Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zaara Mazhar
  4. Saima Ka Masla

Saima Ka Masla

صائمہ کا مسٔلہ

صائمہ ابھی اپنی ڈگری کر رہی تھی جب اس کا بظاہر ایک اچھی جگہ سے رشتہ آیا اماں ابا کے خواب و خیال میں شادی کا دور دور تک فی الحال کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن جس نے بھیجا تھا اس کا اصرار تھا کہ ایک دفعہ دیکھ لیجیے اچھے رشتے قسمت سے ملتے ہیں آپکی چار بیٹیاں اور ہیں ابھی شروع کریں گے تو کبھی نمٹ سکیں گے۔ چھوٹے دو بیٹے بھی تھے انکی پڑھائی اور اگر جاب نہ ملے تو بیٹوں کو کوئی کاروبار بھی کروا کے دینا ہوتا ہے۔امی سوچنے پہ راضی ہوگئیں امی میں ایک خاصیت تھی اچھی یا بری جب سوچنے پہ راضی ہوتیں تو ابو کو عمل پہ راضی کر لیتیں۔

ابو کو صلاح اور رشتہ دونوں ہی پسند آگئے۔ گھر والے اور لڑکا بظاہر بڑے اچھے لگے سادہ مزاج امی ابو نے کونسا زندگی کو سو سال برت لیا تھا (تئیس برس پہلے شادی ہوئی تھی امی بیس برس کی تھیں ابو پچیس کے اب امی تینتالیس سال کی تھیں اور صائمہ کی بڑی بہن لگتی تھیں) جو زیادہ مین میخ آتے۔ اولاد بھی پہلی پہلی تھی۔ ڈگری مکمل ہوتے ہی لڑکے والوں کی طرف سے شادی کی تاریخ لے لی گئی بائیس برس کی صائمہ شادی کا جوڑا پہن کے بند آنکھوں میں ستاروں کے سپنے بھر کے سسرال سدھاری۔

بہت اچھے اور سلجھے ہوئے نظر آنے والے لوگ ایک دم جاہل نکلے۔ بارات واپس پہنچتے پہنچتے رات کے دو بج گئے۔ پہلی ہی رات چخ چخ شروع ہوگئی۔ دلہن کے جہیز کا سامان اتروانا تھا اور ساتھ آئی دونوں دیگوں میں سے گھر میں موجود مہمانوں کو کھانا کھلا کے سلانا تھا اور کھانا محلے میں بھی تقسیم کرنا تھا۔ دونوں دیور تو بارات میں شرکت کر کے نڈھال ہو چکے تھے ٹھینگا دکھا کے سو گئے۔ دروازہ پیٹ کر دلہا بنے احمد کو باہر نکالا گیا ارمانوں بھری ننھی دلہن تھک کے سو چکی تھی پتہ نہیں کب دلہے میاں وآپس آئے۔

ولیمے کے بعد صائمہ کو پتہ چلا احمد بھی نرا جاہل ہے بلکہ سب گھر والوں سے بڑھ کر ہے بیوی کے احساسات کا بالکل خیال نہیں۔ ناک میں سب کے سامنے بلا جھجھک انگلیاں ڈال لینا اور رینٹ کو انگوٹھے اور انگلی کے پورے پہ مسلتے رہنا۔۔ ہر کھانا پینا کھا کے ریپر ادھر ادھر پھینک دینا۔ پیالوں میں بچے ہوئے سالن دوبارہ ہنڈیا میں انڈھیل دینا۔ فریج میں رکھی بوتلوں کو منہ لگا کے پی جانا، پورے گھر میں پہننے والے سلیپر پہن کر باتھ روم میں گھس جانا اور نکل کر ہاتھ دھونے کا تکلف کرنا پورے گھر میں کسی کی عادت نہ تھی۔

کھانے کے دوران چپڑ چپڑ اور چائے کی سڑکیاں معمول تھیں۔ بڑے چھوٹے میں کوئی ادب لحاظ نہ تھا بلکہ تمام دن تو تڑاخ چلتی۔ سب کے منہ پہ گالیاں رہتیں۔ یہ کس سیارے کی مخلوق ہیں تہذیب نام کو نہیں صائمہ گھبرا کے سوچتی۔۔ شادی کے پندرہ دنوں میں اس دن صائمہ کی برداشت کی حد ختم ہوگئی جس دن احمد نے اسے گالی دے کے اسکی سستی پہ کوسا کہ وقت پہ کپڑے تیار کیوں نہیں کئے۔اس وقت آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہوگئیں جب دیور نے قہقہہ لگاتے ہوئے فرمایا بھابھی یا ہماری جیسی ہو جاؤ یا ہمیں بدل دو لیکن تم میں اتنی عقل ہے نہ ہمت کہ ہمیں بدل سکو۔

صائمہ نے سسکیوں کے درمیان ابو کو فون کر کے کہہ دیا مجھے لے جائیے کبھی واپس نہ بھیجنے کے لئے۔ پہلی پہلی اولاد تھی پھر لاڈوں پلی امی ابو کا کلیجہ کٹ گیا چار گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد پہنچے اور بیٹی کی ساس سے معذرت کرتے ہوئے بیٹی کو واپس لے آئے۔۔۔ بیچ میں کوششیں ہوئیں لیکن صائمہ نے منع کر دیا۔۔ تائی امی نے کہا ابھی بہت صدمے میں ہے جتنی کوششیں ہوں گی صائمہ مزید بدک جائے گی اسے خود فیصلہ کرنے دیجیے۔ غصہ ٹھنڈا ہوا تو بھی صائمہ کو وہاں جانے کے خیال سے اور ان سب کے درمیان رہنے کے خیال سے ابکائی آ جاتی۔

دیکھتے ہی دیکھتے دو سال گزر گئے اس دوران اکا دکا رشتے آئے لیکن بالکل ہی ناقابل قبول اور کم پڑھے لکھے نکھٹو۔۔ ایسے ہی گزارا کرنا تھا تو احمد کیا برا تھا وہ سوچتی۔ خاندان میں سلیم بھائی تھے بیوی دو بچے چھوڑ کے مر گئی تھی وہ اپنانے کو تیار تھے لیکن صائمہ کا دل نہیں مان رہا تھا کہ میں کیوں پہلے سے شادی شدہ یا دو بچوں کا باپ قبول کروں۔ مایوس ہوکے انہوں نے بھی پچھلے برس شادی کر لی تھی بڑی پیاری اور بیس سالہ کنواری لڑکی کا ساتھ نصیب ہوا تھا مجھے کنوارا لڑکا کیوں نہیں مل سکتا جب سلیم بھائی کو دو بچوں کے ساتھ دوشیزہ مل گئی۔

اتنے بیاہے مردوں کو کنواریاں مل ہی جاتی ہیں۔ میرا کیا بگڑا ہے میں کیوں سمجھوتہ کروں۔ اب صائمہ سب کے سروں پہ دھرا ایک ناپسندیدہ بوجھ تھی۔ بہن بھائی بڑے ہو رہے تھے صائمہ سے چھوٹی نائمہ بھی گریجوئیٹ ہو چکی تھی۔ صائمہ کے لئے بلائے ہوئے لوگ اسے چھوڑ کے چھوٹیوں کے لئے سوال ڈال جاتے حالانکہ صائمہ ابھی بمشکل پچیس کی ہوئی تھی۔ کئی اور لوگ پوچھ رہے تھے بلکہ تیسرے نمبر والی رائمہ کی سہیلی کے والدین بیٹے کا رشتہ لانا چاہ رہے تھے لیکن ابو امی کے سامنے صائمہ سوالیہ نشان تھی اور ویسے بھی بہت پھونک پھونک کےقدم رکھ رہے تھے کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔

اسے لگتا ماں باپ بہن بھائی بھی بدل گئے ہیں مجھے تو بنا تحقیق کے پھینک دیا نائمہ، رائمہ کے لیے اتنے نخرے۔ وہ تپ کے سوچتی۔ یا پھر کہہ دیتی مجھے اب شادی ہی نہیں کرنی میرے اوپر فاتحہ پڑھ کے نائمہ، رائمہ کو دیکھیے۔ ہر وقت کمرے میں بند رہتی بہنیں دلداری کرتیں اسکے بگڑے موڈ سے خوف کھاتیں اور اپنی مرضی کو اسکی مرضی کے مطابق کر لیتیں۔ آنے والے رشتے جونہی چھوٹی بیٹیوں کا رخ کرتے انہیں منع کر دیا جاتا۔ ابو کی شرٹس کے کندھے لٹکنے لگے تھے۔ بی پی آسمان پہ ٹنگا رہتا۔ وہی گھر جہاں چہکاریں گونجتی تھیں اب سناٹا چھایا رہتا ہے۔امی ہول کے سوچتی ہیں ایسے کب تک چلے گا۔

پھر اسے سمجھاتیں ابھی بہنیں ہیں خیال کرتی ہیں کل الو وداع ہو جائیں گی گھر میں بھابھیاں ہوں گی وہ تمہیں برداشت نہیں کریں گی پھر پتہ نہیں ہم کب تک رہیں گے۔ کبھی کہتیں ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پہ گھر کون چھوڑتا ہے صائمہ چڑ جاتی۔ اس نے بھی ضد باندھ لی کسی دوہاجو سے نہیں کر سکتی مجھ میں کیا نقص ہے یا کون سا بچہ ہے جو میں کمپرومائز کروں۔ اسے لگتا جیسے دوسری شادی کے خواہشمند سے شادی کرنا لنڈا پہننے جیسا عمل ہو میں کیوں استعمال ہوا وا مرد اپنے لئے منتخب کروں۔پہلی شادی اسے خیال خیال جیسی یاد تھی اب۔ درمیان میں کوئی لطیف احساس نہیں تھا۔ وہ سوچتی اگر وہیں رہتی رہتی تو شائد اسے بدل لیتی۔ پھر سوچتی ہے اسے تو شائد بدل لیتی لیکن اسکے گھر والے کبھی نہیں بدل سکتی تھی۔

امی ابو کو ساری ساری رات نیند نہیں آتی۔ گھر میں ہر وقت ہاتھ سے نکل گئے اور ہاتھ نہ آنے والے رشتے زیر بحث رہتے ہیں۔ لگتا ہے دنیا میں سب سے بڑا کام ہی شادی کرنا ہے لیکن صائمہ کو شائد احساس نہیں کہ وقت بھاگ رہا ہے وہ اپنی ضد پہ اڑی ہے۔ بیچ میں اس نے کئی بار خود کو سمجھایا کہ کنوارے کو چھوڑ کے کسی بال بچوں کے بغیر والے سے رشتہ جوڑ لوں لیکن پھر ہچکچاہٹ آڑے آتی ہے۔ بہت سے لوگوں اور والدین کے سمجھانے کے بعد صائمہ چاہتی ہے کہ اگرکنوارا نہیں تو وہ کیسا اور کتنا کمپرومائزنگ رشتہ قبول کرے اس کی مدد کی جائے۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali