Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zaara Mazhar
  4. Saqoot e Dhaka, Deewani Ki Bar

Saqoot e Dhaka, Deewani Ki Bar

سقوطِ ڈھاکہ،دیوانی کی بڑ

سولہ دسمبر تمام پاکستانی قوم کے لئیے ایک المیہ ہے یا اب ایک رستا ہوا ناسور ہے جس کی شدت وقت کی دھول نے قومی سطح پر کم کر دی ہے۔ لیکن ہمارے لئے ایک گھریلو سانحہ ہے۔ جس کے تمام مرکزی متاثرین اب بھی حیات ہیں۔ ہماری تمام عمر اس سانحے کی کہانیاں سنتے گذری ہے جن کی راوی والدہ رہی ہیں۔ اس تباہی و بربادی کے تمام واقعات اپنی تمام تر ہولناکی سمیت ان کے سینے میں بیٹھ چکے ہیں۔ ان کے پاس اب بھی بیٹھیں تو وہ اس سانحے کے ہولناک قصےسناتی ہیں۔ سانحات ہوتے ہیں اور گذر جاتے ہیں وقت ان پہ اپنی دھول ڈال دیتا ہے تو سنگینی دب جاتی ہے۔ لیکن ہماری والدہ نے گھر میں اس سانحے کو ہمیشہ زندہ رکھا۔ بلکہ اس کی جزیات تک ہماری رگوں میں دوڑا دیں۔

ہم لوگ بنگلا دیش کے ساتھ اپنے تعلق کو چھپاتے پھرتے تھے۔ ہماری کوشش ہوتی کہ امی کسی کو یہ واقعات نہ سنایا کریں۔ لوگوں کا ردِ عمل بڑا عجیب سا ہوتا تھا ترس کھایا ہوا سا۔ ہمارے بڑے تین بہن بھائی عرش سے فرش پہ گرے تھے۔ اس صدمے سے کبھی نکل نہیں سکے۔ ان کی آنکھوں میں حرکت کرتی سیاہ اور سفید پتلیوں کے درمیان تیسری چیز ایک پھٹا پھٹا خوف یا جمی ہوئی سراسیمگی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ انہوں نے زندگی کو ویسے نہیں جیا جیسے عام نارمل لوگ جیتے ہیں۔

انہوں نے زندگی کو ویسے برتا جیسے آدم نے جنت سے نکالے جانے کے بعد ایک حیرت اور پچھتاوے سے اس جہان کو آباد کیا تھا۔ ہم نے ابنِ آدم کی اس کیفیت کو گھر میں بھگتا ہے۔ کانوینٹ میں پڑھنے والوں کو انگلش، بنگلہ اور اردو ہی بولنا اور سمجھنا آتی تھی پنجابی زبان پہ چڑھتی ہی نہ تھی۔ آج بھی کئی الفاظ میں وہ مذکر کو مونث اور مونث کو مذکر کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں داخل کروا دئیے گئے جہاں انہیں کچھ سمجھ ہی نہ آتا۔ اس وقت استادوں کی تدریسی زبان بھی صوبائی ہوا کرتی تھی یعنی اردو میں چھپا نصاب پنجابی میں تشریح کرتے تھے۔ بیچارے بدھو بنے گھر واپس آجاتے۔

لکھنا لکھانا ہمارے بچپن کا شوق تھا۔ اس شوق میں جو چیز سامنے آتی پڑھ ڈالتے۔ گھر میں دو تین اخبارات آتے تھے کہ ابا کا کیس ہر حکومتِ وقت کے ساتھ چلتا رہتا تھا۔ وہیں سے اخبارات چاٹنے کی عادت پڑی۔ اچھا اس عادت کے نتیجے میں ہمیں کالم نگاروں کے روزانہ کالم پڑھنا بے حد مرغوب تھا۔ نذیر ناجی۔ منو بھائی مجیب الرحمان شامی وغیرہ کے تمام کالم جو مشرق، نوائے وقت اور جنگ میں پبلش ہوتے۔ کبھی کبھار روزنامہ امروز بھی آتا لیکن روزنامہ جنگ نے آتے ہی باقی تمام روز ناموں کی اہمیت کافی حد تک کم کر دی۔

ابا وہاں اپنے چلتے کاروبار اور فیکٹریاں چھوڑ کر آئے تھے سخت پریشان رہتے تھے۔ رمضان انکل ابا کے پاس پارٹ ٹائم منشی گیری کرتے تھے۔ شام پانچ سے آٹھ بجے تک ٹائپ رائٹر پہ کھٹا کھٹ چٹھیاں ٹائپ کرتے جو پتہ نہیں کن کن محکموں میں ارسال کی جاتیں۔ ہمارے گھر میں ابا کی حیات تک ایک کمرہ انکے آفس کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ جس میں مختلف فائلز سے بھری لوہے کی دو جہازی سائز الماریاں، ٹائپ رائٹر، ایک رائٹنگ ٹیبل ود چئیر اور کمرے میں پندرہ بیس سلور کلر کی فولڈنگ کرسیاں ہمیشہ پڑی رہتیں۔ جو متاثرینِ ڈھاکہ فال کے ساتھ میٹنگ کے دوران کھل جاتیں۔

ہم نے اپنی زندگی میں ابا کو گھر میں جتنا دیکھا زیادہ تر اس ٹیبل کرسی پہ انگلیوں میں سیگریٹ دبائے جس کی گل جھاڑنا بھی فراموش کر دیتے تھے، سر جھکائے فائلز کے مطالعہ میں غرق دیکھا۔ اکثر کہہ دیتے کہ فلاں اخبار پڑھ کر سناؤ۔ انہیں سناتے سناتے ہمیں بھی اخبار پڑھنے کی چاٹ لگ گئی۔ ایسٹ پاکستان کلیم کمیٹی کے چئیرمین کی حیثیت سے آئے روز انکی تصاویر انکے احتجاج اور مطالبات کے ساتھ اخبارات میں لگا کرتیں۔ کئی بار انہیں گرفتار کر کے حوالات میں ڈال دیا جاتا۔ مقامی نامہ نگار انکے بیان کے ساتھ حوالات میں بند انکی تصاویر اخبارات کے پچھلے صفحات میں انتہائی غیر نمایاں انداز میں لگا دیتے۔

ہم دیکھ دیکھ کر روتے اور گھبراتے کہ ہائے کوئی سکول فیلو نہ دیکھ لے۔ اس وقت ہماری محدود عقل حوالات اور جیل، ملزم اور مجرم کو ایک ہی سمجھتی تھی۔ سیاسی یا نقصِ امن کے قیدی یا مجبور قیدی بھی ہوتے ہیں ہمیں علم نہیں تھا۔ اس روز بھی ابا کو حوالات میں بند کر دیا گیا تھا ہم ضد کر کے بھائی اور ایک انکل کے ساتھ ابا کو ملنے چل پڑے۔ اور حوالات کی سلاخوں کے پیچھے بدحال، بڑھی ہوئی شیو والے ابا کو دیکھ کر بلک پڑے۔

سلاخیں درمیان میں رکھ کر ابا نے سینے سے لگایا لیکن ٹھنڈی سلاخوں نے گرمی ہم تک پہنچنے نہ دی۔۔ گھر آکر ابا نے حوالات، جیل، ملزم اور مجرم کا فرق سمجھایا تو ہمارے منے سے دماغ میں یہ بات بیٹھی کہ حوالات اتنی بھی بدنامی والی بات نہیں۔ لیکن مصیبت یہ تھی کہ ہماری ہم عمر بچیاں تو قومی راز کی یہ باریکیاں نہیں سمجھ سکتیں تھیں۔ ان کے لیئے حوالات مجرموں اور قیدیوں کے رہنے کی جگہ تھی سو ہم اس راز کو سینے میں ہی دبائے بیٹھے رہے۔ لیکن یہ بھی اچھی بات تھی کہ اس وقت ہماری تمام سہیلیوں کے گھروں میں اخبار ہی نہیں آتا تھا جو کسی کو خبر ہوتی۔ نہ عوامی شعور بندر کے ہاتھ ماچس تھی جو کہیں خبر نکلتی۔ خیر یہ تو ایک انوکھا المیہ تھا۔

کئی اخباروں کے نمائندے Chairman East Pakistan claim committee کے بیان لینے گھر بھی آتے تھے۔ اتنے کہ نامہ نگار ہمارا آئیڈیل بن گئیے۔ ہمارا بہت جی چاہتا کہ بڑے ہوکے ہم بھی یا تو نامہ نگار بن جائیں طرح طرح کی اور سنسنی خیز خبروں کے پیچھے ہبڑ دبڑ بھاگا کریں اور تمام خبریں ہم ہی بریک کیا کریں۔ یا پھر کالم نگار بن جائیں اور موٹے موٹے چشمے کے اوپر سے جھانک کر سب کو گول گول گدلی آنکھوں سے گھورا کریں۔ اور آفس کی پرانی سی لکڑی کی چوں چوں کرتی میز کرسی پہ بیٹھے بیٹھے ہراس پھیلایا کریں۔ ایک لڑکی ہونے کے ناطے ہمارے یہ خیالات قابلِ گردن زنی تھے سو چھپا کر دل میں سینت سنبھال دئیے۔ ہمارے خاندان میں لڑکیوں کے پر نکلنے سے پہلے ہی کھینچ کر کاٹنے کا رواج تھا۔ لیکن دل میں دبی خواہش گاہے خون میں ابلتی رہتی تھی۔

انٹر کے بعد تھوڑی عقل آ چکی تھی پتہ چل گیا تھا کہ بیٹھے بٹھائے کچھ نہیں ملے گا ہمت کرنا ہوگی بڑی خواہش تھی۔ کہ گریجوئشن میں کسی طرح صحافت کو پڑھ لیں تاکہ اخبارات تک رسائی ہو۔ ہمت کر کے لاہور سے پنجاب یونیورسٹی کا سلیبس منگوایا۔ ہم سے صرف چھ سال بڑے بھائی صاحب نے سلیبس کا عمیق مطالعہ فرمایا اور فیصلہ صادر کر دیا کہ اس میں تو زیادہ تر فیلڈ ورک ہے سو آرام سے اسے پھینکو اور پڑھنا ہے تو کوئی لڑکیوں والے مضمون اختیار کرو۔

ہم دل مسوس کر رہ گئے۔ کہاں خیالوں خیالوں میں خود کو چشمہ لگائے لکڑی کی میز کرسی پہ بیٹھے سب کو ہراساں کرتے دیکھا کرتے۔ خبروں میں سنسنی خیزی کیسے پھیلانی ہے اپنے لائحہ عمل کیسے طے کرنے ہیں وائے قسمت سب خواب جل جلا کے راکھ ہوگئے۔ ہمارے خواب جو جِلا پاجاتے تو کیا عجب تھا کہ آج ناموری کے ساتھ جی رہے ہوتے۔ تحریکِ تحریر۔ خاکوانی صاحب کی نئی کتاب کے چند صفحات پڑھ کر ہم نے اپنا بچپن زنگارا ہے۔

Check Also

Pablo Picasso, Rangon Ka Jadugar

By Asif Masood