Dimagh Ba Muqabla Dil, Akhir Sochta Kon Hai (2)
دماغ بمقابلہ دل، آخر سوچتا کون ہے(2)
اب اگر ہم دیکھیں تو ہمیں سمجھ آتی ہے کہ سوچنے سمجھنے اور فیصلہ کرنے جیسے بڑے قدم کے لئے ہمارا دماغ سو ارب سے زیادہ خلیئوں کو زیر استعمال لاتا ہے اور پھر ان کو باہم ملا کر کسی ایک بات کا فیصلہ کر پاتا ہے۔ مگر ایسے میں ہمارا دل ہے، اس کو اگر ہم دیکھیں تو یہ محض 40 ہزار نیوران سیلز رکھتا ہے، جو کہ اگر ہم معدے کی طرف دیکھیں تو اس سے بھی کئی گنا کم ہیں۔
کیونکہ ہمارا معدہ یا پھر gut اپنے اندر500 ملین نیوران رکھتا ہے۔ اگر ہم اس تناسب سے چلیں تو ہمارا معدہ دل سے زیادہ سوچنے سمجھنے کا امیدوار ٹھہرتا ہے، کیونکہ اس کے پاس اس کام کو انجام دینے کے لئے زیادہ خلیئے موجود ہیں۔ لیکن وہ بھی سوچنے سمجھنے جیسا پیچیدہ کام نہیں انجام دیتا۔ ایسے میں جب ہم سوچتے تو دماغ سے ہیں۔ مگر ایسا محسوس کیوں ہوتا ہے کہ دل دماغ سے ایسا کروا رہا ہے؟
یہ سوال تھوڑا الٹ ہے۔ دراصل، انسان دماغ سے سوچتا ہے، لیکن ہر سوچ کا اثر دل پہ پڑتا ہے۔ کیسے؟ فرض کریں، آپ کسی دباؤ یا پریشانی کا شکار ہیں یا کسی سے پیار محسوس کرتے ہیں تو اس دباؤ، پریشانی یا پیار کے بعد کچھ ہارمونز جنہیں ہم سٹریس ہارمون کہتے ہیں وہ ریلیز ہوتے ہیں۔ ان ہارمونز میں کارٹی سول، ایڈرنالین اور ایپی نیفرین وغیرہ شامل ہیں۔
جب یہ ریلیز ہوتے ہیں تو یہ ہمارے جسم کو کسی بھی قسم کے خطرے کا سامنا کرنے کے لئے تیار کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہمارے جسم کو اس صورتحال کا سامنا کرنے کے لئے تیار کرتے ہیں۔ جس کو دیکھ کر ہمارا دماغ الرٹ ہوا تھا۔ یہ تیاری کیسے ہوتی ہے؟ یہ تیاری، سب سے پہلے، دل کے دھڑکنے کی رفتار بڑھا کر اور ہاضمے کی رفتار کم کر کے ہوتی ہے۔
ایمرجنسی کی حالت میں یہ ہارمون ہمارے دل کی رفتار بڑھاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے فشار خون بڑھتا ہے اور ہم اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ زیادہ بلڈ پریشر ہمارے مسلز کو کسی بھی قسم کی صورتحال کا سامنا کرنے کے لئے تیار کرتا ہے۔ جبکہ ہاضمے کی کم رفتار دل کو دوسرے مسلز تک خون پہنچانے میں مدد دیتی ہے۔ یہی وہ وجہ ہے کہ جب ہم کسی سے نفرت کرتے ہیں۔
تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا دل ہمیں نفرت پہ مجبور کر رہا ہے۔ یا ہمارا دل غصہ دلا رہا ہے۔ جبکہ درحقیقت یہ سب دماغ کرواتا ہے۔ دل فقط دھڑکنے کی رفتار بدلتا ہے اور یہ دماغ کے احکامات کا نتیجہ ہے۔ یہ سب ہے دماغ کے اختیار میں ہے کہ ہم کیا ری ایکشن دیں گے، مگر چونکہ دل تیز دھڑک کر ہمیں ایسا محسوس کراتا ہے۔ تو اس لئے ہمیں یہ لگتا ہے کہ یہ سب دل کنٹرول کر رہا ہے۔
جبکہ درحقیقت ایسا سب دماغ کرتا ہے دل تو بس اسکے حکم کی تعمیل کرتا ہے۔ چلیں یہ بات تو ہو گئی کلئیر مگر کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے دماغ سے مخصوص لہریں بھی نکلتی ہیں تو کیا انسانی دماغ سے کسی قسم کی فریکوئنسی کی لہریں نکلتی ہیں؟ انسانی دماغ سے نا ہی کسی قسم کی فریکونسی کی لہریں نکلتی ہیں اور نا ہی ہمارے دماغ کی فریکونسی کسی اور کے دماغ کی فریکونسی کے برابر ہوتی ہے۔
نا ہی لاء آف اٹریکشن نامی کوئی چیز سائنس میں موجود ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ ہمارا دماغ اپنے بہیوئر اپنے اردگرد کے ماحول کے مطابق سیٹ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسے میں جب ہم کسی ایک شخص کیساتھ حد سے زیادہ وقت گزاریں اور اس کے ساتھ حد سے زیادہ باتیں کرنا شروع کر دیں تو ہمارا دماغ تقریبا اس شخص کا عادی ہو جاتا ہے اور اسکے تمام پیٹرن خود کاپی کرنا شروع کر دیتا ہے۔
اس چیز کو ہم فریکونسی کا میچ ہونا نہیں بلکہ دماغ کا لرننگ میکنزم کہتے ہیں۔ اس میکنزم کے تحت دماغ اس فیورٹ شخص کی عادات کو کاپی کرکے آپ میں لانے کی کوشش کرتا ہے۔ کس لئے؟ کیونکہ آپ اس شخص کو حد سے زیادہ چاہتے ہیں۔ اس سے پیار کرتے ہیں، اس لئے آپ کا دماغ اس شخص جیسا بنا کر آپ کو اسکے مزید قریب لانا شروع کر دیتا ہے۔
اب بات بہت سادہ ہے کہ ہر شخص کی روٹین کم و بیش روزانہ ایک جیسی ہوتی ہے۔ ہم کس وقت کیا کرتے ہیں کس وقت کیا سوچتے ہیں یہ سب کافی پرڈیکٹیبل ہے۔ سو اس شخص کیساتھ رہنے کے نتیجے میں یہ سب پیش گوئیاں ہمارا دماغ بھی کرنا شروع کر دیتا ہے اور ہزاروں میں سے بعض اوقات دو یا تین پیش گوئیاں یا اتفاق درست ہو جاتے ہیں اور یوں ہم سمجھنا شروع ہو جاتے ہیں۔
کہ ہمارے دماغ ایک دوسرے کے ساتھ میچ ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ جبکہ درحقیقت ایسا کچھ نہیں بلکہ یہ سب وہ بہیوئر ہے، جو ہمارے دماغ نے اس شخص کیساتھ رہ کر سیکھا۔ اب اگر آپ کسی بھینس کیساتھ رہنا شروع کریں تو کچھ عرصہ بعد آپ بھینس کو بھی کسی شخص سے بڑھ کر جاننا شروع کر دیں گے، مگر اسکا یہ مطلب نہیں کہ آپ اور بھینس کے دماغ کسی خاص قسم کی "فریکونسی" پہ چلتے ہیں۔
بلکہ یہ سب ہمارے دماغ کا لرننگ میکنزم ہے۔ جس کا مقصد ماحول کو بہتر جان کر سروائیول کے امکانات بڑھانا ہے۔ اگر ہم سب سے آخری سوال پہ غور کریں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پیار کے بچھڑنے یا کسی سے جدائی پہ ہمارے دل پر اثر پڑتا ہے یا دماغ پر اثر پڑتا ہے؟ ایسے تمام واقعات بنیادی طور پہ ہمارے دماغ پہ اثر انداز ہوتے ہیں۔
جس کے نتیجے میں وہاں میموری فلکس یعنی کہ یادوں کا بہاؤ آتا ہے، جو کہ ہم میں احساس محرومی اور جدائی کی فیلنگز دیتا ہے۔ اس سب کے نتیجے میں ڈوپامین اور سیریٹونن ریلیز ہونا بند ہوجاتے ہیں۔ عموما جس شخص سے ہمیں پیار ہوتا ہے۔ اس کو دیکھ کر ایک خاص مقدار میں ان کیمیکلز کا بہاؤ بہتا ہے، لیکن جونہی بریک اپ ہوتا ہے تو وہ کیمیکلز نہیں ریلیز ہوتے اور ہمارا دماغ ان کی کمی محسوس کرکے جسم کو لڑنے یا بھاگ جانے کی کنڈیشن میں بھیج دیتا ہے۔
اس کنڈیشن میں ایڈرنالین اور کارٹی سول سمیت تمام ایڈرنل ہارمونز ریلیز ہوتے ہیں، جو کہ دل کی دھڑکن کو تیز رکھتے ہیں اور مسلز میں کھنچاؤ پیدا کرتے ہیں تا کہ ہم لڑ یا بھاگ سکیں، مگر چونکہ ایسی صورتحال کبھی نہیں آتی اس لئے ایک تسلسل سے ریلیز ہوتے ہیں۔ جس سے دل پہ پریشر بڑھتا ہے اور اس سے ہائپر ٹینشن اور ڈپریشن کی علامات ظاہر ہوتے ہیں اور ایک لمبے عرصہ تک یہی فیلنگز رہنے پہ دل کی دیواریں کمزور بھی پڑ سکتی ہیں۔
اور یہ ایموشنل سٹریس دل کے دورے یا بلڈ پریشر کی بیماریوں جیسا کہ chd or cvds کا باعث بنتا ہے۔ یا چہرے پہ جھریوں کا باعث بن جاتی ہیں اور رنگت سیاہ پڑ جاتی ہے۔ اس طرح بریک یا ایموشنل لاس دل و دماغ دونوں پہ اثر انداز ہوتا ہے۔ اس طرح ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ہمارا دماغ ہمیں سوچنے پہ مجبور کرتا ہے، مگر دل کا ہماری سوچوں کیساتھ کوئی عمل دخل نہیں۔
بلکہ دل میں موجود 40 ہزار نیوران کا کام محض دل کی دھڑکن کے ربط کو کنٹرول کرنا ہے۔ اگر ہمارے دماغ سے دکھ کے سگنل آ رہے ہیں تو تب بھی یہ دھڑکن بدلے گی اور اگر وہیں یہ سگنل اس بات کے ہیں کہ ہم نے محض کھڑے ہونا ہے تو تب بھی یہ 40 ہزار نیوران دل کی دھڑکن کو بدل دیں گے، مگر دل خود سے کچھ بھی فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔
مگر چونکہ دل کی دھڑکن محسوس ہو سکتی ہے اور دماغ کے سگنل ویسے محسوس نہیں ہوتے اس لئے یوں لگتا ہے کہ سب کچھ دل کروا رہا ہے۔ حالانکہ دل سے زیادہ نیوران معدے کے پاس ہیں، مگر دونوں کے نیورانز کا کام محض ربط قائم کرنا ہے۔