Umar Ka December
عمر کا دسمبر

بچپن، جوانی اور بڑھاپا۔ عام طور پر یہ تین فیز صحت مند نارمل انسانی زندگی میں آ تے ہیں۔ بچپن تو بڑا نازک سا ہوتا ہے۔ بادشاہ سا ہوتا ہے۔ کئی سنہری پل جھولی میں ڈال جاتا ہے اتنے کہ ہماری باقی تمام زندگی بچپن کے جگنوؤں کو پکڑنے میں گزر جاتی ہے۔ ہر موسم موسمِ بہار لگتا ہے۔ نہ ٹھنڈ لگتی ہے نہ گرمی۔
بچے منافق نہیں ہوتے ان کے لئے مصلحت بھی منافقت ہوتی ہے۔ اس لئے بہت ساری مصلحتوں کو نہیں سمجھتے۔ جس دن بچہ مصلحت سمجھنے لگے بلوغت میں داخل ہونے لگتا ہے، ورنہ تو انہوں نے جو کرنا ہے کر گزرتے ہیں۔ لڑکپن تک جاتے جاتے فہم و ادراک کی تپسّیا شروع ہو جاتی ہے۔ جو وقت کے ساتھ چپکے چپکے سے دماغ میں شعور کی آ نکھ کھول دیتی ہےاور جوانی تو بس دیوانی ہوتی ہے۔
زین کسے عربی گھوڑے کی طرح چاق وچوبند، مضبوط اور مصروف اور خوب صورت، مست ملنگ۔ جتنی مرضی ذمہ داریاں ہوں انسان اپنی ہمت کے بوجھے میں ڈالتا رہتا ہے، بوجھ اور بوجھے اٹھانے کی بھر پور ہمت ہوتی ہے۔ جوانی میں آپ فیملی بنا رہے ہیں۔ بھاگم بھاگ ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیئے دن رات ایک کئے رکھتے ہیں۔ خود سے لاپرواہ ہو کر تمام رشتوں کا بوجھ لادے جاتے ہیں۔ آ نکھ بھر نیند نہیں لے سکتے۔
پھر بھی جوان روٹھی بیوی اور شکوہ کناں والدین کے درمیان پل بنے ہوئے ہیں۔ خود کو پسِ پشت ڈالے بہن بھائیوں اور یار دوستوں کی شادیاں بھگتا رہے ہیں۔ خاندان میں بہت سے بڑے بوڑھے حیات ہوتے ہیں جو آ پ کو ابھی کاکا، کاکی اور لڑکا یا لڑکی کہتے ہیں۔ وہ آ پ کو نہ بڑا سمجھتے ہیں نہ بڑا ہونے دیتے ہیں۔ جوانی عمر کا بہترین حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ ذمہ داریوں کا جون جولائی بھی ہوتا ہے، اسی عمر میں بہت کمانا ہوتا ہے اور بچانا بھی ہوتا ہے۔ بچوں نے سکول جانا شروع کر دیا ہوتا ہے۔ بڑھتی عمر کے ساتھ اخراجات بڑھتے ہیں ہمت کم ہوتی جاتی ہے۔
یہ سب کرتے کرتے کبھی آ پ تھکنے لگتے ہیں۔ پھر کبھی کبھی مڑ کر بچپن کی گلیوں اور جوانی کی چھاؤں میں سانس لینے لگتے ہیں، پناہ ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ انہی بھول بھلیوں میں چھپتے نکلتے چپکے سے سیاہ رات کے جیسی، کالی زلفوں میں سے سفیدی، سفاکی سے روزِ روشن کی طرح آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ڈٹ جاتی ہے۔ آپ کئی بزرگوں کو کندھا دےچکے ہوتے ہیں۔ چپکے سے ابا کی کھاٹ آپ کی گدی بننے لگتی ہے، پگڑی اور گدی کے ساتھ بہت کچھ آپ کو ملتا ہے اور اسی گدی پر بیٹھے بیٹھے دنیا ابا کی آنکھوں سے ان جیسی نظر آنے لگتی ہے۔
اور بڑھاپا تو ہے ہی بے بسی کی علامت ہے۔ عمر کا دسمبر چڑھ جاتا ہے۔ آپ ٹھٹھرائے ٹھٹھرائے سے رہتے ہیں۔ دسمبر کے دن بڑی تیزی سے بھاگتے جاتے ہیں۔ کتنا بھی روکو ہر گزرتا دن نقارہ بجاتا ہے۔ اب بس کہ تب بس۔ ہر روز چند جھریاں، چند ٹیڑھی میڑمی لکیریں چہرے پر بچھاتا چلا جاتا ہے۔ بہت کچھ کر سکنے کی ہمت رکھنے کے باوجود انسان مصلحتاً چپ سادھ لیتا ہے۔ آ نکھوں کے سامنے بہت کچھ مرضی کا نہ ہونے کے باوجود ہونے دیتا ہے۔ کون سی عمر، جوانی اور بڑھاپے کی سرحد کہلائے گی؟

