسج وائس میسج سے شروع ہوتا، جس کے مطابق اس کی مرحومہ دادی اماں عرق النساء کے درد میں مبتلا ہیں اور وہ انھیں شفاء انٹرنیشنل لے جارہا ہے، اس کو یہ یاد نہیں رہتا کہ اس کی ہسپتال میں داخل دادی مرحومہ کے چہلم کا لنگر میں سلفی ہونے کے باوجود چھ سال پہلے ڈکار چکا ہوں۔
پھر یکی نمبر دوم شروع ہوتی، جس کے مطابق میرے دوست کے وہ رشتہ دار جو ان سے پانچ شجرے فاصلے پر ہیں وہ اللہ میاں کو پیارے ہو چکے ہیں اور مشکل سے عید پڑھنے والے جناب کو جنازے کی فکر کھائے جا رہی ہے۔
اسی طرح یکی نمبر تین، چار اور پانچ وغیرہ وغیرہ میسج کی صورت میں افسردہ لہجوں میں موصول ہوتیں، اسی طرح ہم نے کوئٹہ ہوٹل کی سرخ کرسیوں پر بیٹھ کر پورا گلگت بھی گھوما، سوات، کلام، اتروڑ ویلی کی زیارت بھی کی اور کشمیر چترال بھی اسی حالت میں گھوم آئے۔ ایک بار ستم یہ ہوا کہ کسی نے کے ٹو بیس کیمپ کا ذکر کر دیا، ہم نے وہاں جانے کی بھی پلاننگ شروع کر دی، یہاں تک کہ بجٹ بھی طے ہوگیا مگر مرحومہ دادی اماں کی "وفات ثانی" آڑے آگئی اور ہم سد پارہ بنتے بنتے رہ گئے۔
پھر ایک دن میری کھوپڑی گھوم گئی، فروری کے دن تھے، سردی ٹھنڈے توے پر آدھ گرم روٹی کی طرح پڑی تھی، میں نے موسی کے مصلے جانے کا ارادہ بنا لیا، موسی کے مصلے کو بھی ہم چار بار کوئٹہ ہوٹل میں بیٹھ کر "گھوم" چکے تھے۔
اب صحیح معنوں میں جانے کی باری تھی، میں نے کسی کو بھی تیار نہ کیا، اکیلا ہی نکل پڑا، مہربانوں نے کہا۔ "یہاں پر جاتے ہوئے گرمیوں میں ہمت شاپر میں آجاتی ہے اور تم سردیوں میں جارہے ہو اور وہ بھی اکیلے"۔
پلاننگ والے کانٹھ ہم پہلے ہی بھگتا چکے تھے، اس لیے بیگ پیک کیا، گاڑی پر بیٹھے اور سرن ویلی کے آخری قصبے منڈا گچھہ جاکر بریک لگائی، میرے دوست ذیشان فاروق صاحب نے وہاں سے اس اناڑی پارسل کو وصول کیا، جسے نہ ٹریکنگ کا تجربہ تھا، نہ پہاڑوں کا، وہاں سے آگے کا ٹریک ذیشان بھائی کی امارت میں طے ہونا تھا، ہم چار تھے، ایک میں، ایک ذیشان، ایک ہمارے پورٹر نوری بھائی اور ایک خچر۔
قدرت کا الگورتھم خاصا دلچسپ ہوتا ہے، وہ صحیح جگہ صحیح لوگوں کو ملا دیتا ہے، ابھی ہم چلے ہی تھے، ہم چار آٹھ میں بدل گئے، لاہور سے فرخ صاحب، فدا صاحب، بنارس بھائی اور ان کا خچر بھی شامل ہو گئے اور پھر یہ آٹھ تن پاک کا قافلہ موسی کے مصلے کی طرف مزید پاک ہونے چل پڑے اور مصلے کو دیکھئے جیسے جیسے تازہ تازہ ویدوہ (بیوا) ہونے والی ہندو کنیا کی طرح برف کی سفید چادر اوڑھ رکھی ہے، جب برف کو دیکھا تو ایک دفعہ میری بھی ہوا ٹائٹ ہوگئی۔
دل نے کہا۔ "پتر۔ آگیا تو گیا ہے، مگر برف نے تیرے برفانی کوفتے بنا دینے ہیں"۔ مگر میں نے خود کو تسلی دی کہ اب اگر واپس گیا تو سارا سال کوئٹہ ہوٹل پر میری جو درگت بننی ہے کہ ہمارے بغیر گیا تھا نا اب ٹھنڈے ہو۔
اب انہی ہائبرڈ جذبات کے ساتھ ٹریک شروع کیا، ٹریک جھچھہ میڈوز سے شروع ہوتا ہے اور دریائے سرن کے ساتھ ساتھ بل کھاتا ہوا اڈھور میڈوز سے اوپر کی طرف پتلی گلی سے نکل جاتا ہے، دریا پتھروں سے ٹکراتا تو نصرت صاحب کے ہارمونیم کی طرح آواز لگاتا، جیسے نصرت صاحب وٹوں کے پیچھے ساتھ استاد مجاہد علی خان کو لیے ہارمونیم سے انگشت زنی کر رہے ہوں، امیر خسرو ہارمونیم نہ بناتے تو نصرت صاحب کی قوالیاں کہاں امر ہوتیں، میں امیر خُسرو کی لیاقت پر حیران ہوتا ہوں، ایک طرف دانشور، بڑے پائے کے شاعر، گائیگی کا یہ عالم ہندؤں کے بڑے بڑے گرو بھی ان کے سروں کی تاب نہ لا پاتے اور ہاتھوں کی مہارت کا یہ عالم کہ درجن بھر آلات موسیقی بھی ایجاد کر گئے، اگر امیر خُسرو دریائے سرن کے کھردرے پتھروں سے پانی کے ٹکرانے کی آوز سنتے تو ایک عدد راگ ان موجوں پر گھڑ لیتے۔
میں انہی بحری راگوں کو سنتا، ہاتھ میں پکڑی ہائیکنگ سٹک کو گھماتا گھماتا چلا جارہا تھا اور ساتھ ذیشان بھائی کی گپ شپ بھی جاری تھی، کہیں سے ایک عدد لقمہ فرخ صاحب بھی دے دیتے، اڈھور میڈوز تک ہم بڑی آسانی سے آگئے مگر وہاں سے آگے بڑی اعلی قسم کی چڑھائی شروع ہوتی ہے۔
وہ چڑھائی جب پانچ گھنٹے بعد ہم بھگتا کر کھوڑی بیس کیمپ پر پہنچے تو ہمت تھوڑی تھوڑی شاپر میں آنے لگی، پانی ہمارے پاس ختم تھا، چشمے سوکھ چکے تھے، سیلنڈر ہمارے پاس تھا، برف کو پگھلا کر پانی پیا، نوری بھائی جلدی سے کھیر بنا کر لے آئے، شام پونے پانچ کا وقت تھا، برف سے ڈھکی بیس کیمپ کے سامنے ایستادہ کھنڈا پیک پر سورج کی سرخی پڑ رہی ہے، جیسے سورج پارلر والی آنٹی کی طرح کھنڈا پیک کو سرخی پوڈر لگا رہا ہو۔ بھلا ہو ذیشان بھائی کا وہ ساتھ پورٹیبل کرسی بھی لائے تھے، کرسی برف میں گاڑی، ساتھ گرما گرم کھیر اور ساتھ برف کے نظارے۔
ابولا الکلام آزاد کہتے تھے لوگ چائے کو چائے کے لیئے نیں پیتے بلکہ چینی اور دودھ کے لیے پیتے ہیں۔
میں بھی کھیر کو کھنڈا پیک کے حسین منظر کے لیے کھا رہا تھا۔ اتنے میں نوری بھائی آگ کا الاؤ روشن کر دیتے ہیں، ہم آگ تاپ رہے ہیں، گپیں چل رہی ہیں، ساتھ ہی ہمارے شیف بریانی بنا رہے ہیں، اس برفانی ویرانے میں جہاں پانی تک نہیں ہے وہاں تازہ تازہ چکن بریانی پخور کے چرسی تکہ کی درجن کڑاہیوں پر بھاری ہے، میں چرسی تکہ اور شینواری کا اتنا شوقین ہوں، ایک دفعہ کام دوست کا تھا پشاور میں مگر میں صرف اور صرف چرسی تکہ کھانے کے لیے اس کے ساتھ لٹک گیا۔
یہاں تو مصلے پر حاضری دینے آئے تھے، اتنے میں خبر ملی کہ ایک ٹیم نے آج ٹاپ پر جانے کی کوشش کی ہے مگر ذیادہ برف کی وجہ سے راستے سے واپس آگئی۔
دل نے کہا۔ "پتر تیرا پروگرام تو وڑ گیا ہے، اب وہابیوں کی مسجد میں صرف عید کے عید مصلے پر حاضری دیا کرنا"۔
نوے فیصد یقین یہی تھا کہ ہم راستے سے واپس آئیں گے۔ صبح بیس کیمپ سے چلنا شروع کیا، پہلے برف گٹوں تک تھی، پھر گوڈوں تک آئی اور جب گلی تک پہنچے تو برف نے چھپا ڈال کر کمر تک اپنے اندر دھنسا لیا، ہم برف میں چل نہیں رہے تھے بلکہ برف میں "تیراکی" کر رہے، گلی تک پہنچے پر موسی کا مصلہ آپ کو چار قدم کے فاصلے پر لگتا ہے، یہ تو گھنٹے کی مار ہے۔
پھر ایک گھنٹہ گزرا، پھر دو، پھر پانچ گھنٹے گزر گئے مگر مصلہ ہاتھ نہیں آرہا، اوپر سے کمر تک آئی برف، مشکل راستہ، سخت چڑھائی، تیرہ ہزار فٹ کے بعد سے اکسیجن کی کمی کی وجہ سے ایک قدم دس قدم کے برابر لگ رہا ہے۔
دل میں کہہ رہا ہوں۔ جانی کیا ضرورت تھی یہ کھرک لینے کی۔
ایک دفعہ ارادہ کر لیا کہ چھوڑو مصلے کو، واپس چلتے ہیں، مگر پھر نہ جانے کیوں چلتا گیا اور مصلے سے تھورا نیچے شاہ بابا کی قبر تک پہنچ گئے۔
موسی وہاں کے مقامی چرواہے کا نام تھا، جو نماز پڑھنے کے لیے اس چوٹی پر آیا کرتا، ایک دن موسی بابا یہاں آئے موسم خراب ہوگیا اور باباجی یہیں کے ہو کر رہ گئے، ان کی تلاش میں شاہ بابا چوٹی کی طرف بڑھے اور پوری ترتیب کے ساتھ مصلے کے نیچے اللہ کو پیارے ہو گئے۔
پاکستان میں بابے اقبال کے شاہین واقع ہوئے ہیں، چار ہزار میٹر سے بلند کسی چوٹی پر بسیرا نہیں کرتے، ٹولی پیر سے لے کر نوگزی تک ساری چوٹیوں پر بزرگ ہی بزرگ ہیں۔
کسی باہمت بزرگ نے کے ٹو پر چڑھ کر چلہ لگانے کی کوشش نہیں وگرنہ آج کے ٹو کا نام کنکوڈیا شریف ہوتا۔
شاہ بابا کی قبر کے بعد آخر کار موسی کا مصلہ آگیا، وہاں ہم سے پہلے بنارس بھائی پہنچے ہوئے تھے، بنارس بھائی ہاتھ میں کلہاڑی تھامے برف میں راستہ بناتے بناتے ہمیں مصلے تک پارسل کر دیا۔
جب آپ کسی پہاڑ کی چوٹی پر اتنی مشکلات کے بعد پہنچتے ہیں، جو احساس ہوتا ہے پہاڑ فتح کرنے کا وہ تو بس بقول انور مسعود "ان بیان ایبل" ہے۔
ادھر دیکھو مکڑا پیک نظر آرہی ہے، ادھر چرکو پیک، ایک طرف سوکائی سر مصری دوشیزہ کے لمبے گلے کی طرح کھڑی ہے اور دور کہیں مرشد نانگا پربت بھی بادلوں کے پیچھے کنڈ مارے نظر آرہے ہیں۔
اصل امتحان تو ٹاپ سے نیچے اترنا تھا، پانی ختم ہوچکا تھا، برف کھا کھا کے معدہ اور گلا دونوں جواب دے چکے تھے، پانی نہ ہونے کی وجہ سے جسم جواب دے گیا اور میں بے جان ہو کر برف پر ہی لیٹ گیا، پھر میں بیس کیمپ تک کیسے آیا، یہ الگ داستان ہے، مگر موسی کے مصلے نے کوہ نوردی کی چس لگائی کہ میں اس سال گھر میں کم اور پہاڑوں پر زیادہ مارا مارا پھر رہا ہو۔

