Mujh Se Mera Wajood Wapis Le Lo (1)
مجھ سے میرا وجود واپس لے لو (1)
یہ زندگی کیا ہے؟ اس زندگی کا مقصد کیا ہے؟ ایک دن ہم سب مر جائیں گے۔ تو پھر اتنا لمبا عرصہ جینے کا مقصد کیا ہو سکتا ہے؟ کیا میں اس سیارے پہ فقط اس لئے ہوں کہ میں کھاؤں پیوں، نو سے چار یونیورسٹی جاؤں، نوکری کروں اور مر جاؤں؟میری زندگی کا تو کوئی مقصد ہی نہیں، بہتر یہی ہے کہ مجھے مر جانا چاہیے۔ نہیں، نہیں، اگر میں مر گیا تو میرے پیاروں کا کیا ہوگا؟ لیکن! کیا واقعی میرے پیارے مجھ سے اتنا پیار کرتے ہیں، جتنا میں کرتا ہوں؟
میری بیوی تو ہر وقت میری برائیاں کرتی ہے، ایسے میں میرے جینے کا کیا مقصد رہ جاتا ہے؟ مجھے یہاں نہیں ہونا چاہیے تھا۔ فار گاڈ سیک، اگر پیدا کرنے سے پہلے مجھ سے آنے کا نہیں پوچھا گیا تھا تو اب جان لو، میں یہاں نہیں رہنا چاہتا، مجھ سے میرا وجود واپس لے لو۔
وجود کا بحران
اوپر موجود دو جملے پڑھ کر آپ سمجھ رہے ہونگےکہ، شائد ضیغم کلینیکل ڈپریشن کا شکار ہو گیا ہے۔ وہیں آپ میں سے بہت سے لوگ یہ سمجھ رہے ہونگے کہ آج تو ضیغم نے ہماری ترجمانی کر دی، واقعی ہی ہمارے وجود میں آنے کا کوئی مقصد نہیں ہے، پھر ہم اس سیارے پہ کیوں ذلیل و خوار ہوں؟ آخر یہ غم ہمیں ہی کیوں لگتے ہیں؟ باقی دنیا تو خوش رہتی ہے۔
لیکن میں نا ہی ڈپریشن میں ہوں ،نا ہی میں کسی کے جذبات کی ترجمانی کی کوشش کر رہا ہوں بلکہ میں اس نفسیاتی حالت کا ذکر کرنے لگا ہوں، جس سے اس کرہ ارض پہ موجود ہر شخص زندگی کے کسی نا کسی حصے میں گزرتا ہے اور وہ یہ شدت سے محسوس کرتا ہے کہ، اسکے وجود کا کوئی مقصد ہی نہیں، اسے یہاں نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس بحران میں مبتلا بہت سے لوگ خود کو یا دوسروں کو نقصان پہنچا بیٹھتے ہیں۔
انیسویں صدی تک، وجود کے بحران یا existential crisisکا کسی کو بھی پتا نہیں تھا۔ فلسفی کرکگرد نے جہاں اس بحران کو موروثی کہا ،تو وہیں نطشے نے کہا کہ مذہب اور روایتی اخلاقیات سے دوری اس بحران کی وجہ بنے۔مگر کیا واقعی ہی یہ سب اس بحران کی وجہ بنتے ہیں؟کوئی بھی شخص وجودی بحران میں تب جاتا ہے، جب وہ زندگی کے کسی اہم موڑ سے گزرتا ہے۔ جیسے نئے نئے بالغ ہوئے بچے یا عمر کا بہت بڑا حصہ گزار چکے بالغ، یہ لوگ اکثر خود سے اپنے وجود کے بارے میں سوال پوچھتے ہیں اور اکثر کسی بھی جواب کو تسلی بخش نہ سمجھ کر یہ ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں۔
اسی طرح کسی قریبی عزیز کی موت یا پھر کسی ایسے شخص سے دوری، جس سے ہمیں بے پناہ پیار ہو چکا تھا، ایسی حالت کی طرف لےجاتی ہے۔اس میں کوئی بھی شخص کسی بھی فیصلے کو قبول کرنے کی بجائے، اپنے وجود پہ سوال اُٹھانا شروع کر دیتا ہے۔ جیسے کوئی بچہ والدین سے دور تعلیم حاصل کرنے جا رہا ہو، یا کسی کا اپنا پیار چھوڑ کر چلا گیا ہو۔ یہ سب وجود کے بحران میں چلے جاتے ہیں۔اس بارے میں ژاں پال سارترے، کرکگرد، دوستوسکی اور نطشے کا بہت کام ہے۔Existentialistsکے بقول ،ہر شخص کو اپنی زندگی کے کسی نا کسی موقعہ پہ ایسی صورتحال سے گزرنا پڑتا ہے، جس کے بعد اسکے جینے کا انداز بدل کر رہ جاتا ہے اور ایسا ہونا ناگزیر ہے۔
اس بحران کی کئی اقسام ہو سکتی ہیں جیسا کہ،فیصلہ کرنے اور احساسِ ذمہ داری کا خوفہم سب فیصلہ کرنے میں آزاد ہیں ،اور اس آزادی کے بدلے میں ہم کو بہت سی ذمہ داریاں ملتی ہیں ،ایسے میں بعض موقعوں پہ کوئی یہ سوچنا شروع کر دیتا ہے کہ ایک نا ایک دن میں نے مر ہی جانا ہے، ایسے میں بڑی تصویر میں ان فیصلوں کا کیا مقصد ہوا؟ اور اگر میں نے کوئی غلط فیصلہ کر دیا تو؟ہماری زندگی کے ہر موقعہ پہ ہمیں راہنمائی دینے کو کوئی بھی نہیں ہوتا ،مگر ہمیں اس فیصلہ سازی کی طاقت اور صلاحیت کو بطور اعزاز لیکر چلنا چاہیے، ایسے میں ہمارے لئے یہ آزادی کی صلاحیت باعث رحمت ثابت ہوگی۔
زندگی کا مقصد تو کچھ نہیں!
زندگی میں بعض موقعوں پہ ہمارے ذہن میں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ، ہماری زندگی کا تو کوئی مقصد ہی نہیں ہے۔ ایک نا ایک دن ہم سب مر جائیں گے تو اس دولت، اس احساس ذمہ داری اور اتنے سب کچھ کا کیا مقصد ہے؟
فرنچ فلاسفر کمس اس بارے خوب کہہ گئے ہیں کہ "زندگی کو بے مقصد سمجھنا دراصل زندگی کی تعریف کرنا ہے۔ اگر آپ آخر کے نتائج کی فکر کرنے کی بجائے، اپنے حال کو دیکھنا شروع کریں اور لمحہ حال کی فکر کریں تو آپ زندگی کا اصل مزہ پا سکتے ہیں " یہ خیال بہت ضروری ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ مایوسی میں صرف اسی لئے چلے جاتے ہیں ،کیونکہ وہ کہانی کو اختتام سے دیکھنا شروع کردیتے ہیں۔ جبکہ منزل کی بجائے، سب سے اہم چیز راستہ اور آپکے ہم راہی ہیں اور ان کیساتھ گزارے گئے آپ کے قیمتی لمحات۔
زندگی کے تلخ لمحات
کسی کی موت، پیار کا نا ملنا، ناکامی یہ سب ہمیں وجودی بحران کی طرف لےجاتے ہیں۔ بہت سے بچے جب بالغ ہوتے ہیں اور بڑے جب آدھی عمر گزار چکے ہوتے ہیں، تو وہ اس کیفیت سے ضرور گزرتے ہیں۔
کیا حقیقت کیا فسانہ؟
یہ سوال بہت ڈسٹربنگ سا اٹھتا ہے کہ، زندگی میں اتنے زیادہ کام کرنے کے بعد جب آپ ستر اسی سال کی عمر میں فوت ہو جائیں گے، تو اتنا سب کچھ کرنے کا کیا مقصد تھا؟ یہ ڈاکٹر بننا، یہ انجینئر بننا یہ سب تو بے سود تھا، کیونکہ موت اٹل ہے۔یہ سوالات دراصل وجود کے بحران کی ہی نشاندہی ہیں، اور اگر کسی کو یہ سوال اتنا تنگ کر رہے ہیں کہ وہ ڈپریشن کی طرف آہستہ آہستہ جا رہا ہے، تو اس کو پراپر کاؤنسلنگ کی ضرورت پڑ سکتی ہیں۔ یہ انزائٹی ہمیں، ہمارے وجود کے بارے میں بہت سے سوالات اٹھانے پہ مجبور کر دیتی ہے۔ہم Existentialistمیں انزائٹی کو سائیکالوجی اور فلاسفی سے ہٹ کر ایک نئی نظر سے دیکھتے ہیں۔