Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zaara Mazhar/
  4. Roshni Jaisi Larkiyan

Roshni Jaisi Larkiyan

روشنی جیسی لڑکیاں

کل دوپہر سوسائٹی کی چند خواتین کے ساتھ ایک نشست تھی۔ موضوع تو کچھ اور تھا لیکن نادانستگی میں حالیہ واقعہ کی طرف گھوم گیا منتخب موضوع پہ بات رہ گئی۔ سارہ انعام کے ایک جنونی کے ہاتھوں بہیمانہ قتل نے پڑھی لکھی بچیوں کی ماؤں کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔ بچیوں کی نمائندگی کے لئے ہمارے ساتھ کوئی ایک بھی بچی شامل نہیں تھی اس لئے انکے خیالات نہیں مل سکے۔

ہر ماں خوفزدہ اور سہمی ہوئی تھی کہ کیا مائیں بچیوں کو اس لئے پیدا کرتی ہیں، لاڈوں سے پالتی ہیں، انکی حفاظت کرتی ہیں اور انکو پڑھانے لکھانے کی تکلیف اٹھاتی ہیں تاکہ کسی بھی جنونی یا سائیکو کے پلے بندھ جائیں یا باندھ دی جائیں؟ ہم تو اب تک یہی سمجھتے آئے تھے کہ کم پڑھی لکھی لڑکیاں یا جاب لیس لڑکیاں مار کھاتی ہیں یا مار دی جاتی ہیں۔

بیٹیوں کو خودمختار بناؤ، انہیں آزادی دو لیکن سارہ انعام کے قتل نے یہ عقدہ بھی حل کر دیا کہ یہ سب کچھ کر کے بھی عورت کو دل بہلانے والی چیز ہی سمجھا جاتا ہے۔ عورت کو ازل سے کمزور صنف سمجھ کے برتا جا رہا ہے پتہ نہیں یہ وحشی اپنی کون سی مجرمانہ وحشت اتارنے کے لئے لڑکیوں کو شیشے میں اتار لیتے ہیں۔ بظاہر بنگلوں اور کوٹھیوں میں رہتی خوش باش خواتین نے جب تشویش میں مبتلا ہو کے اپنی ڈگری ہولڈرز بہنوں، بیٹیوں کے گھروں کے احوال سنائے تو پیروں تلے سے زمین ہی سرک گئی۔

ہر دوسری خاتون کے پاس سنانے کے لئے ایک آنکھوں دیکھا واقعہ تھا جسے سناتے اس کی آنکھوں میں نمی اتر رہی تھی۔ ہر عورت کے دل میں اپنی کسی نہ کسی عزیزہ کے حوالے سے کوئی ایسا گھاؤ تھا جس نے دلوں کو زخمی کر رکھا تھا۔ کم تعلیم یافتہ لڑکیوں کو ہم نے بہت رو لیا۔ غریب لڑکیوں کو بھی رو لیا اور مجبور لڑکیوں کے سسرال میں ظلم و ستم برداشت کرنے کو بھی رو لیا۔

یہ پڑھی لکھی لڑکیاں جو خودمختار ہوتی ہیں جن کا مستقبل روشن ہوتا ہے جو اپنا ہینڈسم اماؤنٹ کما رہی ہوتی ہیں جنہیں کسی نکھٹو کے پلے کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی وہ کیوں یہ بربریت برداشت کرتی ہیں، بھلا کیوں آوارگی کے بھید بھاؤ کھلتے ہی کنارہ نہیں کر لیتیں؟ انکی ماؤں نے یہ نہیں کہا ہوتا کہ ڈولی جا رہی ہے جنازہ واپس آئے۔ وہ روشنی جیسی جگمگاتی لڑکیاں کیوں پھونکوں سے بجھائی جا رہی ہیں اور پھر بھی لڑکیاں کیوں چپ چاپ کفن پہن رہی ہیں؟

اس کمینہ فطرت کے پاس لارے لپے اور سنہرے خوابوں کا کون سا ایسا رنگین جال ہے کہ لـڑکیاں اسی میں قید رہنا چاہتی ہیں کمینہ فطرت مرد کی کمینگی کی یہی سب سے بڑی نشانی ہے کہ وہ بیوی کو قید کر کے رکھنا چاہتا ہے۔ سب سے پہلے اسکی جاب چھڑوائے گا اس کے کہیں آنے جانے پہ پابندی لگائے گا پھر بھی مارپیٹ کرے گا۔ ان لڑکیوں پہ جنہیں کبھی والدین نے پھول کی چھڑی بھی نہ چھوائی ہو۔

ایاز امیر نے اپنے کل والے کالم میں یہی لکھا کہ انہیں سارہ سے ہمدردی تھی اور ہے اور یہ بھی کہ میرا بیٹا آوارہ اور بگڑا ہوا ہے جبکہ سارہ کے دوستوں نے یہی کہا کہ وہ ایک ہمدرد اور خوبصورت دل کی مالکہ تھی۔ کس بے دردی سے قتل کر دی گئی صرف اس لئے کہ اس کا دل خوبصورت تھا اس نے اس خوبصورت دل کے ساتھ ایک بھیڑیے کو سدھارنے کا عزم کیا تھا لیکن اپنی فطرت کے بموجب بھیڑیا اسے بھی نگل گیا۔

یہ اسلام آباد بلکہ کسی بھی علاقے میں اکیلے گھروں میں رہنے والے ماں باپ کے ہاتھوں سے نکلے ہوئے خود مختار لڑکے بھلا کبھی قابل بھروسہ ہو سکتے ہیں انہیں کون سدھارے گا؟ بظاہر ایاز امیر کی سٹیٹمنٹ بیٹے کے خلاف ہے لیکن بیٹا کتنا بھی آوارہ اور لفنگا ہو ان کا خون اپنے خون کے لئے ہی جوش مارے گا ذرا معاملہ ٹھنڈا ہونے دیجیے۔ لوگوں کا غم و غصہ کم ہونے دیجیے دیکھیے گا باپ بیٹے کو سزا نہیں ہونے دے گا۔

عدلیہ کو چاہئے طویل پراسیکیوشن کی بجائے اسے فوری سزا دے تاکہ ان جیسے غنڈوں کو سبق ملے۔ قتل کے بعد دو چار پھانسیاں ملزم دفنانے سے پہلے ہی دے دی جائیں وہ بھی بڑے لوگوں کی اکلوتی بگڑی اولاد کو تو آئیندہ ہونے والے حادثات سے بچنے کی پیش بندی ہو سکتی ہے۔ یہ بگڑے ہوئے رئیس زادے جب ایسی حرکتیں کرتے ہیں تو انکے ماں باپ کے دل بھی ایاز امیر کی طرح سہم جاتے ہوں گے بھلا؟ کہ کہیں ان کا بیٹا بھی اندر کھاتے کسی ایسی غنڈہ گردی اور آوارگی میں مبتلا نہ ہو۔

کل کو ایسا ہی کچھ کر ڈالے گھبرا کے اسے کسی کمزور کھونٹے سے باندھنے کی سوچنے لگتے ہیں اور یہ بگڑے ہوئے عیاش وہ کھونٹا ہی اکھیڑ ڈالتے ہیں۔ ہر والدین کو اپنے بیٹے کے کرتوتوں کے بارے میں علم ہوتا ہے جیسا کہ ایاز امیر کو بھی تھا پھر بھی ماں باپ اپنے بگڑوں کو سدھارنے کے لئے زندہ اور جیتی جاگتی لڑکیاں ہانک لاتے ہیں مجھے معلوم ہے کہ یہ لڑکی شاہنواز امیر نے خود پھنسائی لیکن باپ کو معلوم تھا جس کا انہوں نے اقرار بھی کیا۔

کیا وہ اسے بچانے کی کوشش نہیں کر سکتے تھے بیٹے کی سرگرمیوں پر نظر رکھ کے اس سے بازپرس کرتے رہتے۔ کب تک لڑکیوں کو اس بگڑی ہوئی مخلوق کو سدھارنے کے لئے چارے کے طور پہ استعمال کیا جائے گا آخر کب تک؟ باپوں کو سنبھلنا ہو گا باپ کا کردار بیٹے کی آئندہ زندگی کے لئے مشعل راہ ہوتا ہے۔

Check Also

Hojamalo

By Rao Manzar Hayat