Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zaara Mazhar
  4. Tareez Wala Kurta

Tareez Wala Kurta

تَریز والا کُرتا

موتیے کی پتیوں سے لب جو مس ہوئے

تیرے سفید کرتے کی خوشبو مہک اٹھی

ثانیہ شیخ

کسی زمانے میں برصغیر پاک و ہند میں گرمیوں میں مردوں کا پسندیدہ اور مقبولِ عام پہناوا سفید تریز والا کرتا تھا جو ہماری تہذیب و ثقافت اور موسم سے ہم آہنگی کا ترجمان تھا۔ جسے سفید ململ، ہلکی کاٹن، پاپلین، آرکنڈی، مائع و ابرق والی کاٹن یا گل احمد کی ریشم جیسی لون کے کپڑے پہ بنایا جاتا تھا۔ خواتین اور دوشیزائیں اپنے معمول کے کاموں سے فارغ ہو کے اپنے محبوب (باپ، بھائی، منگیتر ،شوہر، بیٹا) کے لئے گرما کی بھری دوپہروں میں ریڈیو میں چندا بیٹری سیل ڈال کے سریلے گیت سنتے اور گیت کے بول زیرلب گنگناتے ہوئے کُرتوں پہ کڑھائی کیا کرتیں۔

کرتا محبوب کا ہوتا تو کاڑھنے والے ہاتھ من ہی من میں مسکراتے، شرماتے ہوئے اپنی محبت کے کئی سنہرے ٹانکے بھی چپکے چپکے ٹانک دیتے جو کبھی تارکشی تو کبھی چھوٹی بوٹی کی کڑھائی پہ مشتمل ہوتے۔ گیت کے کتنے ہی بول چپ چپاتے کشیدہ کاری کے ان ٹانکوں میں کاڑھ دیتیں، جو محبوب کے بدن پہ سج کے محبتوں اور دعاؤں کا حصار باندھ دیتے لیکن یہ تعلق محسوس کرنے پہ پراثر ہوتا ہے۔ کبھی کبھار کُرتوں پہ ہلکے رنگ دھاگوں سے بھی کڑھائی کی جاتی لیکن جو خوبصورتی، نفاست اور نزاکت سفید اجلے کُرتوں پہ سفید دھاگے سے آتی، اس کا کوئی جوڑ نہیں تھا۔

تریز والا کرتا کاٹنا اور سینا بھی ایک کار دشوار تھا۔ سب سے پہلے کندھوں کی پیمائش اور من چاہی لمبائی کے مطابق کرتے کا درمیانی دامن چودہ یا پندرہ انچ لیا جاتا ہے، پھر آستین کی لمبائی چوڑائی کی پیمائش لے کر الگ کئے جاتے ہیں، یہی سب سے نازک نکتہ ہے اور یہیں سے کُرتے میں تریز ڈالنے کا اہتمام ہوتا ہے۔ آستین ناپ سے دو انچ لمبی رکھی جاتی ہے پھر بڑی نزاکت سے کندھوں سے جڑائی(سلائی)کے درمیان تریز کے لئے دو انچ کپڑا چھوڑ دیا جاتا ہے جسے ترپائی سے کندھے اور آسیتین پہ تریز کی شکل دی جاتی ہے۔

اب درکار چوڑائی کے مطابق کلیاں بیونتی جاتی ہیں اور کلیوں اور بازو کے ساتھ چار انچ کا کرتے میں ایک چوبغلہ یا کَچھّیاں سی جاتی ہیں، جو بغل کی طرف سے قمیض کو آرام دہ اور کِھچ پڑنے سے محفوظ رکھتی ہیں۔ کرتے کی سیدھی پٹی بنانا بھی ایک الگ مہارت کا کام تھا۔ تھوڑی سی محنت سے گریبان میں پٹی تو آرام سے سیدھی بن جاتی لیکن آخر میں پٹی کا تعویذ سیدھا اور نفاست سے بٹھانا کافی دشوار تھا، توجہ کا ذرا سا ٹیڑھ پن پٹی کے اختتامی تعویذ میں کجی لے آتا اور نانی ،دادی سے خوب فضیحتہ ہوتا پھر ادھیڑو، بار بار ادھیڑو جب تک کہ تعویذ کا چوکھٹا سیدھا نہ بیٹھ جائے۔ پٹی بننے کے بعد گلے کے گردا گرد بین یا گلاٹی کی تراش اور محتاط سلائی ایک اور توجہ اور لگن مانگتی۔

گئے زمانے میں بڑی بوڑھیاں جب لڑکیوں کو میٹرک کی چھٹیوں میں سلائی سکھانے کی غرض سے مشین پہ بٹھاتی تھیں تو سب سے پہلے کرتا سینا سکھاتی تھیں، جسے سینے میں آنکھیں پھوڑنا پڑتی تھیں اور چھوٹے بڑے کتنے ہی نازک مقام آتے تھے جہاں ہاتھ کی صفائی درکار ہوتی تھی، لیکن ایک کامیاب کرتا سلائی کرنے کے بعد لڑکیوں کی سینے پرونے والی زندگی آسان ہو جاتی تھی ،ہر طرح کی سلائی مکھن کا بال بن کے نکل جاتی۔ کرتے میں کئی طرح کی چھوٹی سلائیوں کی الٹ پلٹ سے نفاست لائی جاتی ہے ذرا سی غلطی ہوتی اور سکھانے والی امی، تائی یا چاچی ہاتھوں میں سوئی کی نوک اتنی زور سے چبھو دیتیں کہ وہ غلطی دوبارہ نہ ہوتی۔

اس وقت خاندان مشترکہ نظام کے تحت چلتے تھے تو سلیقے کے سیکھنے سکھانے والے تمام کام بھی گھر میں موجود خواتین کی مشترکہ ذمہ داری ہوتے تھے۔ ابھی یو ٹیوب کھنگال مارا کہ تریز ولا کرتا دکھائی دے جائے تو جان کاری کے لئے عکس دے دوں لیکن افسوس ہوا کہ بڑے سے بڑا ٹیلر بھی اب تریز والا کرتا سلائی نہیں کرتا بلکہ بیشتر تو کلیوں والے کرتے کو ہی تریز والا کرتا کہتے ہیں۔ جس میں تریز ہوتی ہے نہ چوبغلہ۔فیشن میں جدت کے سبب خواتین میں آٹھ، سولہ اور بتیس کلیوں والے گھیردار فراک کی طرح کے کرتے بھی چوڑی دار پاجامے کے ساتھ فیشن میں آتے اور جاتے رہے۔

کپڑے دھلتے تو الگنی پہ مائع لگے سفید اجلے اجلے کرتوں کی بہار آجاتی الگنی سج سی جاتی، بہت نخریلے مردوں کے گھر کی خواتین اس احتیاط سے کپڑے سکھاتیں کہ دھوپ میں کپڑے ڈال کے سفید ململ کی چادریں ڈال دیتیں تاکہ دھول اور مکھی کے گند سے محفوظ رہیں۔ یہ سفید کرتے کڑکتی دھوپ میں ہی ڈالنے ضروری تھے ورنہ مکھیوں کی پسندیدہ جا بن جاتے اور دھونے اور گند چھڑانے کی محنت دوبارہ کرنا پڑتی۔ سفید لٹھے کی گھیر دار شلوار اور کالی مکیشن، پشاوری چپل اور کولہا پوری کے ساتھ ان کرتوں کو پہننے والوں کے ٹھاٹھ دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔

کڑھائی والے کرتے پہن کے محبوب سج جاتے اور اترائے اترائے پھرتے۔ جس کے تن پہ کڑھائی والا سفید کرتا ہوتا ،یہ ایک اوپن سیکرٹ ہوتا کہ He is in a relashionship۔ یار دوست قسمت پہ رشک کرتے اور ذومعنی چھیڑ چھاڑ بھی چلتی رہتی۔ کُرتے میں ملبوس مسکراتے چہرے کے تصور میں کشیدہ کاری پہ کسی نادیدہ محبوبہ کی سنہری مسکراہٹ کی کلیاں خوشبو دینے لگتیں، ایک ایک ٹانکہ چھاتی پہ مہکنے لگتا۔یہ کرتے چارخانے کی لنگی، دھوتی، گھیرا دار شلوار، رام پوری پاجامے، کھڑے پاجامے اور جینز پہ بلاتکلف مقبول تھے خواتین اور مردانہ کرتے ایک ہی طریقے پر سلتے تھے بس خواتین سامنے کی پٹی پہ ڈبل کاج کے ساتھ سونے، چاندی کے بٹن لگا لیتیں۔

پشاوری چپل، مکیشن اور کولہا پوری چپلیں تو اپنی اصل شکل و صورت کے ساتھ آج بھی رائج ہیں اور بے حد پسند کی جاتی ہیں، برانڈز نے ان پہ خاصی توجہ دی ہے اور ڈھنگ کا ایک درمیانہ سا جوتا بھی دس ہزار تک پڑتا ہے۔ محبتوں میں گندھے کرتے کمرشل ازم کی نذر ہو گئے ،جانے یہ ڈیزائنز اور برانڈ تریز والا کرتا کیوں نگل گئے؟کرتے اب بھی بنتے ہیں عیدوں پہ بے پناہ بکتے ہیں لیکن ان میں کلی ہے نہ تریز ،سیدھی قمیض پہ کف کالر اور کبھی بین لگا کے کرتے کے نام پہ تہمت رائج ہے۔ نئی نسل نے تو کرتے کی شکل بھی نہ دیکھی ہوگی۔

گرمی کا موسم آرہا ہے، اجلے خوشبودار موتیے کی کلیوں جیسی نرم لَون کے کرتوں کے پہناوے کا موسم۔ کاش کسی درزی کو یہ ہنر آتا ہو؟

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan