Mendak Ka Jiggar
مینڈک کا جگر
سنہ 2005 کی بات ہے کہ جرمنی کے ضلع Altona میں مینڈک دھماکے کیساتھ پھٹنا شروع ہو گئے تھے۔ پورے ضلع میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ والدین نے بچوں کو جھیل کنارے جانے سے منع کر دیا۔ علاقے کو موت کا قلعہ کہا جانے لگ پڑا۔ یہ مینڈک دھماکے اتنے شدید تھے کہ ان کی زد میں ایک میٹر تک کا رقبہ آ جاتا تھا۔ کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ مینڈکوں کے یوں پھٹنے کی آخر کیا وجہ ہے۔
ان "خود کُش" مینڈک دھماکوں سے تقریبا ایک ہزار کے قریب مینڈک مارے گئے۔ اور یہ دنیا بھر میں ایک بریکنگ نیوز بن گئی" جرمنی میں مینڈک پھٹنے لگ پڑے" محقق کافی پریشان تھے۔ اور وجہ ڈھونڈنے کی کوشش میں تھے۔ جب ان مینڈکوں کی لاشوں کا تجزیہ کیا گیا تو ایک بات سامنے آئی کہ تمام مینڈکوں کے جسم پر ایک سوراخ تھا۔ اور یہ سوراخ ایک چونچ کے جتنا موٹا تھا۔
سو اس مفروضے سے یہ پتا لگا لیا گیا کہ ان مینڈکوں کو قتل کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ کوے ہیں۔ لیکن کوے ہی کیوں؟ ہم جانتے ہیں کہ اُن ٹاڈ مینڈکوں کی اوپری جلد زہریلی ہوتی ہے۔ کوؤں کو بھی اس بات کا علم تھا۔ بس فرق یہ ہے کہ ہمیں یہ بات لیبارٹری میں اور کوؤں کو یہ بات تجربے سے معلوم ہوئی۔ ان مینڈکوں کی صرف ایک چیز کھانے کے لائق تھی اور وہ تھی ان کا جگر۔
سو جگر تک رسائی کا ایک ہی رستہ تھا۔ وہ تھا پائپ لگا کر جگر چوس جانا، قدرتی طور پہ ان کی چونچ پائپ نما ہی ہوتی ہے۔ سو کوؤں نے ان کے جگر کھانے کا ایک طریقہ ڈھونڈ لیا تھا، اور یہ طریقہ تھا چونچ مار کر جگر نکال لینا۔ چونچ نکال کر کوے جگر تو نکال لیتے تھے۔ لیکن یہاں ایک مسلئہ پیدا ہو جاتا تھا۔ مینڈک میں پسلیاں نہیں ہوتیں۔ ان کے تمام آرگنز کو جگر ایک جگہ رکھتا ہے۔
سو جب تک ان کا جگر نکل جاتا تھا، تب بہت دیر ہو جاتی تھی، کیونکہ جب جگر نکلتا تھا تو خون کا الٹا دباو مینڈکوں کے پھپھڑوں پہ پڑتا اور پھیپھڑے پھٹ جاتے تھے۔ اور بھی دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں، جہاں پہ ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں، بس ذرا ان کوؤں کی ذہانت دیکھیں کہ کس طرح ایک حیران کُن طریقے سے انہوں نے مینڈک کا جگر نکالنا سیکھا۔ اور بعد میں مینڈکوں کو پھٹنے پہ مجبور کیا۔