Be Ustadi Nasal
بے استادی نسل

کسی دور میں اشفاق احمد صاحب کو بابے دریافت کرنے کا چسکا لگا ہؤا تھا، وہ بابوں کی زیارت نہیں بلکہ ان کی شاپنگ کیا کرتے اور انھیں شاپر میں بھر کے اپنے پروگرام زاویہ میں لاکر شاپر انڈیل دیتے۔۔
اشفاق صاحب کی اس بابا کھوج قسم کی لت پر قدرت اللہ شہاب نے شہاب نامہ میں بھی لکھا۔ مگر سب سے دلچسپ تبصرہ انتظار حسین نے اپنی کتاب چراغوں کا دھواں میں ان الفاظ میں کیا۔۔
"بابے کی تلاش کے شوق نے رفتہ رفتہ یہ شکل اختیار کر لی تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد کونے کھڈرے سے ٹٹول کر کسی بابے کو لاتے ہیں، گھر میں یاروں کو جمع کرکے کھلاتے پلاتے ہیں، اپنی نئی دریافت پر ان سے داد مانگتے ہیں اور جب اس نئے بابے سے دل بھر گیا تو اسے فراموش کرکے کسی نئے بابے کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ پھر کوئی نرالا دانہ ڈھونڈ کر لانا، یاروں کی دعوت اور نئی دریافت پر داد مانگنا"۔
بابے ڈھونڈنے کا بھی اپنا ہی چسکہ ہے، کچھ لوگ ساری عمر گرو ڈھونڈتے رہتے ہیں، کچھ مرشد ڈھونڈھنے کی کھرک میں روحانیت کی ونڈو شاپنگ میں مست رہتے ہیں مگر ہاتھ کچھ نہیں آتا سوائے پیا رنگ کالا جیسی کتابوں کے۔۔
بابا محمد یحیی بھی کچھ اسی طرح کی فلم ہیں۔۔
اشفاق احمد صاحب کا غلط سلط ترجمہ ہیں، آڑا ترچھا کالا لباس زیب تن کے ملامتی صوفی بننے کی ریہرسل کرتے کرتے سات آٹھ تولے بڑھایا بھی گزار لیا۔۔
اشفاق صاحب کی طرح بے سر پیر قسم کی بابی باتیں بڑی فینسی اردو میں کر جاتے ہیں۔۔ آپ سٹیمنا دیکھیں کہ اسی چکر میں پیا رنگ کالا اور کاجل کوٹھا جیسی دو ضخیم کتابیں بھگتا لیں۔۔
مگر نام کی طرح کتاب کا مدعا سمجھ سے باہر ہے۔۔
کچی جوانی میں ایک وقت آتا ہے جب تلاش مرشد کی خارش بعض سالکین کو شروع ہوتی ہے، نوخیز سالکین مرشد کھوجنا شروع کرتے ہیں بلکہ کھوجنے سے ذیادہ اشفاق صاحب کی طرح ان کی شاپنگ شروع کرتے ہیں۔۔
تصوف کے ابتدائی مرحلہ میں نئے آنے والے سالکین کو کرامات کا بڑا کریز ہوتا ہے، کشف کا چسکا ہوتا ہے، اس لیئے کوشش ہوتی ہے کوئی ایسا مرشد ہاتھ لگے جس کی کرامت کا ڈنگ سب سے تیز ہو، حضرت کے کشف کی دھار اتنی تیز ہو کہ ادھر مرید سوچے ادھر مرشد پر سب حال کھلا جائے۔۔
ہم بھی بہت سے مرشدوں کے کرامات کی ریسپی دیکھنے کے چکروں میں پڑے۔۔ مگر جلد ہی اندازہ ہوگیا احقر مرشد میٹریل نہیں ہے۔۔ ہمیں نہ ہی کبھی استاد راس آئے، نہ مرشد اور نہ پیر، جو بھی مرشد غلطی سے راس آیا تھوڑے ہی عرصہ میں بنی بنائی علمی ہنڈیا کو کھر مار کے بدک گیا۔۔
پہلے لگتا تھا شاید استاد اور مرشد ہمیں اصیل قسم کے نہیں ٹکر رہے اس لیے شاگردی کا رشتہ صحیح طرح چل نہیں پا رہا۔۔
پھر احساس ہوا کہ شاید ہمیں آداب فرزندی نہیں آتے۔۔ مگر آخر میں جا کر احساس ہوا کہ انسانوں کی ایک نسل بے استادی ہوتی ہے۔۔ اسے کوئی استاد راس نہیں آتا، وہ کبھی استاد سے سیکھ ہی نہیں سکتی، نہ ہی مرشد کی چھتر چھایا میں پروان چڑ سکتی ہے۔۔
ایسی بے استادی نسل خود ہی ہر طرح کے پنگے لیتی ہے، خود ہی رگڑے کھاتی ہے اور خود ہی سیکھتی ہے، استاد ہو سکتا ہے اس نسل میں معلومات کا انسائیکلوپیڈیا انسٹال کردے مگر معلومات کے انبار سے جو الٹا سیدھا اس نے تخلیق کرنا ہوتا ہے یہ وہ خود ہی کرتی ہے۔۔
میرے ایک دوست جو سابقہ کامریڈ تھے اب عرصہ ہوا کہ تبلیغی جماعت کو پیارے ہو چکے ہیں۔۔ ویسے کامریڈ ازم اور تبلیغی جماعت میں ایک چیز تو مشترک ہے ایک وسائل کی برابر تقسیم چاہتا ہے اور دوسرا روحانی فضائل کی منصفانہ تقسیم۔۔ خیر جب میں نے ایسے بے استادے قسم کے خیالات کا اظہار سابقہ کامریڈ اور موجودہ امیر صاحب کے سامنے کیا تو اس نےفوراً امام غزالی کا ایک قول میری طرف لڑکھا دیا۔۔
"جس کا کوئی استاد نہیں اس کا استاد شیطان ہے"۔
خدا معاف فرمائے ہمارا استاد شیطان ہو۔
علامہ عمر ابو النصر قدسی نے اپنی کتاب یزید بن معاویہ میں یزدیہ نامی ایک فرقے کے حالات لکھے ہیں، ان کے سات معبودوں میں سے ایک یزید ہے اور ایک شیطان۔۔
شیطان کے بارے ان کا خیال یہ ہےکہ سب سے بڑا توحید پرست شیطان تھا، اس کی توحید کا کمال یہ ہے کہ اس نے خدا کے سوا کسی کے آگے سر نہ جھکایا اور خدا کے کہنے کے باوجود انسان کو سجدہ نہ کیا۔۔ (یزید بن معاویہ صفحہ 15)
خدا معاف کرے ایسے گھناؤنے خیالات سے۔۔
ویسے معلومات کے لیے ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فرقے کے بانی شیخ فخرالدین پر سب سے زیادہ اثر امام غزالی کے بھائی ابو الفتح احمد بن غزالی کا ہی تھا جن کا قول سنا کر امیر صاحب نے ایسی بے استادی نسل کو لتاڑا تھا۔۔
میں بھی کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہا ہوں۔۔
بس سوچ رہا تھا ایسے موقع پر ایسی بےاستادی نسل پر بھی کچھ لکھ دوں جو ہیپی ٹیچرز دے لکھنے سے کرنٹ کھاتے ہیں۔۔

