Thursday, 09 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zaid Malik/
  4. Whatsapp Aur Privacy

Whatsapp Aur Privacy

واٹس ایپ اور پرائیویسی

انٹرنیٹ ٹیکنالوجی میں جدت نے جہاں زندگی کو تیز اور آسان بنایا ہے وہیں اس نے انفرادی رازداری یا "پرائیویسی" پر کئی سوالات کو بھی جنم دیا ہے۔ طاقتور ممالک بشمول امریکہ و چین میں ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے شہریوں کی نگرانی نے ان سوالات کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ حالیہ دنوں میں واٹس ایپ کی نئی "پرائیویسی پالیسی" کے مطابق واٹس ایپ صارفین کی معلومات واٹس ایپ کی مالک کمپنی فیس بک کے ساتھ منسلک کر دی جائیں گی۔ صارفین اس پالیسی کو اپنی رازداری کی خلاف ورزی کہہ رہے ہیں جبکہ کمپنی اس کی تشریح کاروبار سے بہتر رابطہ بنانے کی طرف ایک قدم کے طور پر کر رہی ہے۔ کئی صارفین تو واٹس ایپ کی متبادل ایپس پر شفٹ بھی ہو چکے ہیں۔

اس پالیسی کے مطابق 8 فروری 2021ء کے بعد یورپی صارفین کے علاوہ ایپ کے تمام صارفین کی معلومات کو بلواسطہ اور بلاواسطہ فیس بک کمپنی کے ساتھ منسلک کیا جائے گا۔ بلواسطہ طریقہ وہ ہے جس کی رو سے فیس بک خودکار طریقے سے ان معلومات کو اکھٹا کر لے گی جس میں صارف کا نام، پروفائل تصویر، فون نمبر نیٹ ورک، موبائل فون ماڈل کی تفصیلات، اس پر چلنے والے انٹرنیٹ کی تفصیلات و رفتار، موجودہ لوکیشن، ایپ پر سرگرمی کا دورانیہ اور نوعیت، واٹس ایپ سٹیٹس، انٹرنیٹ براؤزر (جو آپ انٹرنیٹ پر سرچنگ کے لیے استعمال کرتے کہیں)، آئی پی ایڈریس (جس سے لوکیشن کا پتا چلایا جا سکتا ہے)، بیٹری سٹیٹس، زبان اور ٹائم زون شامل ہیں۔ دوسرا طریقہ کسی تیسرے فریق کی جانب سے صارف کی معلومات حاصل کرنا ہے۔ تیسرے فریق میں کاروباری کمپنیاں، دوسرے صارفین اور بذات خود فیس بک بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم اس پالیسی کے اثر کا جائزہ لیں، آئیے واٹس ایپ کے بارے میں کچھ جان لیں۔

واٹس ایپ برائن ایکٹن اور جان کوم نے 2009ء میں بنائی اور ریلیز کی لیکن یہ ایپ 2014ء تک بین الاقوامی سطح پر خاطر خواہ پذیرائی حاصل نہ کر سکی۔ 2014ء میں فیس بک کمپنی نے واٹس ایپ کو 19 ارب ڈالر (کیش اور اسٹاک) کے عوض خرید لیا اور اس کے بعد واٹس ایپ دنیا میں پھیل گئی۔ آج اس کے صارفین کی تعداد 2 ارب تک پہنچ چکی ہے۔ واٹس ایپ کا مالک مارک زکربرگ چاہتا تھا کہ واٹس ایپ سٹیٹس میں اشتہارات چلا کر کمائی کی جائے لیکن برائن ایسا نہیں چاہتا تھا اور اس نے کمائی کا متبادل طریقہ بھی تجویز کیا لیکن اسے رد کر دیا گیا جس کی بنا پر اس نے 2017ء میں فیس بک کو خیرآباد کہہ دیا۔ آپ خود بتائیے 19 ارب ڈالر خرچ کر کے کونسا کاروباری آدمی منافع نہیں کمانا چاہے گا؟ یاد رہے کہ فیس بک اپنی کمائی کا تقریبا اٹھانوے فیصد حصہ اشتہارات سے کماتی ہے۔ آج کل جن دو متبادل ایپلی کیشنز کا ذکر ہو رہا ہے ان میں سے ایک "سگنل" ہے۔ سگنل استعمال کرنے کا مشورہ اس وقت دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک نے دیا ہے جس کے بعد اس ایپ کی مقبولیت میں ایسا اضافہ ہوا کہ اس کا سسٹم آہستہ ہو گیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سگنل نامی ایپ "سگنل فاؤنڈیشن" کے تحت چلائی جا رہی ہے جسے فیس بک سے علیحدہ ہونے والے برائن ایکٹن نے 2018ء میں پانچ کروڑ ڈالر دیے تھے۔

آپ نے اکثر مشاہدہ کیا ہو گا کہ آپ اپنے موبائل فون پر یا فیس بک پر جو چیز 'سرچ' کرتے ہیں آپ کو اس سے متعلقہ اشتہارات نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ فیس بک کی کمائی کا بڑا حصہ اشتہارات سے آتا ہے۔ اس لیے مبصرین کا کہنا ہے کہ چونکہ واٹس ایپ فیس بک سے منسلک ہو جائے گا اس لیے فیس بک واٹس ایپ سے حاصل ہونے والی معلومات کو استعمال کر کے صارفین کو اشتہارات دکھا سکتی ہے اور کمائی کر سکتی ہے۔ لیکن یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکہ و دیگر ممالک میں واٹس ایپ ادائیگیوں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے اس لیے کمپنی نے اس سسٹم کو آسان بنانے کے لیے پالیسی میں یہ تبدیلیاں کی ہیں۔ اسی مقصد کے لیے فیس بک صارف اور کاروباری کمپنی کے درمیان ہونے والی گفتگو کو محفوظ بھی کر سکتی ہے اور بعد ازاں اسے مارکیٹنگ کمپنی کو بیچ بھی سکتی ہے۔ اور اگر فیس بک ہی اس کمپنی کو مینج کر رہی ہو گی تو صارف کو میسج کے ذریعے اس سے مطلع بھی کیا جائے گا اور صارف کے پاس یہ اختیار ہو گا کہ وہ اس کا جواب نہ دے کر اپنی معلومات ان کے ساتھ شئیر نہ کرے۔ رہی بات اس سب سے ہونے والے 'نقصان' کی تو پرائیویسی پالیسی کے مطابق واٹس ایپ چاہ کر بھی آپ کی ذاتی گفتگو کو پڑھ نہیں سکے گا چاہے وہ انفرادی ہو یا کسی گروپ میں۔ آپ کی تمام ذاتی گفتگو محفوظ رہے گی۔ یہاں سوالات یہ ہیں کہ اگر ذاتی گفتگو محفوظ ہے تب بھی صارفین کا ردعمل اتنا سخت کیوں ہے؟ اور یورپی ممالک میں یہ پالیسی کیوں نافذ نہیں ہو گی؟

پہلے سوال کا جواب ٹرمپ کی 2016ء کی صدارتی مہم میں چھپا ہے۔ آپ کے علم میں ہوگا کہ اگر ٹرمپ کروڑوں ڈالر فیس بک پر مہم چلانے میں نہ بہاتے تو وہ کبھی صدر منتخب نہ ہوتے۔ ہوا یوں کہ ٹرمپ نے ایک ایسی ٹیکنالوجی کمپنی کو ٹاسک دیا جو فیس بک پر صارفین کی سرگرمی کو دیکھ کر ٹیکنالوجی کی بدولت اس کی شخصیت کا اندازہ لگاتی تھی اور پھر اسے "ٹرمپ کو ووٹ دو" پر مبنی مواد دکھاتی تھی۔ کچھ ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ اسی چیز کا استعمال کرکے اب فیس بک کاروباروں اور خود کو بھی فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ یعنی پہلے ووٹ نکلوائے گئے، اب پیسے نکلوائے جائیں گے۔ اس کے علاوہ ایک ہی کمپنی کا دنیا کے اربوں انسانوں پر اثر و رسوخ مزید بڑھ جائے گا۔ رہا دوسرا سوال تو اس کا جواب یہ ہے کہ یورپی یونین نے کارپوریشنوں سے شہریوں کی معلومات کو محفوظ رکھنے کیلئے سخت قوانین بنائے ہیں جن کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانے عائد کیے جاتے ہیں۔ اس کی ایک تازہ مثال فیس بک کو یورپی کمیشن کی جانب سے قوانین کی خلاف ورزی پر 11 کروڑ ڈالر کا جرمانہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ جرمانہ بھی واٹس ایپ کو فیس بک کے ساتھ منسلک ہونے کی بنا پر ہی کیا گیا تھا کیونکہ واٹس ایپ خریدتے وقت فیس بک نے کہا تھا کہ یہ واٹس ایپ کو فیس بک سے منسلک نہیں کرے گی لیکن جونہی نئی پالیسی آئی تو یورپی کمیشن نے غلط معلومات دینے کی بنا پر جرمانہ عائد کر دیا۔

دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی لوگ اس پالیسی پر ردعمل ظاہر کر رہے ہیں۔ لیکن چونکہ پاکستان میں واٹس ایپ ادائیگیوں کے لیے بڑے پیمانے پر استعمال نہیں ہوتا اس لیے اس کا اثر بھی واضح نہیں ہوگا۔ لیکن میرے خیال سے اس پالیسی میں کچھ نیا نہیں ہے۔ معلومات اکھٹی کرنا اور استعمال کرنا بہت پہلے سے ہی چھپ چھپا کر ہو رہا تھا، اب سامنے ہو رہا ہے۔ اور رہی ڈیٹا کی بات تو سارا ڈیٹا امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے ڈیٹا سنٹرز میں موجود ہے۔ پہلے "ستے خیراں سی"، اب "چھ" ہیں۔ لیکن اس "شور" کا فائدہ یہ ضرور ہوگا کہ ہمارے ہاں کم از کم لوگوں کو پرائیویسی نامی شئے کا کچھ ادراک ضرور ہو جائے گا۔ حکومت سے بھی سنجیدگی کی اپیل ہے۔

Check Also

Bachon Ki Tarbiyat Ke Liye Maar Peet Zaroori Nahi Hai

By Asma Hassan