Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zaara Mazhar/
  4. Resham Tai

Resham Tai

ریشم تائی

اے نوج۔ اے بی بی ذرا یہ تو بتلاؤ کیا تم بھی وہ موا کیا کیا کہتے ہیں اسے؟ ائے ہاں ایف بی۔ کیا تم بھی ایف بی پر سارا دن گِٹ پِٹ کرتی ہو؟ تائی نے ہمیں پرانے ماڈل کے بچوں کی بخشیش لیپ ٹاپ پر انگلیاں پھراتے دیکھ کر (ہم ایک ضروری میل فوری سینڈ کرنا چاہتے تھے ڈیڈ لائین اوور ہونے میں چند ہی منٹ رہتے تھے) دیسی گھی سی چپچپاتی زبان ہونٹوں پر پِھراتے ہوئے پوچھا ہم آ لو کا تیسرا پراٹھا کاؤنٹر پر رکھ چکے تھے جب تائی نے بس کا اشارہ کیا تھا۔

ہم نے بچھو سے ڈنگ کھائے درد سے سوالیہ نظریں اٹھائیں۔ یہ غیر مردوں سے ہنسی ٹھٹھول، گپ شپ انہوں نے مزید گھٹیا وضاحت دی یہ موا شوشل میڈیا کہتے ہیں جسے مجھے تو چھتیس نمبر والی شبنم نے کل بتایا ہے۔ اچھا اور کیا بتایا شبنم نے؟ ہم نے کڑے ضبط سے ان کے مدعا کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا۔ شبنم دو گلیاں چھوڑ کر 36B میں رہتی ہے ہماری نئی بننے والی ہم مزاج و ہم عمرسہیلی۔

میاں کا شارجہ میں کہیں بزنس ہے۔ ایک چھوٹی بیگم اور بچوں کے ساتھ وہیں رہتے ہیں فیملی سے ملنے اور شاپنگ کے نام پر مہینے دو میں یہ بھی چکر لگا آ تی ہے ورنہ خوبصورت گلابوں والے سفید بنگلے میں بند، سر پیر سے اتارے شیشہ پیتی رہتی ہے اور کتب بینی کی انتہائی دلدادہ و شوقین ہے گھر کو رفتہ رفتہ لائبریری بناتی جا رہی ہے۔

کھلا پیسہ ہو تو ایسے کھیل کھل کر کھیلنا چاہئیں، اکثر گھر میں ادبی محافل اور مشاعرے رونق میلے کے لئے کرتی رہتی ہے۔ ہمیں بھی کئی بار دعوت دے چکی لیکن ہم ابھی اتنی فرصت نہیں پاتے بلکہ سچ پوچھئے تو محفلوں سے بھاگتے ہیں۔ تائی شاید اس سوسائٹی کی جگت تائی ہیں۔ یوں تو ہم ہر کسی کے ساتھ رشتے نہیں بناتے اور خصوصاً بڑے رشتے (کسی غیر کو چچا یا تائی، خالہ کہنا) تو بالکل بھی نہیں چاہے امی کی عمر میں خواتین ہوں یا ابا سے بڑے بزرگ ہوں۔

سر اور محترم و محترمہ کہہ کر کام چلا لیتے ہیں۔ باامرِ دیگر ہمیں تمام دنیا ہی خود سے چھوٹی لگتی ہے۔ ہم تو کبھی ازل میں پیدا ہوئے تھے اور عمرِ خضر لکھوا لائے۔ نہ کبھی بچّے تھے نہ کبھی جوانی آ ئی بس صدیوں کے بوڑھے ہیں۔ لیکن تائی ریشم کو پہلی بار شبنم کے ہاں ہی کھانے کی میز پر دیکھا تھا واقعی اسمِ بامسّمی لگیں۔ شبنم نے تائی ریشم کہہ کر تعارف کروایا اور ہم نے بھی کھٹ سے تائی کی مسند پر بٹھا دیا۔

کیونکہ تائی بنی بنائی مجّسم تائی ہیں جس نے پہلی بار انہیں تائی پکارا ہوگا بڑا ہی کوئی سمجھ دار ہوگا۔ بھاری لیکن متناسب جسامت کے ساتھ چھ فٹ کو چھوتا ہوا قد۔ سفید ریشم کے لچھے جیسے بالوں کا پیاز کی گانٹھ جیسا جُوڑا، سفیدی آ میز کپڑے، گریبان کی پٹی پہ سونے کے جگمگاتے بھاری بٹن، چارموم کا جھاگ سا دوپٹہ، سفید قیمتی موتیوں کی مالا، Liza کے سینڈل، ہاتھی دانت کی مٹھ والی چھڑی، دبنگ لہجہ اور ان سب کا مجموعہ تائی ریشم۔

اکلوتی بہو سے نالاں رہتی ہیں اور گھر والوں کو بھرم دکھانے کے چکر میں کہ میں کسی پہ بوجھ نہیں اپنے کھانے پینے کا بار تیرے میرے پہ ڈالے رکھتی ہیں گھر والے شرمندہ ہوتے ہیں پر جو نہ سمجھے اسے کون سمجھائے؟ ای میل سینڈ ہوگئی ہم نے لیپ ٹاپ پرے کھسکایا۔ اس دوران ہماری ایک ایک جنبش تائی کی کنجی آ نکھوں میں رَڑک رہی تھی۔

کچھ پوچھا ہے تم سے؟ انہوں نے ہمارے تَجَّنب کو بارِ خاطر سمجھا اور تیکھی چتون سے گویا ہوئیں کسی سخت گیر بزرگ سا کڑا لہجہ اختیار کیا۔ سچ پوچھئے تو سخت تکلیف ہوئی۔ فیس بک استعمال کا اتنا گھٹیا مطلب بھی لیتے ہیں لوگ۔ دل میں ٹیس اٹھی۔ نہیں تائی ہم کسی اجنبی سے گپ شپ نہیں لگاتے نہ کبھی کوئی ایسی کال ریسیو کرتے ہیں۔ راہ فرار نہ پاتے ہوئے آسانی کے لئے سمجھایا۔

اچھا۔ انداز بدستور مشکوک ہی تھا۔ میں نے تو سنا ہے شوشل میڈیا پہ دور دور بیٹھے لوگ آ زادانہ محفلیں سجاتے ہیں اور گپ شپ لگاتے ہیں۔ شاید ایسا ہو۔ لیکن ہم ایسا نہیں سمجھتے۔ سوشل میڈیا تو پانی جیسی ساخت رکھتا ہے جس برتن میں ڈالو وہی شکل اختیار کر لیتا ہے اس کا استعمال بھی پانی کی طرح آ پ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ اپنی اپنی سمجھ کی بات ہے۔

ہم سوشل میڈیا رائیٹر ہیں یہ ہمارے کام کی جگہ ہے تو کام کے سلسلے میں بہت سے لوگوں سے آن لائین بات بھی ہوتی اور آن لائین ہی ملاقات بھی ہوتی ہے اس میں کوئی برائی تو نہیں ہے؟ خواتین نے اپنے الگ گروپ بھی بنا رکھے ہیں جہاں دنیا بھر کی جہاندیدہ اور نئی نسل کی خواتین اکٹھا ہیں ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھتی سکھاتی ہیں۔ مخلوط گروپس بھی ہیں جو سیکھ کا بہترین ذریعہ ہیں۔

آخر جب ہم گھر سے باہر نکلتے ہیں یا خریداری کرنے جاتے ہیں تو دکانداروں سے بھی بھاؤ تاؤ کرتے ہیں اور وہ سب حقیقت میں آنکھوں کے سامنے مجسم ہوتا ہے آن لائین تو پھر تاروں پہ رابطہ ہے۔ ہم نے پھانس گڑے دل سے بہت کچھ سوچتے ہوئے آ سان وضاحت پیش کی۔ تائی ریشم جگت تائی تھیں اور ہمیں نئی جگہ پر اپنی اخلاقیات کا اشتہار نہیں لگوانا تھا۔

تائی نے بے یقینی سے ہمیں نظروں میں تولا۔ اور پتہ نہیں کیا کچھ سوچتے ہوئے بیرونی دروازے سے باہر نکل گئیں؟ تائی نے سوال کیا تھا انہیں تو سمجھا دیا۔ جو لوگ بنا پوچھے ہی رائے بنا لیتے ہیں ان کا کیا کیا جائے؟

(ہر قصہ، ہر تحریر ہماری ذاتی داستان نہیں ہوتی بس کبھی بڑھا بھی لیتے ہیں زیبِ داستاں کے لئے۔)

Check Also

PTI Ka PAC Ki Sarbarahi Ke Sath Maskhara Pan

By Nusrat Javed