Rehmat e Rabbi (2)
رحمّتِ رَبّی(2)

اور پھر سب کو اداس چھوڑ کر ہاسٹل چلی گئی پورا گھر سائیں سائیں کرتا رہتا نہ گھنٹیاں بجتیں نہ دروازے کھلتے نہ گول گپوں کی فرمائش نہ چاٹ نہ آ ئس کریم، چاکلیٹ کے ریپر دِکھتے بیٹے تو پہلے ہی جا چکے تھے ہم دونوں سادہ سا کھانا کھاتے اور بس کام ہی ختم ہو گئے سارے نہ کہیں کتابیں بکھری نظر آ تیں نہ جلدی میں ادھر ادھر ڈالے کپڑے سارے کام ہی ختم ہو گئےمیں بوریت کا شکار رہنے لگی تو اسی نے توجہ دِلائی مام اپ جِم جائین کر لیں کلب جایا کریں کِٹی پارٹیز کیا کریں ایف بی پہ اکاؤنٹ بنائیں اس طرح تو آ پ ڈل ہو جائیں گی۔ آ پ میں بہت ٹیلنٹ ہے اسے ضائع نہ کریں اور سب سے بڑی بات آ پ ایک کوئین کی مدر بننے جا رہی ہیں تو مدر کوئین تو لگنا چاہیئے ناں۔
وہ شرارت سے ایک آنکھ میچ کر ہنستی۔ واقعی ایک پیدائشی نبّاض ہے میں سوچتی کیسے منٹوں میں حل سامنے رکھ دیتی ہے۔ ہاسٹل سے آ تی تو جیسے زندگی جاگ جاتی ہنگامے، فرمائشی پروگرام، سہیلیوں کا تانتا، ڈریسنگ ٹیبل کی شامت سب سے زیادہ آ تی سب مل کے ایک دوسری کو تیار کرتیں، سیلفیاں لیتیں اور جاتے سمے وہ ساری سیلفیاں میری گیلری میں ڈالتی اور میک اپ کی چیزیں اپنے سفری بیگ میں بوقتِ ضرورت مجھے بڑی کوفت ہوتی فون کھڑکاتی مسکارا کہاں پھینک گئی ہو لائنر نہیں مل رہا، پنک لپ اسٹک کا لائیٹ والا شیڈ کدھر گیا مام وہ تو میں لے آ ئی آ پ اور لے آ ئیں ناں میں کب سے یہ شیڈ لینا چاہ رہی تھی ٹائم نہیں مل رہا تھا ویسے بھی لینے جاتی تو کافی ہرج ہوتا پڑھائی کا اور میں قائل ہو جاتی کہ ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہے اوپر سے بدستور ناراض رہتی۔
اب کے ویک اینڈ پہ آ ئی تو گھر میں پھیلی کشمکش کو فوراً بھانپ گئی جھجکتے ہوئے بولی مما آ پ میں ایک خامی ہے آ پ وقت کے حساب سے نہیں چلتیں اور میں جو پہلے ہی کچھ غیر معمولی سے احساسات کے تحت دل پہ بوجھ لیۓ بیٹھی تھی بہت برا لگا مجھے میں خاموش سی ہو گئی اور خود احتسابی کے بوجھ تلے بے دلی سے اٹھ گئی اس نے محسوس کر لیا میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیکر نادم سی بیٹھی سوری کرتی رہی مگر میرا احساس جگا چکی تھی، رحمتِ حق بہانہ جویَد، میں نے دل سوچا۔ مجھے اکثر بزرگوں سے شکایت رہتی تھی کہ بات کو سمجھتے ہی نہیں ہر بات میں مین میخ نکالتے ہیں میں جلتے کُڑھتے سوچتی مگر اسکے احساس دلانے پہ پتہ چلا کہ ہم اپنے بزرگوں سے بات ہی نہیں کرتے نہ انکے پاس بیٹھتے ہیں نہ وقت دیتے ہیں۔
انہیں ریٹائر سمجھ کر کوئی بات شیئر ہی نہیں کرتے وہ ہماری بات کیسے سمجھیں گے بلکہ جب بھی کوئی مسئلہ ہوتا میں اسے بند دروازے کے پیچھے حل کرنے کی کوشش کرتی ایسے ہی ایک دن ابا جی کی شکایت کر رہی تھی اس سے کہ ذرا سا کمپرومائز نہیں کرتے نہ بات سمجھتے ہیں۔ اب وہ بیٹی کم اور دوست زیادہ لگتی تھی مما آ پ ددّا کے ساتھ کچھ ٹائم گزارا کریں تو انہیں آ پکی بات سمجھنے میں آ سانی ہوگی اس نے بڑے رسان سے بات کی وہ الگ کمرے میں پڑے رہتے ہیں۔ وقت کی ضرورت کو دیکھنا ہوتا ہے ناں اس نے میری جھنجھلاہٹ کو محسوس کر لیا اسی لیئے بڑے معتدل لہجے میں بولی آ پ انکے ساتھ یا انکے سامنے تبادلۂ خیالات کریں گی تو وہ بھی آ پکی بات آ سانی سے سمجھیں گے۔
انہیں ہر طرح کے فیصلوں میں شامل کیا کریں مرضی تو آ پ ہی کی چلے گی بس انکے سامنے آ پ اور بابا بات ڈسکس کر لیا کریں تو معاملہ انکے بھی علم رہے گا اور فیصلے کو انکی تائید بھی مل جایا کرے گی انہیں اپنی اہمیت کا احساس رہے گامگر وہ تو ہر بات میں مین میخ ہی نکالتے ہیں میں نے نِروٹھے پن سے حواب دیا اگر آ پ انکے سامنے بیٹھ کر بات کریں گی تو آ پکے خیالات اور وضاحت ان تک خود ہی پہنچ جائے گی اور جب وہ معاملے سے شروع سے آ گاہ ہوں گے تو انکی مرضی لازماً آ پکی مرضی شامل ہو جائے گی اف کتنی سامنے کی بات تھی میں نے کبھی غور ہی نہیں کیا ددّا سارا دن آ پکی مصروفیت میں ذرا سی فرصت تلاشتے رہتے ہیں کہ کب آ پ فارغ ہوں اور کب ان سے بات کریں بیٹی کی نرم، مہربان آ واز پھر سنائی دی۔
ابا جی کی وہی زمیں داروں والی سوچ تھی میں نے بڑی مشکل سے زمینیں بنائی ہیں بچوں نے ایک مرلہ بھی شامل نہیں کیا وہ اونچا اونچا بول رہے تھے اگر آ ج بانٹ دوں تو سب بیچ باچ کھا جائیں۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ ہمیں زمینوں میں اضافے کی ضرورت ہے نہ فرصت جاب ہے، بچوں کی ذمہ داریاں ہیں کاشتکاری کے رولے کون دیکھے گا ہنہ میں اکتا کر بڑبڑائی مگر دل کی بات ان سے کبھی نہیں کی لیلیٰ نے احساس دلوایا تو سمجھ آ ئی کہ یہ بات کبھی ابا جی کے پاس بیٹھ کر سہولت سے بتائی ہی نہیں بلکہ میں تو پہلے دن سے ہی کترائی کترائی رہتی تھی۔ مجازی خدا اپنے بکھیڑوں میں مصروف رہتے مگر میرے پاس کافی وقت ہوتا تھا بالجبر ہی سہی تھوڑا تھوڑا ابا جی کے پاس بیٹھنے لگی تو شادی کے اتنے سالوں بعد عقدہ کھلا کہ ابا جی جو اپنی سخت مزاجی کے لئیے پورے خاندان میں مشہور تھے اندر سے بالکل بادام اور اخروٹ کی مانند نرم تھے۔
رفتہ رفتہ اندازہ ہونے لگا کہ زندگی کوئی بہت آ سان نہیں تھی انکے لئیے بڑی تگ و دو کے ساتھ بچوں کو پڑھایا تھا اور ساتھ ساتھ بچت کر کے زمینوں کے ٹکڑے بھی خریدتے رہے تھے۔ ریٹائرمنٹ تک بچوں کے فرائض سے سبک دوش ہو چکے تھے انکی سوچ کا اپنا ایک انداز تھا انہیں واقعی بہت پیار تھا اپنی زمینوں سے جنکو انہوں نے اپنی بہت سی ضروریات اور تعیّشات کی قربانی دے کر خریدا تھا بعینہِ ایسے جیسے میں نے اپنا گھر اور اسکی آ رائش اپنی مرضی سے کی تھی کوئی ڈیکوریشن پیس کہاں سے خریدا تھا کوئی کہاں سے، لیگج اور احتیاط کے سو بکھیڑے اور وسوسے سہے تھے کن دقتّوں سے پردے بنے تھے۔ کچھ آ رائشی اشیاء ملتان اور سرگودھا سے آ ئیں تھیں۔
انکا ٹرانسفر ہوتا رہتا تھا تو ہر شہر کی خاص سوغاتیں میرے پاس جمع تھیں اور بڑی احتیاط کے ساتھ سنبھال کر رکھا کرتی تھی۔ کبھی سالانہ صفائی کے دوران چیزیں کُھلتیں تو ان کے ساتھ وابستہ ساری جِزیات بھی یاد آ جاتیں واقعی چیزوں کی وقعت نہیں ہوتی انکے ساتھ جڑی یادوں کی اہمیت ہوتی ہے۔ چیزیں دھیان میں آ ئیں تو وہ یادیں بھی در آ تی ہیں اور وہ یادیں پرانی ہو کر سنہری رنگت اختیار کر جاتی ہیں جو آ نکھوں میں جُگنو اور دل میں گداز بھر دیتی ہیں کتنے ہی نرم گرم لمحے گرفت میں آ تے ہیں اور اگر ہمارے دامن لمحوں کی جکڑن سے آ زاد ہو جائیں تو باقی کیا رہ جائے زندگی میں۔
ہمیں تو سب کچھ بنا بنایا مل گیا تھا اور ہم نے اپنی زندگی بغیر کسی جدوجہد کے بڑے ٹھاٹ کے ساتھ شروع کی تھی۔ بنیادوں میں کتنا خون اور پسینہ ڈلا تھا کبھی سوچنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ اب اندازہ ہوا کہ ابا جی بھاگ بھاگ کر گاؤں کیوں جاتے ہیں اور سکت نہ ہونے کے باوجود پوری زمینوں کے چکر کیوں لگاتے ہیں اپنی یادیں ہی تو تازہ کرتے ہوں گے ورنہ زمین تو وہی ہے جس پہ انکی ملکیت مسلّم ہےمیں نے جس دن اس نقطے کو پا لیا زندگی بہت آ سان ہو گئی اب ان کے اور میرے بیچ باپ بیٹی والا رشتہ قائم ہو چکا ہے یہ نہیں کہ ابا جی یکسر موم ہو گئے ہیں یا بدل گئے ہیں میں نے سمجھوتہ کر لیا ہے میرے اپنے ابا بھی تو یونہی غصے میں آ جایا کرتے ہیں تب تو مجھے انکی عمر کا تقاضا لگتا ہے تو یہاں بھی یہی رعایت میں سوچ لیتی ہوں یوں گھر کی کتنی بڑی ضروریات ابا جی از خود اپنے ذمہ سمجھتے ہیں کالج کی سالانہ فیس بھرنی ہو یا ہاسٹل ڈیوز ہمیں فکر نہیں ہوتی۔
مضمون لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ آ پ سب کے پاس بھی یقیناً ایسی رحمت اسی صورت میں موجود ہو گی۔ نعمتوں کا شکر ادا کیجیے اور رحمتوں کے لئیے دل و دامن کشادہ رکھئیے رحمت کا حساب نہیں نعمت کا حساب دینا ہوگا کسی جگہ پڑھا تھا۔ جیسا کہ شروع میں لکھا تھا شاید اسکا اس دنیا میں آ نا بہت ضروری تھا میں جو اپنی پختہ سوچ کو واقعی میں اہمیت دیا کرتی تھی اسے میری پیدا کی ہوئی بیٹی نے نا محسوس طریق پر بدل دیا اسی لیئے یہ رحمت مجھے بہت عزیز ہو گئی ہے میں نے ابھی بھی تصّور میں بڑے تفّاخر سے اپنی بیٹی کو سوچا مجھے اسکی چمکیلی آ نکھوں میں دنیا کو فتح کر لینے کا عزم جھانکتا نظر آ تا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ میری دنیا شاید اسی کے لئیے تخلیق کی گئی ہے میرے مولا تو کتنا غفور الرحیم ہے تو بہتر سمجھتا ہے کہ انسان کے لئیے کیا بہتر ہے شکر گزاری کے احساس سے میری آ نکھیں بھیگنے لگیں پتہ نہیں کب میری آنکھوں سے آ نسو بہنے لگے روانی نے احساس دلایا کہ کافی دیر سے رو رہی تھی۔

