Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zia Ur Rehman
  4. Ghalat Muhim Ka Hissa Na Banen

Ghalat Muhim Ka Hissa Na Banen

غلط مہم کا حصہ نہ بنیں

ایک بزرگ فوت ہو گئے۔ کچھ عرصہ بعد اپنے کسی رشتہ دار کو خواب میں ملے۔ جنت و دوزخ کی سیر کا بتانے لگے، کہنے لگے کہ دوزخ کی سیر کے دوران دیکھا کہ ہر قوم کی دوزخ الگ الگ ہے جن کے سر پر چند فرشتے گُرز پکڑ کر کھڑے ہوئے تھے جو اس دوزخ میں سے نکل کر جنت کی طرف بھاگنے والے بندوں کے سر پر ڈنڈے مار کر انہیں واپس انکی دوزخ میں ڈال دیتے تھے لیکن حیرت انگیز طور پر پاکستان نامی قوم کی دوزخ پر ایک بھی فرشتہ معمور نہیں تھا، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہاں پر فرشتے کھڑا کرنے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ اگر قسمت سے کوئی بندہ اپنا سر تھوڑا سا باہر نکال ہی لیتا ہے تو پچھلے اسے خود ہی نیچھے کھینچ لیتے ہیں۔

یہ تو تھا ایک بچپن کا لطیفہ، لیکن رونے کا مقام یہ ہے کہ ہم پوری کوشش کرکے اس لطیفہ کو حقیقت میں بدل چکے ہیں۔ اس افسوسناک مقام پر پہنچنے کے لئے ہم نے اپنی عقل و شعور کی جو قربانی دی ہے اسکو آئیندہ آنے والی اقوام کو اپنی کتابوں میں پڑھانا چاہیئے۔

پچھلے چند دنوں سے پاکستان کی دو ایسی کمپنیوں کے خلاف پورے ملک کے سوشل میڈیا کے صارفین آنکھیں اور دماغ بند کرکے کمنٹ کرنے میں لگے ہوئے ہیں جنہیں مکمل طور پر سیلف میڈ پاکستانیوں نے اپنی محنت سے اس مقام پر پہنچایا ہے۔ ایک طرف ہم ملٹی نیشنل کمپنیوں کے خلاف بے ہنگم قسم کی بائیکاٹ مہم چلانے میں لگے ہوئے ہیں اور دوسری طرف اپنی ہی کمپنیوں پر جھوٹے الزام لگا کر انکا بھی نقصان کر رہے ہیں۔

خدا کا واسطہ کوئی اندھا ہی ہوگا جسے پیکنگ کرتے ہوئے اتنا بڑا زندہ چوہا نظر نہیں آیا۔ پھر کوالٹی کنٹرول والوں کو نظر نہیں آیا، پھر فیکٹری سے لوڈ کرنے والوں کو نظر نہیں آیا، وہاں سے دکان پہنچانے والوں کو نظر نہیں آیا، پھر دکان پر ان لوڈ کرنے والے لڑکوں کو نظر نہیں آیا، پھر ڈسپلے والوں کو نظر نہیں آیا، پھر کائونٹر پر بل کرنے والے لڑکے کو نظر نہیں آیا، پھر چیزوں کو شاپر میں ڈالنے والے لڑکے کو نظر نہیں آیا۔ اور تو اور، چوہا صاحب جو بجلی کی تاروں کو کتر جاتا ہے، اس سے یہ پلاسٹک نہیں کترا گیا۔

میں بچپن سے ابھی تک مختلف بسوں میں سفر کرتا آیا ہوں۔ اس زمانے سے جب پہلی دفعہ نیو خان فلائنگ کوچ سروس نے اڈا سے اڈا تک ایک سٹاپ متعارف کروایا تھا اور اڈا کے علاؤہ کہیں اور سے سواری نہیں اٹھاتے تھے، درمیان میں صرف ایک جگہ سٹاپ لیتے تھے۔ اسکے کئی سال بعد ڈائیوو بس سروس آئی جس نے پبلک ٹرانسپورٹ کو نئی جہت دی۔ اور اب فیصل موورز کا دور ہے۔ بلامبالغہ، فیصل موورز پر میرے 100 سے زائد سفر ہو چکے ہوں گے۔ مجھے نہیں یاد پڑتا ہے کبھی انکے سٹاف نے کبھی بد تمیزی کی ہو یا نماز کا وقت ہو اور سروس ایریا قریب ہو اور انہیں درخواست کریں تو انہوں نے بس نہ روکی ہو۔ لیکن 100 میں سے کم از کم 75 دفعہ کوئی نہ کوئی ایسی چول سواری ضرور ٹکرتی ہے جسے بغیر وجہ کے بات کا بتنگڑ بنانے کا شوق ہوتا ہے۔

مجھے سو فیصد یقین ہے کہ فیصل موورز کے خلاف بائیکاٹ مہم چلانے والوں میں 100 میں سے 90 بندے وہ لوگ ہیں جنہوں نے آج تک کبھی فیصل موورز کو نماز کے لیے روکا ہی نہیں ہوگا۔ ہاں البتہ خود ہماری عوام کا یہ حال ہے کہ پتہ ہونے کے باوجود کہ سواری کو اڈا کے علاؤہ کہیں نہیں اتار سکتے، اکثر اوقات لوگوں کو "راستہ میں ہی اترنے کا کیڑا" ضرور تنگ کرتا ہے۔ ہیلپ لائن پر کال کرکے اگر آپ پوچھیں گے کہ آیا کمپنی کسی بھی نماز کے وقت سڑک کنارے بس کھڑی کرے گی تو اسکو جواب نفی میں ہی ملے گا، اور اس جواب کا مطلب یہ اخذ کرنا کہ انکی پالیسی میں ہے کہ نماز کے لئے بس کھڑی نہیں کرنی، تو پھر آپکو سو کوڑے مار کر ایک گننا چاہیئے۔

انتہائی نا پسندیدہ عمل ہے کہ بغیر سوچے سمجھے کسی کی مجرمانہ ذہنیت کا ساتھ دیں۔ غلط مہم کا حصہ بننے سے نہ صرف اجتناب کریں، بلکہ ایسے بد ذہن لوگوں کا بائیکاٹ کریں۔

Check Also

Technology Bhagwan Hai Sahib

By Mubashir Ali Zaidi