Hamari Kainat, Heran Kun Sitare Aur Satellite Ka Qabristan (1)
ہماری کائنات، حیران کن ستارے اور سیٹلائٹس کا قبرستان(1)
کائنات کی عمر اور اسکے سائز کا تعین کیسے کیا جاتا ہے؟ ماہرین فلکیات کے بگ بینگ کا دھماکہ دس سے بیس ارب سال پہلے رونما ہوا۔ ایسے میں بگ بینگ کے دھماکے کے بعد کائنات کی عمر کا تعین کرنے کا سب سے آسان اور عام فہم طریقہ اس کائنات میں موجود سب سے پرانے ستاروں کو کھوج کے لگایا جا سکتا ہے، اسکے علاوہ ایک اور طریقہ یہ بھی بچتا ہے کہ ہم کائنات کے پھیلاو کی شرح کو ماپ کر۔
اس کے منفی میں جا کر کائنات کی عمر کا تعین کر لیں۔ پرانے ستاروں سے کائنات کی عمر کیسے پتا لگائی جا سکتی ہے؟ ماہرینِ فلکیات کائنات میں بگ بینگ کے کچھ ہی عرصے بعد وجود میں آنے والے ستاروں کی عمر جان سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے گلوبیولر سٹرکچر نامی ستاروں کے ایک اکٹھ کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس اکٹھ میں موجود تمام ستارے ایک ہی وقت میں وجود پاتے ہیں اور انکی تعداد دس لاکھ تک ہو سکتی ہے۔
اس بات کا اندازہ آپ یوں لگا لیں کہ اگر آپ ایسی کسی جگہ میں رہائش پذیر ہوں تو آپ کے ہاں کبھِ رات نا ہو بلکہ ہزاروں لاکھوں ستارے ہمارے فلک پہ چوبیس گھنٹے چمکتے رہیں۔ کسی بھی ستارے کی عمر اس کی کمیت پہ انحصار کرتی ہے۔ زیادہ کمیت والے ستاروں کی چمک، کم کمیت والے ستاروں سے زیادہ اور عمر کم ہوتی ہے۔ ایک سورج جتنی کمیت کا ستارہ، ہائڈروجن کی شکل میں، اتنا ایندھن رکھتا ہے کہ۔
یہ نو ارب سال تک روشن رہ سکتا ہے۔ سو وہیں ایسے ستارے جن کا ماس سورج سے دو گنا زیادہ ہے، وہ اتنی ہی ہائڈروجن، ایندھن، صرف آٹھ سو ملین سالوں میں جلا بیٹھے گا۔ اسی طرح ایسے ستارے جن کی کمیت سورج سے دس گناہ زیادہ ہے، وہ ستارے صرف بیس لاکھ سال جل سکتے ہیں۔ جبکہ سورج سے آدھی کمیت والے ستارے بیس ارب سال جتنی عمر پا سکتے ہیں۔
سو جیسا کہ اوپر آپ کو بتایا کہ گلوبیولر سٹرکچر کے، تمام ستارے، ایک ہی وقت میں بنے تھے۔ سو ان ستاروں کو ہمیں کائناتی گھری کے طور پہ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ سو اس گھنے جنگل میں موجود ستارے، اگر، دس ملین سال پرانے ہیں تو وہ سورج سے دس گنا زیادہ کمیت والے ہونگے اور ویسے ہی جو ستارے دو ارب سال پرانے ہیں ان کا ماس دو سورج جتنا ہوگا۔
حاصل کلام اس وقت کی کھوج کے مطابق ہمیں ابھی تک سب سے پرانا ستاروں کا جنگل، گلوبیولر سٹرکچر، وہ ملا ہے۔ جہاں کے ستاروں کی کمیت سورج کی کمیت کا ساتواں حصہ یا پھر صفر اعشاریہ سات ہے۔ یہ کم کمیت والے ستارے سورج سے مدھم اور ایک ساتھ موجود ہیں۔ سو اس سے ہم یہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اس جنگل، گلوبیولر سٹرکچر، کی عمر گیارہ سے اٹھارہ ارب سال ہے۔
یہاں پہ موجود بے یقنی اس بات کی دلیل ہے کہ ہم ان سٹرکچر کا صحیح فاصلہ نہیں ماپ سکے، اس لئے ان کی عمر گیارہ سے اٹھارہ ارب کے عرصے کے بڑے مارجن میں رکھی گئی ہے۔ وہیں یہ کائنات نیوٹران ستاروں کی شکل میں حیران کن فلکیاتی اجسام بھی رکھتی ہے۔ نیوٹران ستارے، نیوٹران ستارے وہ کثیف ترین فلکیاتی اجسام ہیں جو کہ ماہرینِ فلکیات اب تک دیکھ چکے ہیں۔
اس بات کا اندازہ اس حیران کن بات سے لگا لیں کہ زمین کے وزن سے دس لاکھ گنا زیادہ وزن ایک بارہ میل کا نیوٹران ستارہ رکھ سکتا ہے۔ یہ کیسے بنتے ہیں؟ ایک نیوٹران ستارہ تب بنتا ہے، جب کوئی بہت بڑا ستارہ اپنا فیول ختم کر بیٹھتا ہے اور فنا ہونے والا ہوتا ہے۔ اس عمل کے دوران وہ ستارہ اپنے مرکز میں موجود کور کے ہر الیکٹران اور پروٹان کو نیوٹران میں بدل دیتا ہے۔
ایسے میں اگر ستارے کی کور کا ماس سورج کے ماس کا تین گُنا یا اس کے برابر ہے، تو اس میں موجود نیوٹرانز ستارے کے فنا ہونے کے عمل کو روک دیتے ہیں اور نیوٹران ستارہ بنا دیتے ہیں۔ وہیں اگر انکا ماس تین گنا سے زیادہ ہے تو وہ ایک بلیک ہول بنا دیتے ہیں، انکا وزن کتنا ہوگا؟ نیوٹران ستارے کا وزن کائنات کی سب سے حیران کُن بات ہے۔ جب یہ ستارہ بنتا ہے تو سورج کے برابر وزن یہ ایک شہر کے رقبے میں رکھ سکتا ہے۔
مطلب کہ جہاں سورج اتنا بڑا ہو کر اتنا زیادہ وزن رکھتا ہے وہیں، ایک شہر کے رقبے جتنا بڑا نیوٹران ستارہ سورج جتنا وزنی ہو سکتا ہے۔ اور یہ رقبہ بیس کلو میٹر تک ہو سکتا ہے۔ جس کا وزن سورج جتنا ہو گا۔ اس بات سے یہ حیران کن بات سامنے آتی ہے کہ ایک نیوٹران ستارے کی سطح کا وہ ذرہ جو چینی کی کیوب کے سائز کا ہے۔ اس کا زمین پر وزن ایک کھرب کلو یا پھر ایک پہاڑ جتنا ہو سکتا ہے۔
یہ کہاں پائے جاتے ہیں؟ نیوٹران ستارے ایک ستارے کے وجود کے طور پہ کہکشاں کے مختلف حصوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اور باقی ستاروں کی طرح یہ اکیلے بائنری سسٹم میں بھی پائے جاتے ہیں۔ کئی نیوٹران ستاروں کو کھوجنا کافی مشکل ہوتا ہے، کیونکہ ان میں سے خارج ہونی والی تابکار شعائیں نا ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔ لیکن سازگار حالات میں ہم انہیں باآسانی کھوج سکتے ہیں۔
جیسا کہ بہت سے نیوٹران ستاروں کو ہم نے ایکس رے شعائیں خارج کرتے دیکھا ہے۔ اسکے علاوہ نیوٹران ستاروں کو ہم نے پلسر Pulsars یا میگنیٹارز Magnetars جیسی طاقتور مقناطیسی فیلڈز میں دیکھ چکے ہیں۔ زیادہ تر نیوٹران ستارے کششِ ثقل کے تحت الیکٹرومیگنیٹک لہریں چھوڑتے ہیں، جبکہ باقی دو طرح کے نیوٹران ستاروں کو ہم باآسانی دیکھ سکتے ہیں۔
جیسا کہ، پلسرز Pulsars، میگنیٹارز Magnetars، پلسرز Pulsars بعض اوقات رات کو ہم ایسے ستارے دیکھتے ہیں، جن کا رُخ ہماری طرف ہوتا ہے اور وہ ایک تسلسل کیساتھ روشنی خارج کر رہے ہوتے ہیں۔ مگر جو نہی ہم ان کی طرف دیکھتے ہیں تو وہ ان کی روشنی جلتی بجھتی یا پھر ٹمٹماتی نظر آتی ہے۔ ان کو ہم پلسرز کہتے ہیں۔ یہ لفظ دراصل پلس سے نکلا ہے اور اس کا مطلب نبض ہے۔
یہ ہماری نبض کی طرح اپنی روشنی خارج کرتے ہیں اور یہ روشنی در اصل گھومتے نیوٹران ستارے ہوتے ہیں۔ یہ نیوٹران ستارے گھومتے ہوئے، اپنی تابکار شعائیں خارج کرتے ہیں اور ان شعاؤں کے خاج ہونے کا دورانیہ ایک خاص وقت ہوتا ہے۔ جو کہ ملی سیکنڈ سے لیکر ایک سیکنڈ تک ہوتا ہے۔ ان فلکیاتی اجسام کی کشش ثقل بہت مضبوط ہوتی ہے اور انکے گھومتے پارٹیکل بہت ہی طاقتور قسم کی روشنی کی لہریں چھوڑتے ہیں۔
اور چونکہ یہ روشنی ایک تسلسل نہیں رکھتی تو جب ہم اسے دیکھتے ہیں تو یہ جلتی بجھتی یا پھر ٹمٹماتی نظر آتی ہے۔ دراصل یہ ٹمٹماتی روشنی نیوٹران ستارے ہی ہیں۔ میگنیٹارز Magnetars میگنیٹارز دراصل وہ نیوٹران ستارے ہیں، جن کی مقناطیسی کشش زمین کی مقناطیسی فیلڈ کی کشش سے کھربوں گُنا زیادہ ہوتی ہے۔ یہ سطح اتنے زیادہ پریشر کے نیچے ہوتی ہے کہ اس پر ذرا سی حرکت اس ستارے کو دھماکے سے تباہ کر سکتی ہے۔