Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zaigham Qadeer
  4. Kya Geniyati Beemariyon Ka Ilaj Mumkin Hai?

Kya Geniyati Beemariyon Ka Ilaj Mumkin Hai?

کیا جینیاتی بیماریوں کا علاج ممکن ہے؟

اس وقت پاکستان میں تقریبا تین کروڑ کے قریب آبادی ایسے ہے جو کہ کسی نا کسی جینیاتی بیماری کا شکار ہے اور ان لوگوں کا ننانوے اعشاریہ نو فیصد ساری عمر ایسی بیماری میں تکلیف دہ زندگی گزار کر اس جہان سے کوچ کر جاتا ہے۔ مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ایسی بیماریوں کا علاج ممکن ہے؟

جینیاتی بیماریاں دراصل ہوتی کیا ہیں؟ آپ اگر کسی انسانی جسم کو دیکھیں تو آپ کو یہ صرف ایک یونٹ کی شکل میں نظر آئے گا۔ جس یونٹ کے مختلف حصے ہیں جیسا کہ آنکھیں، کان، ناک وغیرہ۔ اسی طرح ہر شخص کچھ بنیادی آرگنز کے نام بھی جانتا ہے جیسا کہ دل، گردے، معدہ، جگر، دماغ اور پھیپھڑے، اور اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ انسان کو ہونیوالی سب بیماریوں کا تعلق کہیں نا کہیں سے ان بنیادی آرگنز سے جڑا ہوا ہے۔

اس غلط فہمی کی وجہ سے لوگ لاعلمی میں ہر بیماری کا علاج حکیموں، سنیاسیوں یا پھر عطائیوں سے کروا لیتے ہیں۔ اور ان حکیموں، سنیاسیوں اور عطائیوں کے پاس بھی بنی بنائی بیماری اور اس کے بنے بنائے ہوئے علاج موجود ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اگر کسی شخص کے چہرے پر دانے نکلے ہیں تو اس کو معدے کی گرمی ہے اگر کسی کی آنکھیں پیلی ہیں تو اس کو معدے کی گرمی ہے اگر کسی کے جسم پر دانے بن رہے ہیں تو اس کو معدے کی گرمی ہے اور اگر کسی کو ہر وقت متلی کا احساس ہوتا ہے تو بھی اس کو معدے کی گرمی ہے۔

مگر ایسا بالکل نہیں ہے۔ پہلی بیماری جس میں چہرے پر دانے نکلتے ہیں اس کا تعلق معدے سے نہیں جسمانی کیمیکلز جنہیں ہم ہارمون کہتے ہیں ان سے ہے اور اگر ان کی وجہ سے نکلے دانے لمبے دورانیے تک رہ جائیں تو ان دانوں پہ ہوئی بیکٹیریل انفیکشن سے ہے۔ دوسری بیماری جس میں آنکھیں پیلی ہیں اس کا تعلق یرقان سے ہے اور یرقان کا تعلق معدے سے نہیں ہے، تیسری بیماری ہمارے جسم کے امیون سسٹم کے حد سے زیادہ ایکٹو ہونے سے ہے جس میں ہمارا امیون سسٹم جسم پر دانے بنا دیتا ہے وہیں پر چوتھی بیماری کا تعلق جسم میں موجود منرلز کی کمی سے لیکر جسمانی کمزوری سے ہو سکتا ہے۔ مطلب ہر بیماری ایک مختلف وجہ اور علاج رکھتی ہے لیکن عطائی ان کو ایک ہی بیماری کہہ کر اس کا علاج کرتے ہیں اور لوگ اس بات کو لا علمی کی وجہ سے مان جاتے ہیں۔

یہی حال جینیاتی بیماریوں کا ہے۔ میں پچھلے سال کئی سپیشل بچوں کے خاندانوں سے ملا تھا جن سے ملاقات ہونے پر پتا چلا کہ وہ لوگ اپنے بچوں کی جینیاتی بیماری کو بھی ایک نارمل بیماری سمجھ کر اس کا دم درود سے علاج کروا رہے ہیں۔ یہ دم درود ان کے پیسے کا ضیاع بننے کے سوا کسی اور چیز کا وسیلہ نہیں بنتا۔

ہمارا جسم ارب ہا چھوٹے خلئیوں سے مل کر بنا ہوتا ہے۔ یہ خلئیے اپنی بنیاد رکھتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے ایک گھر مختلف اینٹوں سے بنا ہوتا ہے مگر ہمیں اس گھر میں کمرے اور بنیادی ڈھانچے کے سوا کچھ نظر نہیں آ رہا ہوتا ہے۔ مگر وہ گھر اینٹوں سے بنا ہوتا ہے اور وہ اینٹیں مٹی سے بنی ہوتی ہیں۔ ایسے ہی ہمارے جسم کے بنیادی خلئیے ہوتے ہیں جن کی بنیاد ڈی این اے ہوتا ہے۔

یہ ڈی این اے چار بنیادی کیمیکلز سے بنتا ہے جن کو ہم چار انگریزی حروف سے جانتے ہیں۔ یہ چار کیمیکلز ارب ہا کمبینیشن کی شکل میں موجود ہوتے ہیں اور ایک ایک کمبینیشن ہمارے جسم کے ایک ایک خاصے کی تشریح کر رہا ہوتا ہے۔ اب ہوتا کچھ یوں ہے کہ کچھ بچوں یا پھر انسانوں میں یہ کمبینیشن غلطی کر بیٹھتے ہیں جس میں جہاں ایک مخصوص جسمانی خاصہ بننا تھا وہیں پر وہ ایک ابنارمل خاصہ بن جاتا ہے۔ جیسا کہ ہر انسان میں 'پتا' یا پھر پینکریاز ہوتا ہے اب کچھ میں جینیاتی تغیر کی وجہ سے یہ ابنارمل بن جاتا ہے اور بعد میں ذیابطیس کی وجہ بن جاتا ہے۔

یہیں سے پھر جینیاتی بیماری کا آغاز ہوتا ہے۔ اس میں سب سے برا پہلو یہ ہوتا ہے کہ ہمارے جسم کے ہر حصے میں ایک جیسا ڈی این اے موجود ہے مگر اس ڈی این اے کا مختلف اظہار اس کی مختلف خلئیے اور پھر آرگن بنانے میں مدد کرتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر خلئیہ خرابی کی صورت میں ویسا ڈی این اے رکھتا ہے اور پھر اس خرابی پر کسی عام دوائی سے قابو پانا ناممکن ہوتا ہے۔

جینیاتی بیماریاں جو کہ کنٹرول کی جا سکتی ہیں، اب جبکہ ہر خلئیہ ایک جیسا ڈی این اے رکھتا ہے تو ہم اس کو بدل نہیں سکتے ہیں مگر اس خرابی کی وجہ کو پہچان کر سمجھنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ کچھ لوگوں کو ذیابطیس ہوتی ہے یا پھر کچھ لوگ گندم کھائیں تو ان کو دست لگ جاتے ہیں اور پھر کئی دن پیٹ درد نہیں جاتا، یا کچھ دودھ نہیں ہضم کر پاتے یا پھر کچھ کے جسم میں کاپر کی زیادتی سے دماغ متاثر ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

اب ایسی بیماریوں میں ہم سادہ سا لائف سٹائل چینج کرکے مزید بڑھوتری اور نقصانات سے بچ سکتے ہیں جیسا کہ ہم ذیابطیس میں اپنا کھانے پینے کا انداز بدل کر ہم اس کو مکمل طور پر کنٹرول کر سکتے ہیں یا پھر گندم یا دودھ کے انہظام میں خرابی کی شکل میں ان کو ترک کرکے ہم صحت مند رہ سکتے ہیں یا پھر D penicillamine دے کر ہم اس کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔

اور اگر ہم کسی بیماری کی علامات کو کنٹرول کرنا صحت یابی سمجھیں تو یہ جینیاتی بیماری 'قابل علاج ' ہیں اور ان کا 'علاج' ممکن ہے۔ اور چونکہ یہ ایک خاص قسم کی علامت سے لنکڈ ہیں تو ان کو آسانی سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

جینیاتی بیماریاں جن کا آپریشن ممکن ہے، کچھ جینیاتی بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جن میں ہمارے ظاہری خدوخال ابنارمل ہوتے ہیں۔ ان بیماریوں میں ہم سادہ سی سرجری کے بعد ان کی ہئیت کو بدل دیتے ہیں۔ جیسا کہ کلیفٹ پیلٹ یا پھر کٹے ہوئے تالو نامی بیماری کا علاج آپریشن سے ممکن ہے۔

ایسی آپریشن سے قابل علاج جینیاتی بیماریوں میں بچے میں پیدائشی دل کے عوارض اور معدے کی مخصوص بیماری familial polyposis of the colon شامل ہیں۔ لیکن اس میں ہم فقط آپریشن سے ظاہری حلئیہ بدلتے ہیں جبکہ ڈی این اے ویسا ہی رہنے کی وجہ سے یہ اور اوپر والی بیماریاں آگے منتقل ہو سکتی ہیں۔

وہ بیماریاں جن کا سٹیم سیل یا جین ایڈیٹنگ سے علاج ممکن ہے، ہمارے پاس جینیاتی بیماریوں کے علاج میں تیسری قسم سٹیم سیل تھیراپی ہے جس میں وہ بیماریاں جو کہ سٹیم سیل یا پھر ہڈیوں کے گودے کو بدلنے سے ٹھیک ہو سکتی ہیں اور ان کے ڈی این اے کا تعلق اس سے ہے ان کا علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں علاج ہو جاتا ہے۔ ایسی بیماریوں میں severe combined immunodeficiency (SCID)، Wiskott-Aldrich syndrome، j3-تھیلیسیمیا، سکل سیل اینیمیا، aregenerative اینیمیا، اور chronic granulomatous disease شامل ہیں۔ ان بیماریوں کا ہم ٹرانسپلانٹ کے ذریعے بھی علاج کر سکتے ہیں اور جین ایڈیٹنگ سے بھی۔

جین ایڈیٹنگ ابھی ایک جدید ٹیکنالوجی ہے جس کی مدد سے ہم خیالی طور پر بہت سی بیماریوں کا علاج کر سکتے ہیں مگر پریکٹیکلی ابھی صفر یا اس سے تھوڑی زیادہ ریسرچ ہو پائی ہے۔ اس میں ایسی بیماریاں جن کی وجہ صرف ایک جین یا پھر ڈی این اے کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے ان کا علاج ہم اس میں تبدیلیاں لا کر کر سکتے ہیں مگر اس پر ریسرچ ہونا باقی ہے اس ضمن میں سب سے زیادہ اوپر بیماریوں میں مسکولر ڈسٹرافی، Huntington's disease، تھیلیسیما اور کینسر کی کچھ اقسام ہیں۔ اور ان میں سے زیادہ تر بیماریوں کا علاج تب ہی ممکن ہے جب بچہ ابھی پیدا نہیں ہوا بلکہ جنین کی شکل میں ہے۔ ورنہ بعد میں پورے جسم کا ڈی این اے بدلنا ناممکن سی بات ہے۔

وہ بیماریاں جن کا علاج ممکن نہیں یا بہت مشکل ہو سکتا ہے، اس وقت بہت سی بیماریاں ایسی ہیں جن کا علاج سرے سے ہی ممکن نہیں نا پھر بہت مشکل ہوتا ہے۔ جیسا کہ کروموسومل خرابیوں والی بیماریاں جن میں ڈاؤن سنڈروم، ٹرنر سینڈروم، سیریبرل پالسی یا ایسی دیگر کئی بیماریاں ہیں۔ وہیں پر مسکولر ڈسٹرافی اور ایسی سب بیماریاں جن میں پیدائشی طور پر یا پیدائش کے بعد ہڈیاں ٹیڑھا ہونا شروع ہو جاتی ہیں ان کا کسی بھی قسم کے آپریشن سے علاج ممکن نہیں ہے۔

کچھ عطائی پیسوں کے لالچ میں ایسی بیماریوں کا علاج کرنے کا دعوی کرتے ہیں جیسا کہ بہت سے پیر بابے ڈاؤن سنڈروم، مائیکرو سفیلی یا پھر دولے شاہ کے چوہے، جن چمٹنا یا پھر سکزو فرینیا/ بائی پولر ڈس آرڈ/ہنگٹن کی بیماری کا علاج کرنے کا دعوی کرتے ہیں۔ جبکہ ایسا بالکل بھی ممکن نہیں الٹا ایسے لوگ ان لاچار اور مجبور مریضوں کو مزید تکلیف میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ ایسے کئی بچے جو ان خاص بیماریوں کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں جنہیں ہم معاشرے کی زبان میں سائیں کہتے ہیں وہ کسی قسم کے جینیاتی ڈس آرڈر کا شکار ہو تے ہیں لیکن ہم اپنے دل کی تسلی کے لئے ان کو سنیاسیوں اور بابوں کے ہتھے چڑھا دیتے ہیں جو کہ ان بیچاروں پر مزید تشدد کرتے ہیں۔

اب آپ سادہ سی بات سمجھیں کہ ایک عمارت ہے، مکان ہے، وہ ایک دیوار ٹیڑھی رکھتا ہے اب کیا آپ اس دیوار کو ڈنڈے سوٹے مار کر سیدھا کر سکتے ہیں؟ یا پھر کیا آپ اس دیوار پر کوئی تعویز دھاگہ لٹکا کر اس کو سیدھا کر سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر آپ ایک انسان کو ان سے کیسے سیدھا کر سکتے ہیں؟ ایک جسم جس کی بنیادی اینٹ مطلب ڈی این اے ہی درست نہیں تو اس پر آپ جتنا مرضی زور لگا لیں اگر وہ ایک سے زیادہ وجوہات کی وجہ سے ٹھیک نہیں بن پایا تو آپ اس کو ٹھیک نہیں کر سکتے ہیں۔

ہاں آپ ایسے خاص بچوں کا خاص خیال رکھ سکتے ہیں اور اس خاص خیال کی وجہ یہ ہے کہ اس بیماری کو رکھنے میں نا انکا کوئی قصور ہے نا آپ کے کسی رشتہ دار کے تعویز دھاگوں کا بلکہ اس میں اس کے ماں باپ کے ڈی این اے کی خرابیوں کا قصور ہے جن کا علاج اگر پرہیز سے ممکن نہیں یا کاسمیٹک سرجری یا سٹیم سیل تھیراپی سے ممکن نہیں تو آپ ان کو ہرگز ٹھیک نہیں کر سکتے ہیں۔

Check Also

Pakistan Ke Missile Program Par Americi Khadshat

By Hameed Ullah Bhatti