Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zaara Mazhar
  4. Ye Rishte Naate Dar

Ye Rishte Naate Dar

یہ رشتے، ناتے دار

علیزہ کے والدین چشمہ میں رہتے تھے وہاں کا ایجوکیشن سسٹم بلکہ پورا ڈیپارٹمنٹ بے حد سٹرانگ ہے بچوں پر بے حد محنت کی جاتی ہے عمومی رزلٹ بہترین ہوتا ہے۔ علیزہ نے ایف ایس سی کر لی تو اس کا اسلام آباد کی ایک معروف جامعہ میں میرٹ پہ ایڈمیشن ہوگیا۔چشمہ جیسی چھوٹی جگہ پہ یونیورسٹی کا تصور فی الحال محال ہے۔ تیس کلو میٹر کے فاصلے پہ کچھ یونیورسٹیز کے کیمپس البتہ موجود ہیں لیکن ماحول میں مین کیمپس والی بات دور دور تک نہیں۔

اپنے گھر میں پہلی اولاد تھی تو خاندان میں سبھی کو انٹریسٹ تھا کہ بچی کہاں ایڈمیشن لے گی یا میرٹ پہ کہاں نام آتا ہے ٹیسٹ دینا اور میرٹ کے لئے انتظار کی سولی پہ ٹنگنا، دن گننا ایک لمبا پراسس ہے۔ بچی کا ذہن اسلام آباد کے لئے بنا ہوا تھا سو اس نے کافی محنت کی اور پرامید بھی تھی۔ شہر میں کافی قریبی رشتہ دار بھی موجود تھے جن کی بار بار کالز آ رہی تھیں کہ کیا اپ ڈیٹ ہیں کیا بنا کہاں ایڈمیشن ہو رہا ہے وغیرہ و وغیرہم۔علیزہ کے پیرنٹس کو رشتہ داروں کی یہ چنتا انکی محبت لگ رہی تھی جس نے انہیں قدرے بے فکر کر دیا کہ رشتہ دار موجود ہیں فکر کرنے والے۔

ہاسٹل ساتھ ہی اپلائی کیا ہوا تھا بچی اپنے گھر میں شاہانہ انداز میں رہنے کی عادی تھی سو اس نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اس غرض کے لئے ماموں چچا کے گھر بالکل نہیں رہنا۔ جونہی جامعات کی میرٹ لسٹس لگنی شروع ہوئیں اسلام آباد کی تینوں جامعات میں علیزہ کا نام ٹاپرز میں تھا اسکے والدین جس پوچھ پڑتال کو رشتہ داروں کی محبت سمجھ رہے تھے اصل میں وہ انکی پریشانی تھی کہ کہیں بچی انکی طرف ٹھہرنے نہ آجائے۔۔ (جبکہ بچی یا والدین کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا)۔

بس اتنا ہی خیال تھا کہ اگر کبھی کسی مشکل میں ہوگی تو قریب ہونے کی وجہ سے جلدی سے بچی کو دیکھ لیں گے۔ جونہی میرٹ لسٹ پبلک ہوئی رشتہ داروں کی پریشانی دو چند ہوگئی لمبی لمبی کالز آنے لگیں اسلام آباد کی جامعات کا معیار رشتہ داروں کی نظر میں گر گیا لاہور کا ماحول بہتر بتایا جانے لگا۔ یہاں بہت مسائل ہیں۔۔علیزہ کے والدین پریشان ہوگئیے کہ اتنے خراب ماحول میں بچی کو کیسے بھیجا جائے۔لیکن علیزہ کے والد کے کولیگز نے بتایا کہ بچیاں بچے برس ہا برس سے اسلام آباد جا ہی رہے ہیں اور پڑھ رہے ہیں ڈگریاں لے رہے ہیں مل جل کر دیکھ لیں گے آپ اللہ کا نام لے کر بھیج دیجیے روک مت لگائیے۔کولیگز تو رشتہ داروں سے بڑھ کر قریب ہوتے ہیں اور بہتر طور پہ کیفیات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ سو انکی تسلیوں کے بعد بچی کو بھیجنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔رشتہ داروں کی پریشانی کا سبب بھی سمجھ میں آگیا۔علیزہ کی والدین نے جب کھل کر تسلی آمیز اظہار کیا کہ انہیں بچی کو کسی کے گھر میں نہیں رکھنا بلکہ بچی ہاسٹل میں ہی رہے گی۔تب رشتہ داروں کی پریشانی اور کالز بند ہوئیں۔

واقعہ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ چھوٹے علاقوں کے بچے کتنے بھی ذہین کیوں نہ ہوں انہیں سیٹس کسی کوٹے میں نہیں ملتیں برابر میرٹ کو فالو کرنا پڑتا ہے ہاسٹل کی دستیابی بھی ایک صبر آزما مرحلہ ہے اور بھی بے پناہ مسائل ہوتے ہیں جن میں رشتہ داروں کی تکلیف کا مسلہ سب سے بڑا ہوتا ہے کہ بچہ کہیں ہمارے شہر میں پڑھنے نہ آجائے خواہ مخواہ کی ذمہ داری سر پہ آ جائے گی جبکہ والدین یہ سوچ رہے ہیں کہ ہمارے بہن بھائی وہاں پہ ہیں تو ہمیں تسلی رہے گی۔

Check Also

Dil e Nadan Tujhe Hua Kya Hai

By Shair Khan