Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zaara Mazhar
  4. Titli Ke Par

Titli Ke Par

تِتلی کے پَر

بیٹی کی شادی کے معاملات طے کرنا ایک نازک مرحلہ ہوتا ہے۔ تتلی کے پروں کے کچے رنگوں جیسا، جیسے گھاس کی پتیوں پہ بیٹھی شبنم ہر معاملہ، ذرا سی اختلافی بات ہتھیلی سے اُڑی تتلی کی طرح رنگ چھوڑ جاتی ہے، جیسے تتلی کے پَر دوبارہ رنگین نہیں ہوتے جیسے ہلکی دھوپ سے اُڑی شبنم وآپس نہیں آتی ویسے ہی اختلافی معاملات پوری حیات پہ محیط ہو جاتے ہیں۔ سو دو طرفہ معاملات کی نزاکت اور احتیاط کا خیال رکھنا لازم ہے اور بیٹی والوں کے لئے تو یہ احتیاط مزید ضروری ہے بقول کسی؎

لے سانس بھی آہستہ

گھر میں بٹیا کی شادی کی تقریب برپا تھی، فرض کی ادائیگی کی خوشی اپنی جگہ عمر بھر کی محبت یوں انجان لوگوں میں دے دینے کا خیال سوہانِ روح تھا۔ ہر دم بٹیا کی زندگی کے مختلف فیز نظروں میں گھومتے رہتے کل کی بات لگتی ہے کہ گود میں آئی تھی، اب لمبی اُڑان بھرنے کو پر تول رہی تھی۔ چشمہ سے سہیلیاں ہفتہ بھر سے گھر میں تھیں۔ ہر دم تقریب اور ہلے گلے کا سماں تھا بٹیا کی کِھلائی ڈھولک سنبھالے "ساڈا چڑیاں دا چنبہ وے بابل اساں اڈ جانا " کی تان ُٹھا رہی تھیں۔

بچیوں نے تال ملائی ہمارا بھرا بھرا سا دل اُمڈ آیا جانے کیا نیا ہونے جا رہا ہے۔ دم مٹھی میں آگیا شائد دنیا میں پہلی بار وداعی ہونے لگی ہے۔ حالانکہ خاندان کی اور اپنے بہن بھائی اور دیوروں کی لمبی چوڑی شادیاں بھگتا چکے ہیں، لیکن اس بار کچھ بہت انوکھا تھا۔ دل کی دھکڑ پکڑ اور خدشات تھم نہیں رہے تھے۔ گھر میں اتنے ہلے گلے اور رونق کے باوجود ہر روز ایک دن سرک جاتا اپنے جگر کے ٹکڑے کو کاٹ کے کہیں اور ٹرانسپلانٹ کروانے جیسا خیال دل میں سِسکنے لگا۔

ہٹاؤ یہ آسان نہیں ہوتا ہماری ماں کے حوصلے بڑے تھے ہم بے بس سے سوچتے، لبوں سے دعائیں نکلتیں اور پلکوں پہ اٹک جاتیں الہٰی خیر کرنا، بہن بھائیوں کی شادی میں مدد اور ماں کے ساتھ کھڑا ہونا اور اس شادی میں زمین آسمان کا فرق تھا، کبھی لگتا تربیت میں کمی نہ رہ گئی ہو، کبھی وسوسہ جاگتا انجان لوگ اجنبی دیار کیسے ہوگا سب، ایف ایس سی کے بعد گھر سے پہلی بار رخصت ہوئی تھی۔ پندرہ بیس دنوں میں بس مہمانوں کی طرح گھر کا چکر لگاتی اور وآپس ہاسٹل چلی جاتی۔

کبھی خدشہ جگتا ایک تناور درخت اکھاڑ کر الگ شہر، الگ آب و ہوا میں بنا موسم کے اکیلا رُخ لگانے جا رہے ہیں نا جانے جڑیں پکڑنے میں کتنا وقت لگے گا چلنے والی آندھیاں قدم جمنے دیں گی یا اکھاڑ ماریں گی، موسم کب موافق ہوگا بس خدشے ہی خدشے، اور دعائیں ہی دعائیں۔ بٹیا کو کچھ سمجھانا تھا دماغ بنانا تھا زمانے کے کچھ بد رنگ پہلوؤں سے شناسائی دینی تھی۔ ہمت باندھتی تھی، لیکن اپنی ہی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ جسے ہتھیلوں پہ رکھ کے پالا تھا کہیں یہ بد رنگ پہلو دیکھ کے کیا ردعمل دے، نہ جائے دل نہ چھوڑ دے۔

دو دن رہ گئے تھے رخصتی میں جب موقع دیکھ کر سہیلیوں کے جھرمٹ میں گھری بیٹی کو چپکے سے بیڈ روم میں بلا لیا۔ ہم دونوں بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے، درمیان میں اسکی جگہ بنا لی، بیٹا کچھ بات کرنی ہے آرام سے بیٹھو اور دھیان سے سنو۔ ہاتھ سہلاتے ہوئے بات شروع کی جانی تم ہماری پہلی پہلی اولاد ہو پہلی اولاد بیٹا ہو یا بیٹی ماں باپ کے دل میں اس کا مقام الگ ہی ہوتا ہے۔ دل کے بہت قریب ہوتا ہے اور یہ ولی عہد والا اعزاز پھر کسی اولاد کو نہیں ملتا۔

تمہارے آنے سے ہمیں شادی کی معراج ملی تھی۔ ہم مکمل ہوگئے تھے، ماں باپ بننے کا احساس بہت دل آویز تھا، دو الگ کلچر کے لوگ بہت مضبوط ہو گئے تھے۔ راتوں کو جاگنا ماں باپ کا معمول ہے، لیکن پالنے پوسنے اور تعلیم و تربیت میں اپنی عقل اور سمجھ کے مطابق کوئی کوتاہی نہیں کی۔ کتنا دل تھا کہ تم ڈاکٹر بنو لیکن تم نے انجئیرنگ کو چنا۔ پھر اپنی مرضی کا ادارہ چنا۔ آسان نہیں تھا لیکن ہم نے تمہاری خواہش کو مقدم جانا۔ تعلیم مکمل ہوئی تو شادی کے لئے تمہاری رضامندی اور پسند کو اہمیت دی، اپنے حلقے میں سے بہترین کا انتخاب کیا۔

شادی کے جوڑے سے لیکر انویٹیشن کارڈز تک میں تمہاری پسند کو اولیت دی۔ جس چیز پہ ہاتھ رکھا اسے ممکن بنا دیا۔ شادی کا وییو تمہاری پسند کا چنا، مینیو بھی تمہاری پسند کا۔ سٹیج کی سیٹنگ کلر سکیم، یہ جتانے والی باتیں نہیں ہیں، بس دہرانے والی ہیں جیسے منزل کے تعین سے پہلے راستے کے کوس گن لئے جائیں۔ نکاح ایک مقدس بندھن ہے جہیز میں سنہری جگمگاتی ڈگریوں، میڈلز سمیت کسی مادی چیز کی کمی نہیں۔ جہیز میں نصیب نہیں رکھ سکتے کیونکہ نصیبوں کا تحفہ رب کی طرف سے رکھا جائے گا۔ اپنے رب سے تمہارےنیک نصیب کی دعا کے ساتھ رخصت کرتے ہیں۔

بیٹی تو فقیر کی بھی اپنے گھر کی شہزادی ہوتی ہے۔ پیدا کرنے، پالنے پوسنے، اچھی تعلیم اچھی تربیت اور شادی منعقد کروانے تک ہماری ذمہ داری تھی۔ یہ بندھن خالصتاً لڑکی لڑکے کے درمیان بندھتا ہے۔ سو اسے نبھانے کی ذمہ داری بھی نئے جوڑے کی ہوتی ہے۔ ہم بسانے نہیں جائیں گے والدین اور خاندانوں کا کام شانے پہ تھپکی سجانا ہوتا ہے۔ ہر گھر کا ماحول الگ ہوتا ہے۔ اجبنی ماحول میں رچ بس جانا مشکل امر ہے لیکن یہ رخصتی بیٹیوں کا نصیب ہے اور ہماری بیٹی بہادر ہے، کتنے ہی درپیش میدان فتح کرتی آئی ہے۔ پیغیمبروں ولیوں اور بادشاہوں کی بیٹیاں بھی رخصت ہو جاتی ہیں یہی ریت ہے یہی حکم ہے۔

نئے گھر میں کئی باتیں طبعیت کے خلاف ہوتی ہیں لیکن ایک دوسرے کی محبت میں بھیگتے ہوئے سہہ لینے سے ہی مشکلات کم ہوتی ہیں۔ بھلے ہم نے تعلیم میں یا تربیت میں بیٹے بیٹی کی تخصیص نہیں کی لیکن معاشرے میں یہ عنصر ابھی بھی موجود ہے کہ لڑکے اور لڑکے والوں کا پلا بھاری ہوتا ہے۔ قربانی کی توقع لڑکی سے ہی رکھی جاتی ہے۔ شادی کسی بھی جوڑے کی زندگی کا اہم ترین واقعہ ہے کیا حرج ہے جو اسے نبھانے میں اپنی طرف کی تمام کوششیں لگا دی جائیں۔

شادی کا ثمر ٹرے میں سجا کے پیش نہیں کیا جاتا اسے اپنے لئے اگانا پڑتا ہے۔ اپنی گھرداری بسانے میں انا کو بیچ میں مت رکھنا۔ ہم نبیوں کی سنت پہ عمل کرتے ہوئے اپنی اچھی تربیت والی بیٹی کو گھر میں نہیں رکھ سکتے اس لئے ذہنی طور پہ تیار کر کے بھیج رہے ہیں کہ کمپرومائز کی توقع اور ذمہ داری آپ کی ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پہ ایشو نہیں بناتے بلکہ سمجھ کے سلجھا لیتے ہیں یہ بھاری بھرکم ڈگریاں زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتی ہیں۔

اگلے سے امید رکھے بغیر خود بدل جانا جب تم پہل کرو گی تو آگے بھی اچھا ردعمل ملے گا۔ ساس، سسر کو والدین اور دیور نند کو بہن بھائی سمجھو گی تو ہماری یاد نہیں آئے گی یاد ہے ناں کئی بار میں ڈانٹ دیتی ہوں وہاں بھی ویسی ہے ماں ہوگی اللہ کرے آپکی زندگی کا یہ نیا مرحلہ آسانی سے طے ہو اپنے رب کے کرم سے ہم اپنی ایک اولاد کے فرض سے سبکدوش ہوں تو آگے تین مزید بچوں کی ذمہ داریاں ہیں، جنہیں ہم دنیا میں لانے کا سبب بنے ہیں اللہ نے ہمیں انکا امین بنایا ہے۔

آپ کو اللہ کی کرم فرمائی کے حوالے کیا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس گھر سے آپ کا رشتہ ٹوٹ گیا۔ بس اب مہمان بیٹی والا رشتہ بن گیا ہے۔ اپنے ساتھی کے ساتھ بانہوں میں بانہیں ڈالے کھلکھلاتی ہوئی آؤ ہم بیٹی کے ساتھ مہمان مہمان والا کھیل کھیلیں گے، جیسے تمہارے بچپن میں کھیلتے تھے۔ گھر کے دروازے کھلے ہیں کمرہ بھی منتظر رہے گا لیکن عارضی طور پہ لوٹ جانے کے لئے، آپ نے وہاں دل لگانا ہے گھرداری بسانی ہے۔

اپنی تعلیم اور تربیت کو کام میں لانا ہے ہم وہاں کے کسی معاملے میں دخل اندازی یا ہدایت کاری نہیں کریں گے یہ سب ہینڈل کرنا آپکی اپنی قابلیت اور صوابدید پر منحصر ہوگا، یوں سمجھنا ماں باپ کی تربیت اور ماحول کا امتحان ہوگا۔ ہمیں فیل نہ کروا دینا، لیکن خدانخواستہ اگر بہت تکلیف ہو راہیں ناہموار ہوں، بہت مشکلات ہوں، طبعیت بہت گھٹن محسوس کرے، تب صحت کو روگ لگانے کی بجائے شئیر کر لینا خود کو کبھی اکیلا مت سمجھنا، ماں باپ کے تجربے اور مشاہدے کام آجائیں گے۔ ہم مل کے دیکھ لیں گے حالات کے مطابق کیا حکمت اختیار کی جائے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari