Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zaara Mazhar
  4. Susan Ka Noha

Susan Ka Noha

سوسن کا نوحہ

رات بھر سے بارش آ لود بھاری ہواؤں میں چڑیلیں اپنے پر پھیلائے شاں شاں کر رہی تھیں۔ اسلام آباد کے موسم بھی عجیب ہیں، سوسن نے کئی روز کی مسلسل بارش سے اکتا کر سوچا۔ چشمہ میں موسم کتنے سبھاؤ اور سلیقے سے اترا کرتے تھے، اب اس نے بڑی محبت سے آ نکھوں میں چشمہ(علاقے کا نام) کو سرمے کی طرح بھرا۔ بہار میں بہار، گرمی میں گرمی، سردی میں بس سردی اور چند دن خزاں کے۔

خزاں کا موسم بھی کتنا بھرپور ہوتا ہے، دھیرے دھیرے ہر درخت کو ننگا کرتا رہتا ہے۔ اور جب ماحول میں ہر طرف ایک عریانی سی پھیل جاتی ہے، تو بہار کا درزی ایک دم سے ہوش میں آ تا ہے، اور درختوں کے عریاں تن ڈھانپ دیتا ہے۔ کھلی اور چوڑی سڑکوں پر بھاگتے زرد پتے منظر میں کیسی خوبصورتی بھر دیتے ہیں۔ اب بہار کا موسم عروج پر ہے، لیکن ان بارشوں نے بیزار کر کے رکھ دیا ہے۔ اس نے دماغ میں چلنے والی خود کلامی کو بڑھاوا دیا۔

کئی روز قبل ٹیلر نے فون کر دیا تھا، کپڑے سل گئے ہیں لے جائیے۔ سوسن کو ابھی تک کہیں اکیلے جانے کی عادت نہیں ہو سکی تھی۔ دوسری فون کال پہ اس نے سوچا آ ج اکیلے ہی چلی جاتی ہوں، ورکنگ ڈیز میں کسی کو میرے لئیے فرصت نہیں ملے گی۔ پانچ منٹ کی واک پہ مرکز تھا۔ سامنے والے چھ پلاٹ اکٹھے ہی تعمیر کے مرحلے میں تھے۔ مزدور، مستری دے دھنا دھن، اپنے کاموں میں لگے ہوئے تھے۔ ان ٹھیکیداروں اور مزدوروں، مستریوں کی صبح چھ بجے ہی شروع ہو جاتی ہے شائد۔

سات بجے تک تو ان کا کام رفتار پکڑ چکتا ہے۔ پچھلی لائین کے دو گھروں میں لکڑی کا کام شروع ہونے والا تھا۔ صبح اس نے کچن کے باہری دنیا سے نظارے کے واحد روزن سے، لکڑی کی شیٹوں سے لدا چھوٹا ٹرک ان لوڈ ہوتے دیکھا تھا۔ اب پورا پورا دن چِرائی اور ٹُھکائی کا شور بھی برداشت کرنا ہوگا، سوسن دل ہی دل میں سوچتے ہوئے ہینڈ بیگ میں ضروری سامان رکھنے لگی۔

باہری گیٹ کو لاک لگایا اور دل بڑا کر کے چھاتا تان کر، ارد گرد کے مناظر آ نکھوں سے کھوجتی چل پڑی۔ جگہ جگہ گیلی سرمئی بجری اور ریت کے ڈھیر لگے تھے، جنہوں نے گلیاں ہی روک رکھی تھیں۔ تین گھروں کے دوسرے لینٹر کھل رہے تھے۔ چوتھے پلاٹ کی تعمیر ذرا پیچھے رہ گئی تھی۔

دو مزدور بھاری مشین کے ساتھ پرشور آ واز میں بَور کر رہے تھے، جن کی مسلسل ٹُھک ٹُھک ماحول کے کانوں میں سمع خراشی کر رہی تھی۔ یہ بورنگ کا نیا پھڈا یہاں اسلام آباد میں ہی دیکھا تھا، پانی سے پہلے اتنی لال کیچڑ نکلتی ہے کہ ہر چیز لت پت ہوجاتی ہے۔ تمام گلی، گلی میں رہنے والوں کی گاڑیاں، چند قدموں پر موجود منی مارکیٹ اور اونچی مسجد کی تھڑیاں سب ہی لال کیچڑ میں لت پت ہوجاتی ہیں۔

برابر والوں کے لان میں سلاد کے ہرے ہرے پتے بارش کے قطروں کا لباس پہنے بڑے تروتازہ اور خوش لگ رہے تھے، جبکہ مورنگا کے پتے بے جان سے تھے۔ چند ایک گلابوں پر پھول اور کلیاں ہوا میں رقص کر رہی تھیں، اور سامنے والوں کے باہری لان میں، بادام اور خوبانی کے درختوں کی ننگی شاخوں پر گلابی گلابی کلیاں، موندھی موندھی آ نکھوں سے چٹکنے کو بے تاب تھیں۔ لیکن پر شور ہوا اور بارش میں بھیگی کچھ خوفزدہ سی تھیں۔

دائیں طرف کے خالی پلاٹ میں بھنگ کی تازہ تازہ نوکدار کونپلیں زمین کے ساتھ ساتھ پھیل رہی تھیں۔ سوسن نے لت پت گلیوں سے نکل کر پکی سڑک پکڑی۔ گرین بیلٹ کی حد بندی کرتی، کالے پیلے بلاکس کے ساتھ ساتھ بہتی، اٹھکیلیاں کرتی، کھاڑی ٹاپی اور رک کر کھٹ کھٹ چند تصویریں موبائل میں محفوظ کر لیں۔

آ گے مسجد کی تھڑیوں پر اندھا فقیر جوتوں والے ریک کے ساتھ ٹیک لگائے دنیا و مافیہا سے بے خبر، سرد ہوااور بارش سے بے نیاز سو رہا تھا۔ سوسن کا دل اسکی بے سروسامانی پر دکھ گیا۔ مٹھی میں دبے سکّے اور دو چھوٹے نوٹ اسکے کاسے میں ڈالے اور موڑ مڑ گئی۔ اس وقت اس کا دماغ بکھرے ہوئے خیالات کی آ ماجگاہ بنا ہوا تھا۔ سوسن کو شادی میں جانا تھا۔

مرکز میں درزیوں کی بھرمار تھی، لیکن اس کے لئیے سب ہی نکمے ثابت ہوئے تھے۔ نئی جگہوں پر اپنی طبیعت سے میل کھاتی چیزیں تلاش کرنا اچھے خاصے نقصان کرواتا ہے، اس نے چِڑ کر سوچا۔ اب تک کتنے جوڑے برباد ہوئے، ذہن میں دہرائے، لیکن ٹھیک ٹھیک حساب یاد نہیں آ سکا۔ البتہ کامل اور مطمئن کرنے والے دو ہی جوڑے یاد آ ئے۔ تقریبا سب ہی سے باری باری ایک جوڑا ٹرائی کے طور پر سلوا کر نقصان اٹھا چکی تھی۔

لیکن اب اس والے درزی نے جوڑا عین اسکی خواہش کے مطابق سی دیا تھا، سو وہ مطمئن ہوکر شادی میں پہنے جانے والے چار جوڑے، دو گھنٹے لگا کر اور ڈیزائن سمجھا کر مطمئن ہوگئی۔ دو ہفتوں کا وقت لیا تھا اس نے، سوسن نے بلا تعرض جوڑے تھما دئیے۔ اگرچہ بارش تھی لیکن زندگی بڑی خوبصورتی سے رواں دواں تھی۔ اس روانی نے اسکے موڈ پر بھی بڑا خوشگوار اثر ڈالا، اور جو ہوا گھر میں اسے چوٹ کھائی چڑیلوں کے نوحے لگ رہی تھی، کُھلے میں بڑی مست اور اٹھکیلیاں سی کرتی محسوس ہونے لگی۔

کبھی شرارت سے بزور چھتری اڑانے پر آ مادہ لگتی، اور کبھی کیپ شال کے اندر گھس کر سرسرانے اور گدگدانے لگتی۔ سوسن نے بے ساختہ بازو پھیلا کر ہتھیلی کِن مِن بارش میں کھول دی، اور قطرے مٹھی میں قید کر لیئے۔ دوسری گلی کے موڑ پر لگے صنوبر کے شاخیں پھیلائے درخت پر جانے کون سے پرندوں کی جوڑی محبت اور بارش میں ایک ساتھ بھیگ رہی تھی۔

انکی بوجھل چوں چوں میں محبت گُٹک رہی تھی۔ ان شرارتوں اور سانس لیتی زندگی نے سوسن کا موڈ خوشگوار کر دیا۔ شادیوں میں چند ہی دن رہ گئے ہیں، اس نے انگلیوں پر دن گنے اور ٹیلر شاپ کی سیڑھیاں چڑھنے سے پہلے، بیسمنٹ میں بیوٹیشن شانزے سے ہیلو ہائے کرتے، چھوٹی موٹی ڈینٹنگ، پینٹنگ کی اپانئنٹمنٹ بھی لے لی۔ درزی انتظار میں تھا، سوسن کو دیکھتے ہی جوڑے نکال دیئے۔

لیکن چاروں جوڑے باری باری دیکھ کر سوسن پر شدید غصہ، رنج اور دکھ کی کفیت طاری ہوگئی۔ چاروں میں سے ایک بھی جوڑا اسکی امیدوں پر پورا نہیں اترا تھا۔ بھاری اجرت الگ دینی پڑی۔ واپسی پر، نہ مست ہوا کے شرارتی بوسے اچھے لگ رہے تھے نہ کھاڑی میں مچلتا گدلا پانی۔ نہ کالی پیلی ڈبیوں والی بہار کے پھولوں سے بھری گرین بیلٹ۔

غصے سے بغل میں دبی چھتری بھی کھولنی یاد نہیں رہی۔ ارد گرد کے تمام مناظر، جیسے ہواؤں کی نادیدہ چڑیلوں نے پھیکے اور بے رنگ کر دیئے ہوں۔ اب ان مناظر میں کوئی کشش نہیں تھی۔ سوسن نے بے دلی سے گلی کا موڑ مڑا، تب ہی پرندوں کا محبت کے خوشنما رنگوں میں بھیگتا جوڑا، پھیرا مار کر اس کے سر کے اوپر سے گزر گیا۔ مسجدکا اندھا فقیر بڑے بے ڈھنگے پن سے، مٹھیوں میں گولے بنا بنا کر کچھ کھا رہا تھا۔ بہت برا لگا اسے۔

سوسن نے چابی گھما کر گیٹ کا لاک کھولا۔ اندر آ تے ہی ہاتھوں کو بوجھ سے نجات دلوائی۔ اور کمبل میں گھس کر، چپ چاپ کُھلے بالوں والی چڑیلوں کے نوحے اور بین دل پہ رکھے، مرہم کی طرح سننے لگی، کیا عجب، جو ان چڑیلوں کے کالے ڈھیلے ڈھالے لبادے بھی کسی درزی نے برباد کر دئیے ہوں۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali