Lady Evelyn Cobbold Aur Halki Phulki Tanqeed
لیڈی ایولن کبولڈ اور ہلکی پھلکی تنقید

لیڈی ایولن کبولڈ زینب پہلی برٹش خاتون تھیں جنھوں نے حج کیا تھا، 1933 میں حجاز آئیں، اس وقت حجاز میں تازہ تازہ خاندان سعود کی حکومت قائم ہوئی تھی، محمد بن عبد الوہاب کے نجدی پیروکار مکہ مدینہ میں دندناتے پھر رہے تھے، کوئی مزار ان کے ہاتھوں سے محفوظ نہ تھا، صحابہ سمیت کئی شخصیات کی قبروں پر بنے مزارات کو اپنی نجدی کدالوں سے مسمار پر مسمار کیے جا رہے تھے۔
لیڈی ایولن کبولڈ نے مکہ مدینہ پر اس نجدی یلغار کو بڑے قریب سے دیکھا، حج سے واپسی پر کبولڈ زینب نے pilmirege to mecca کے نام سے معرکہ آرا کتاب لکھی۔
کتاب محض حج نامہ نہیں ہے، اس وقت کے حجاز کے رہن سہن کے متعلق ایک اہم دستاویز ہے جسے ایک بالکل اجنبی دنیا سے آئی فرنگی خاتون نے لکھا۔
لیڈی ایولن کبولڈ نے جب وہابیوں پر لکھا تو ان کی خشک مزاجی اور سنگلاخ عقیدوں پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا "ان کے ہاں گانا موسیقی، تمباکو سنگین گناہ ہیں"۔
پھر ایک عدد نیک خواہش ان کے لیے لکھی "امید ہے زمانہ وہابیوں کی ترش روئی کو گھٹا دے گا اور طریقہ اعتدال سکھا کر دوسرے مسلمان بھائیوں کی طرف ان کے دل نرم کر دے گا"۔
افسوس کہ لیڈی ایولن کی نیک خواہش پوری نہ ہو سکی اور زمانہ وہابیوں کا کچھ خاص اکھاڑ نہ پایا اور ترش روئی کی سلیں ان پر دن بدن اترنے کے بجائے چڑھتی جا رہی ہیں۔ وہابی بے چارے کریں بھی کیا، بنیاد کا پہلا پتھر ہی غلط پڑا، بریلویت اور دیوبندیت تعلیمی تحریکیں تھیں، برصغیر میں وہابیت یا سلفیت تعلیمی کے بجائے لڑاکو تحریک سے شروع ہوئی۔
سید احمد شہید کو نہ جانے کیا سوجی، کہ انگریزوں کو چھوڑ کر سکھوں پر چڑھ دوڑے، دوست سید احمد شہید پر میرے نقد سے ناراض ہو جاتے ہیں انھیں شاید یہ نہیں معلوم کہ میرے آباء و اجداد سید احمد شہید کے ساتھ تحریک مجاہدین میں شامل تھے اور بریلی سے ان کے ساتھ تحریک میں شامل ہو کر ہزارہ تک آئے اور پھر یہیں کے ہو کر رہے، اگر میں اپنے آباء پر نقد کرنے کا جگرا رکھ سکتا ہوں، تو پھر جن کا محص سید احمد شہید سے عقیدت کا تعلق ہے وہ کیا وہ تنقید سننے کا جگرا بھی نہیں رکھ سکتے۔
برصغیر کے وہابی اسی تحریک سے پھوٹے، سید احمد شہید کے مجاھدین بڑے خشک مزاج اور حکمت دین سے خالی تھے، پشاور پر قبضہ کیا تو اپنی عجیب حرکتوں کو نفاذ شریعت کا نام دے ڈالا، جسے قبائلی زیادہ دیر ہضم نہ کر پائے اور انھیں وہاں سے بھگا ڈالا۔ بالاکوٹ میں اسی "نفاذ شریعت" کے متاثرین نے ریکی کرکے سید احمد کو شہید کروا دیا۔ بعد میں حسین بٹالوی، داؤد غزنوی کا خاندان بھی وہابیت کی پرورش کرتا رہا۔
مگر اہلحدیث کی نشاۃ ثانیہ علامہ احسان الٰہی ظہیر کے ہاتھوں ہوئی، وہابیوں کی پوری لاٹ میں سب سے دلچسپ اور قابل علامہ صاحب تھے، مدینہ یونیورسٹی سے پڑھے تھے، چاہتے تو گرانڈیل حلیہ والے سلفی بن جاتے۔
مگر کیا نفاست تھی، ترشی ہوئی ہلکی ہلکی داڑھی، آنکھوں پر جارج کلونی کی طرز کا کالا چشمہ، عربی دانی کا یہ عالم کہ ان کے سامنے اہل زبان بھی گونگے محسوس ہوتے، شلوار کے معاملے میں کمزور سے کمزور سلفی بھی خاصا سخت ہوتا ہے کہ ٹخنے ننگے رکھنے ہیں، مگر اہلحدیث کے سرخیل کا یہ عالم کہ شلوار اتنی لمبی کہ ٹخنوں کو تو چھوڑیئے پاؤں کے کھر بھی ڈھانپے جاتے۔
آج کل کے ہمارے اہلحدیث کو دیکھیں، بکھری ہوئی داڑھی، نہ تیل نہ کنگی، نہ تراش نہ خراش، شلوار کے ٹخنے ننگے رکھنے کا حکم ہے مگر بعضے اہلحدیث تو گھنٹا تک ننگا رکھنے پر تل جاتے ہیں، جس کی برکت سے ان کی بالوں سے بھری خوفناک کھردری پنڈلی کی ہیبت اہل بدعت کے سینوں پر برابر مونگ دلتی رہتی ہے۔
مگر کیا کریں اہلحدیث نام کے سلفی ہیں، اگر اسلاف کو مانتے تو کم از کم اپنے مجدد علامہ صاحب کی تقلید کر لیتے۔
علامہ صاحب کے بعد کوئی عدد دانہ بھی اہلحدیث پیدا نہیں کر سکے، ساجد میر مرحوم ہومیوپیتھک قسم کے سلفی تھے، ساری لیڈر شپ کی کیسٹ ایک عدد سینٹ کی سیٹ میں پھنسی رہتی، علامہ احسان کے بیٹوں نے بھی باپ سے صرف گھن گھرج ہی پائی، دونوں بھائی خطیب کم بمبار زیادہ ہیں، ممبر پر بولتے کم اور پھٹتے زیادہ ہیں، ایک گرنیڈ ہے تو دوسرا بزوکا۔
یار دوست نہ سمجھیں کہ میں بغض وہابیت میں یہ لکھ رہا ہوں، میں خود کو سرکاری سلفی سمجھتا ہوں اور لبرل سلفی کہلواتا ہوں، میرا ماننا ہے کہ بندے کو اپنا فرقہ کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے، اتحاد امت اور بین المسالک ہم آہنگی والے فریب میں بہت پہلے بھگتا چکا ہوں، فرقے ختم نہیں ہو سکتے، بندہ مذہب چھوڑ سکتا ہے پر فرقہ نہیں، مذہب عقائد کا نام ہے، فرقہ کلچر کا نام ہے، عقائد و نظریات بدلے جا سکتے ہیں پر کلچر نہیں۔
اس لیے یہ بغض وہابیت نہیں بس ہلکی پھلکی تنقید ہے، جو آنر آبیل لیڈی ایولن کبولڈ کی وہابیوں کے متعلق نیک خواہش پورا نہ ہونے پر افسوس میں کی ہے۔
پاکستانی وہابی تو ترش روئی کو ختم نہ کر پائے مگر سعودیہ والے خاصے سیانے نکلے، وہ کروڑوں عربوں ڈالر سلفیت پراجیکٹ پر لگا کر یہاں دیسی نجدی انسٹال کر گئے اور خود پتلی گلی سے نکل گئے، اگر موقع ملے تو مداوی الرشید کی لکھی کتاب kingdom with out border پڑھ لیجیے گا، ہندی نجدی تیار کرنے پر کتنی سرمایہ کاری ہوئی پڑھ کر چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔
مگر جیسے ڈرگ ڈیلر خود نشہ کے قریب نہیں بھٹکتا یہی کام سعودیہ نے کیا، یہاں مساجد کے ممبروں پر "علامہ بدعت شکن" میزائل نصب کرکے خود شراب کے لائسنس بانٹ رہا ہے۔

