Badnaseeb Sooba
بد نصیب صوبہ

میرا پختونخوا ایک بد نصیب صوبہ ہے، جس میں کم و بیش پندرہ سال سے ایک ہی پارٹی پنجے جمائے ہوئے ہے۔۔ اس سے بڑا ظلم یہ کہ ایک کمزور وزیر اعلیٰ کا انتخاب ہر دفعہ کرکے صوبہ کو کمزور اور پارٹی کی شخصیت کو مضبوط کیا جا رہا ہے۔۔
پچھلے ایک دہائی سے یہی چکر چلا آرہا ہے۔۔ یہ میرے پختون خواہ کی توہین ہے کہ اس کو ہمیشہ کٹھ پتلی حکومت ہی ملے۔۔ جن کے دل و دماغ بنوں، پشاور، پارا چنار، ہزارہ کی فکرکے بجائے بنی گالہ کی فکر میں گھلے جاتے ہیں۔۔
اب بدقسمتی کی انتہا دیکھیے۔۔ جو بھی وزارت اعلیٰ کے منصب پر بیٹھتا ہے یکدم وہ مولا جٹ بن جاتا ہے۔۔ اس کی ترجیح عوام نہیں ہوتی بلکہ اڈیالہ جیل پر دھاوا بولنا ہوتا ہے۔
وہ پھر سارے رسے تڑا کے میرے پختون خواہ کے جوانوں کو لے کر انہیں کبھی برہان انٹر چینج پر پولیس کے ہاتھوں ذلیل کرواتا ہے تو کبھی اسلام آباد کی تارکول سے لدی سڑکوں پر ان کا خون رینجر کے ہاتھوں بہاتا ہے۔۔
پچھلے دو سال سے یہی سرکس چلا آرہا ہے۔۔ نہ کوئی تعمیراتی کام ہوا نہ تعلیمی منصوبہ، نہ ہی کچھ اور۔۔ کارکردگی کو ناپنا ہو تو پشاور کے وزیر اعلیٰ ہاؤس سے اڈیالہ تک فیتہ لے کر بیٹھ جائیں۔۔ پارٹی میں کارکردگی کا معیار یہ ہے کہ خان سے جیل میں ملاقات کرنے میں کون کامیاب ہوا۔۔
ایک ایسا ہی شگوفہ لکی مروت کا بھی یکدم وائرل ہوا تھا۔۔ اس کا کل ملا کہ کمال یہ تھا کہ وہ خان کی زیارت جیل میں کرتا اور مرشد کے پیغام کو اٹالین سوٹ، سرخ ٹائی اور کوٹ کے ساتھ لدے یوٹیوب کے چمونوں کے چپکائے گے مائیک کے ساتھ خشوع وخضوع سے سناتا۔۔
اس طرح خانقاہیں چلا کرتیں ہیں سیاسی جماعتیں نہیں۔۔ جہاں ایک مرشد روحانیت کے اڈیالہ میں خود کو بند کر دیتا ہے اور صرف ایک چیلہ خاص کو اذن بازیابی بخشتا ہے اور وہ مرشد کا وظیفہ تمام مریدوں کو بتاتا ہے۔۔ اگر پارٹی کے سربراہ بھی مرشد کا درجہ اختیار کر جائیں تو وہ تحریک صوفیاء تو بن سکتی ہے تحریک انصاف ہر گز نہیں۔۔
تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے اگر صوفیوں کے ہاتھ سیاسی طاقت لگ جائے تو ملاؤں سے ذیادہ خطرناک ثابت ہوتے ہیں، قزلباش بھی ایران کے صوفی تھے۔۔ دم درود والے تھے مگر پھر یہ خانقاہوں سے نکل رسم شبیری ادا کرنے کے چکر میں تاریخ کے پہلے ملی ٹینٹ صوفی بن گئے۔۔
خان صاحب بڑی کامیابی سے کپتان سے مرشد کے رینک پر پروموٹ ہوئے ہیں۔۔ اگلا رینک تھوڑا خطرناک ہے۔۔ اگر مرشد نرگسیت کا مارا ہو تو بنی گالہ کے گرد نیا ربوہ کھڑا کرنے میں دیر نہیں لگے گی۔۔ مجھے مرشد سے گلہ ہے کہ وہ سیاسی نرگسیت کے چکر میں ایک طاقتور وزیر اعلیٰ میرے صوبے کو نہیں دے رہا جو کچھ آزادی سے کام کر سکے۔۔
پنجاب پر بزدار کو نافذ کرکے پنجاب کی توہین پنجاب نے صرف ایک بار برداشت کی۔۔ مگر میرا پختونخوا تو ہر بار یہ ذلت کا گھونٹ بڑی خوشی سے پی جاتا ہے۔۔ کیونکہ ہمیں سیاست دان نہییں کھمبے چاہیے۔۔
جب عوام کا ذہن یہ ہو کہ مرشد پاک اگر کھمبے کو بھی الیکشن میں کھڑا کریں گے تو ہم اسے بھی ووٹ دیں گے۔۔ نتیجتاً پچھلے پندرہ سال سے ہمارے ہاں سیاست دان کم اور کھمبے زیادہ نصب ہیں۔۔
کھمبوں کی ایک لاٹ پشاور سے اڈیالہ تک نصب ہے دوسری بنی گالہ تک۔۔ شازو نادر دو عدد کھمبے "پنڈی بوائز" بھی اکھاڑ کر لے جاتے ہیں۔۔ جس کے نتیجے میں مرشد کے پالے ہوئے کی بورڈ صوفی بھی اچھل کود شروع کر دیتے ہیں۔۔
اب ہم کھمبوں کا انتخاب کرکے رو رہے ہیں۔۔ یہ اس وقت سوچنا چاہیے تھا۔۔ کھمبے صرف نصب کیے جاتے ہیں ان کا اور کوئی کام نہیں ہوتا۔۔ کھمبے صوبہ نہیں چلاتے۔۔ یہ صرف حقیقی آزادی کے پوسٹر ٹانگنے کے ہی کام آتے ہیں۔۔
انقلاب کے پچونگڑے ان پوسٹرز کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔۔ ابھی پوسٹر پھٹے گا اور ہیرو آٹھ سو چار کا وظیفہ پڑھتے ہوئے نکلے گا۔۔
یہ سب لکھنے سے پہلے میں نے ایک ڈاکٹر سے چیک آپ کروایا۔۔ اس نے بھی مایوسی سے بھری آواز میں کہا۔۔ برخوردار تمہیں کوئی مرض نہیں سوائے بعض عمران کے جو اب تک لاعلاج ہو چکا ہے۔۔

