Dimagh Ba Muqabla Dil, Akhir Sochta Kon Hai (1)
دماغ بمقابلہ دل، آخر سوچتا کون ہے(1)
ہم بچپن سے یہ بات سنتے آ رہے ہیں کہ اگر تم کسی معاملے میں پھنس جاؤ تو پھر دماغ کی بجائے دل کی بات سنو، تمہارے لئے نئی راہ بن جائے گی، مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی ہی دل مختلف معاملات میں ہمیں سوچنے میں مدد دیتا ہے یا یہ محض ایک غلط فہمی ہی ہے؟ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ہم ایک ہی چیز کے بارے میں صدیوں سوچتے رہیں مگر آخر میں جا کر ہمیں پتا چلے کہ ایسا تو کچھ تھا ہی نہیں۔
دماغ کس چیز سے بنا ہے؟ ہمارے دماغ کی بنیادی اکائی ایک خاص طرح کے خلیئے ہیں یہ خلیئے مختلف طرح کے کام انجام دیتے ہیں اور ان کاموں کی نوعیت کے لحاظ سے ان خلیئوں کی ساخت، لمبائی اور چوڑائی سب مختلف ہو سکتی ہے۔ ان خلئیوں کو ہم نیوران کے نام سے جانتے ہیں۔ ہمارا دماغ ان خلئیوں کی چند سو یا چند لاکھ تک تعداد نہیں رکھتا بلکہ یہ ہمارے دماغ میں سو ارب سے بھی زیادہ کی تعداد میں موجود ہے۔
اور یہ سو ارب سے بھی اوپر کی تعداد میں موجود خلیئے آپس میں اس کے کئی گنا زیادہ کونیکشن رکھتے ہیں۔ جن کی مدد سے یہ آپس میں جڑے رہتے ہیں اور پیغام ایک جگہ سے دوسری جگ پہنچاتے ہیں۔ اس کو آپ یوں سمجھ لیں کہ اگر اس کہکشاں میں موجود ستاروں کی تعداد سو ارب ہے تو وہیں ہمارے دماغ میں موجود ان خلیئوں کی تعداد بھی سو ارب ہی ہے۔
وہیں ایک نیوران اپنے ساتھ ہزار اور نیوران جوڑے رکھتا ہے۔ مطلب اگر ہم دماغ کے ان کونیکشنز کی بات کریں تو یہ سو کھرب تک جا پہنچتے ہیں۔ ان سب کی مدد سے ہمارا دماغ اپنے اندر کمیونیکشن کرتا ہے۔ دماغ باقی جسم سے کیسے رابطہ رکھتا ہے؟ اوپر بیان کئے گئے خلیئے جو کہ دماغ کی بنیادی اکائی ہیں، ان کو ہمارا دماغ مختلف حصوں میں تقسیم کرکے کام دیتا ہے اور یہ پھر اس کام کو آگے انجام دیتے ہیں۔
اسی طرح اگر آپ دماغ کو ایک مکزی کمپیوٹر سمجھیں اور ہمارا حرام مغز اس کمپیوٹر کا وہ وائر سسٹم ہے۔ جو اس کو سپیکر، ماؤس اور کی بورڈ سے ملاتا ہے۔ مگر ہمارے جسم میں یہ سپیکر، ماؤس یا کی بورڈ تو نہیں ہوسکتے، اس لئے ان کو آپ اپنے جسم کے باقی حصے سمجھ لیں جن تک ہمارے دماغ سے پیغام ہمارے حرام مغز کے ذریعے سے پہنچتا ہے۔
یہ سارے پیغام ایک باہمی ربط سے برقی سگنل کی شکل میں ٹریول کرتے ہیں۔ مگر جونہی ان کو ایک نیوران سے دوسرے نیوران تک پہنچنا ہوتا ہے تو درمیان میں ان کو ایک خلاء کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ برقی سگنل اس خلاء کو پھلانگ نہیں سکتے اس خلاء کو ہم سائی نیپس کا نام دیتے ہیں۔ نیوران یہاں سے دوسرے نیوران تک پیغام ایک کیمیائی شکل میں آگے پہنچاتے ہیں اور یوں ہمارے جسم میں پیغام اوپر سے نیچے تک محض چند سیکنڈ میں پہنچ جاتا ہے۔
اس تیز رفتاری کا آپ یوں اندازہ لگا لیں کہ ہمارے دماغ سے ایک سیکنڈ میں ایسا پیغام 115197 فٹ دور تک پہنچ سکتا ہے۔ مطلب پلک جھپکنے میں ہمارا دماغ یہ پیغام اتنی دور پہنچا سکتا ہے۔ ہم سوچتے کیسے ہیں؟ ہمارے جسم میں موجود یہ نیوران سیلز ہمارے دماغ سے بہت زیادہ کم تعداد میں موجود ہیں۔ اس وقت تک کے ہمارے مطالعے کے مطابق سوچنے سمجھنے جیسے شعوری عمل کے لئے ہمارا دماغ۔
ایک وقت میں اپنے اندر موجود تمام 100 ارب نیورانز کو زیر استعمال لتا ہے اور ان کی مدد سے ہم کسی طرح کی بھی سوچ پیدا کرتے ہیں۔ آپ نے اکثر یہ بات کہتے سنی ہوگی کہ ہم اپنے دماغ کا سو فیصد کبھی بھی استعمال نہیں کرتے بلکہ ہم اپنے دماغ کا محض 5 فیصد یا اس سے کم حصہ استعمال کرتے ہیں، جبکہ آئن سٹائن یا دیگر چوٹی کے سائنسدان اپنے دماغ کا محض 8 یا 10 فیصد استعمال کر چکے ہیں۔
جبکہ ٹیکنیکلی یہ بات بالکل غلط ہے۔ ہمارا دماغ ہر وقت سو فیصد استعمال میں رہتا ہے۔ کیسے اس کو آگے دیکھتے ہیں۔ لیکن یہ بات ایک حقیقت ہے کہ ہمارا دماغ ہر وقت سو فیصد استعمال رہتا ہے۔ اس استعمال کے دوران ہم نیوران کے ذریعے برقی سگنل مختلف حصوں میں بھیجتے ہیں اور وہاں سے یہ سگنل گھوم کر پورے دماغ میں سفر کرنے کے بعد کسی طرح کے فیصلے یا سوچ تک پہنچتا ہے۔
ہمارا دماغ یاداشت کیسے بناتا ہے؟ یاداشت وہ اہم چیز ہے، جس کے بغیر ہم بالکل ادھورے ہیں ہمیں مختلف چیزیں یاد آتی ہیں یا پھر ہم کسی چیز کو لکھنا چاہتے ہیں، تو تب ہماری یاداشت ایکٹو ہوتی ہے یا بولنے یا مشاہدہ کرتے وقت، حتی کے زندگی کے معمولی سے بھی معمولی کام کو انجام دینے کے دوران ہمارا دماغ کسی نا کسی طرح سے یاداشت کو زیر استعمال لاتا ہے اور اس کی بنا پہ ہم وہ کام انجام دے سکتے ہیں۔
اب یہ یاداشت کی نوعیت پہ منحصر کرتا ہے کہ وہ ہمارے دماغ کے کس حصے میں محفوظ ہو گی، مگر اس عمل کے لئے ہمارے دماغ میں موجود ان خاص حصوں کے نیوران فائر کرتے ہیں اور یہ برقی سگنل پھر وہاں والے سب نیورانز کو ایکٹو کر دیتے ہیں اور یاداشت وہاں پہ ایک الیکٹروکیمیکل یا پھر برقی و کیمیائی سگنل کی شکل میں محفوظ ہو جاتی ہے۔
اب اگر غلطی سے بھی یہ نیوران خلیئے اس کونیکشن کو کھو دیں تو وہ یاد مٹ سکتی ہے یا ہم ان چیزوں کو بھول سکتے ہیں۔ اسی طرح ان نیورانز کیساتھ دیگر مختلف خلیئے بھی کام کرتے ہوئے مختلف امور کو ہمارے فہم و فراست میں لائے بغیر خودکار میکنزم کے تحت کنٹرول کر رہے ہوتے ہیں۔ سو نیوران کے ان فنکشن کی بنا پہ ہم یہ کہتے ہیں کہ نا ہی ان میں سے کوئی ایک سیل کبھی بھی آف ہوتا ہے نا ہی مردہ۔
کیونکہ اگر ایسا ہو جائے تو اس کے ساتھ موجود ہزار یا اس سے زیادہ نیوران جو کہ جڑے ہوتے ہیں وہ بھی ڈیمیج ہو جاتے ہیں اور یہ لامتناہی سلسلہ چل نکلتا ہے اور آخر میں یاداشت کی بیماریوں کا سبب بھی بنتا ہے جن میں سے کئی نیوروڈی جنریٹو بیماریاں عمر کیساتھ ہمیں لگ جاتی ہیں۔ کیا ہمارا دل سوچتا ہے؟ اگر ہم واپس اپنے سوال کی طرف آئیں کہ کیا واقعی ہمارا دل بھی دماغ کی طرح سوچتا ہے تو اس بات کو کرنے سے پہلے ہمارے پاس کچھ بیک گراؤنڈ کا علم ہونا بہت ضروری تھا جو کہ اوپر بتایا گیا ہے۔