Rehmat e Rabbi (1)
رحمّتِ رَبّی(1)

مام دیکھیں آ پ کے شوز مجھے بالکل پورے ہیں کبھی کبھی پہن لیا کروں لاڈلی بیٹی نے گلے میں بانہیں اور پیروں میں جوتے ڈالتے ہوئے پوچھا۔ میں نے اسکے بے تحاشہ خوبصورت معصوم چہرے پر نظر ڈالی اور لگ جانے کے ڈر سے فوراً ہٹا لی ہاں جانی بس کبھی کبھار میں نے ہنستے ہوئے کہا آ جکل کے بچوں کے پاؤں کتنی جلدی بڑے ہو جاتے ہیں ناں میں نے اپنے دل سے تائید چاہی اور دل تو جیسے منتظر ہی بیٹھا تھا خواہ مخواہ ہی اسکی پیدائش سے لیکر آ ج تک کے واقعات ریل کی مانند چلنے لگے۔ شائد دماغ کو بہت فرصت تھی۔ کیا ضرورت ہے ایک بچہ اور پیدا کرنے کی۔ ہم دونوں میں اکثر جھگڑا ہو جاتا میں بہت چڑ چڑاہٹ پن سے کہتی اور بچہ نہیں چاہیے مجھے۔
مگر شاید اسکا اس دنیا میں آ نا بہت ضروری تھا میرا دل زمانۂ حال میں تال میل ملانے لگا پورا پریڈ انتہائی غصے میں گزارامجھے نہیں چاہئیے پہلے ہی دو بچے ہیں فیملی کمپلیٹ ہے دل میں دو بیٹوں کا غرور بھی تھا کہ بیٹوں کے بعد سسرال میں بڑی پذیرائی ہوتی تھی شاید دل میں ڈر تھا کہ اب کے بیٹی نہ ہو جائے۔ مگر ہونی کو کون روک سکا ہے مجازی خدا راضی برضا تھے میرے ناز اٹھائے جاتے میں احتجاجاً سارا سارا دن بھوکی رہتی فولک ایسڈ اور کیلشیم سب اٹھا کر پھینک دیتی سوچتی شاید اسطرح جان چھوٹ جائے گی۔ چچا کی بہو کا ابارشن ہو گیا میں نے تعزیتاً پوچھا یار دو اسٹیپ چڑھ گئی تھی وہ رُندھی ہوئی افسردگی سے بولی میں نے بات ذہن میں رکھ لی خوب اونچی اونچی چھلانگیں لگاتی۔
دن میں دس بار سیڑھیاں اترتی چڑھتی مگر کچھ نہ ہوا البتہ دن پورے ہو گئے وقت پہ بہت غصے سے ہسپتال گئی بڑی صحت مند بچی تھی گڑیا کی مانند غنودگی میں ڈاکٹر کی آ واز سنی نرس سے کہہ رہی تھی اتنے خوبصورت بےبی کم دیکھے ہیں مگر میں سمجھی میری غیر دلچسپی دیکھ کر دل رکھ رہی ہے نظر تک نہیں ڈالی مجھے سارا قصور گڑیا اور اسکے باپ کا لگتا رہا اگر وقت پہ کچھ کر لیتے تو تین پہاڑ جیسے برسوں کے لئیے پھر باؤنڈ ہو گئی ہوں۔ اللہ پریپ کا سلیبس پھر سے پڑھانا پڑے گا شدید کوفت سے سوچا۔ گھر آ کر دونوں بچوں کے کاموں میں جُت گئی اگرچہ امی انکے پاس تھیں مگر بچوں کو ایک دفعہ نہلا دھلا کر خود کو فارغ سمجھ رہی تھیں۔
گھر آ تے آ تے شام ہو گئی تھی بچوں کے کپڑے کچھ مسلے ہوئے لگ رہے تھے میں نے وارڈروب کھول لی آ رام سے بیٹھ جاؤ امی ڈانٹنے لگیں کچھ نہیں ہوا بچوں کو صاف ستھرے ہیں۔ تم اب آ رام کرو مگر میں خاموشی سے لگی رہی گڑیا کے رونے کی آ واز سنی تو دل میں ذمہ داری کا بوجھ بڑھ گیا۔ مجھ سے چھوٹی مدیحہ بھائی جان کے ساتھ دیکھنے آ ئی تو لپک کر اٹھا لیا اللہ بجّوکتنی خوبصورت ہے بالکل گڑیا سی ماتھے پر سنہرے بالوں کا گھونگھر تو دیکھیں مجھے بہن کے بہلانے پہ پیار آ گیا کہ ساری پریگینینسی کے دوران اسکے کان کھاتی رہی تھی ان وانٹیڈ بےبی کہہ کہہ کردو بچوں کی ذمہ داریوں میں پہلے ہی پھنسی ہوئی تھی جھنجھلائی سی رہنے لگی۔
مارے باندھے اسکے کام کر لیتی مانو میرے اوپر فرض ہی نہیں اللہ نے گڑیا میں کچھ ایسا صبر رکھا تھا کہ گھنٹوں نہ دیکھتی تو بھی پڑی رہتی البتہ طبیعت میں نفاست کے سبب اسکے بھی سارے کام ہو جاتے اب کچھ مہینوں کی ہو رہی تھی دونوں بیٹوں کے لئیے الّم غلّم بناتی اور کھلاتی رہتی اور اسے یکسر بھول جاتی کبھی کبھار تو مجازی خدا کا صبر بھی جواب دے جاتاایک دن بچوں کو ہاف بوائل انڈے کِھلا رہی تھی لاؤ اپنی گڑیا کو آ ج ہم کِھلاتے ہیں۔ مگر اسکے لئیے تو بوائل ہی نہیں کیا تھا کہاں سے لاتی تب وہ کندھوں سے پکڑ کر چیخ پڑے تم اسے گھر کا فرد کب سمجھنا شروع کرو گی بری طرح سے شرمندگی ہوئی کمی تو نہیں تھی بس دھیان میں نہیں رہتا تھا۔ شاید دونوں بیٹے ڈیڑھ سال کے فرق سے آ گئے تھے تو زیادہ ہی پھنس گئی تھی میں نے پھر خود کو رعایت دی۔
لیلیٰ کچھ مہینوں کی ہوئی تو آ تے جاتوں کی توجہ کھینچنے لگی۔ اچھا مدیحہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں کہتی تھی میں نے بہن کو سوچا بس یونہی الجھتے سلجھتے سال بھر کی ہو گئی۔ قدم لینے لگی توتلا سا بولتی انوکھی انوکھی شرارتیں کرتی جو بیٹوں نے کبھی نہ کی تھیں گود میں چھپ کر ہا ئیڈ اینڈ سیک کھیلتی چمکتا رنگ روپ اور سنہرے کرلی بال شانوں پہ پڑے رہتےدل میں کب جگہ بنا گئی پتا ہی نہیں چلا چھوٹے چھوٹے دوپٹے اوڑھ لیتی لمبے گھونگھر والے بالوں میں عین درمیان میں ماتھے پہ چٹکی والی پِنیں لٹکا لیتی جو ماتھے پہ جھولتی رہتیں مگر گِرتی نہیں اور جب اُلٹی چپلیں پہن کر چلتی تو کائنات کی ساری خوبصورتی اس ننھے سے وجود میں سما جاتی باقی سارے منظر۔
پسِ منظر میں چلے جاتے تب میری ساری لاپروائی پر محبت غالب آ نے لگتی میں بے ساختہ گود میں بھر لیتی چٹاخ پٹاخ کر کے سنہرے گال گلال کر دیتی سرتاج کنکھیوں سے دیکھتے اور مسکرائے جاتے کچھ وقت بڑھا تو اسکول جانے لگی بے مثال خوبصورتی کی وجہ سے نمایاں نظر آ تی یا شاید میری ممتا اسکی محبت سے معمور ہوچکی تھی سب بچوں سے الگ دِکھ رہی ہوتی خدا داد ذہانت سے ٹیچرز کے دلوں میں گھر کر گئی کوئی پروگرام اسکی شمولیت کے بغیر ترتیب نہ پاتا اسپورٹس ڈے، سالانہ تہوار یا کسی بھی موقع پر مہمانِ خصوصی کو گلدستہ وہی پیش کرتی سوہنی، سسی، ماروی، ہیر کیا کیا سوانگ نہیں بھرے اور ہر گیٹ اپ میں نگینے کی طرح فٹ محسوس ہوتی۔
سندھی، بلوچی، پنجابی حتیٰ کہ جولیٹ، سینڈریلا اور لیڈی ڈیانا کے روپ میں بھی اصل سے بڑھ کر لگی یا شاید میری محبت مجھے ایسا دکھاتی اب میں بیٹوں کے کام اور ضروریات بھول جاتی دیکھتے ہی دیکھتے میرے شانوں تک آ نے لگی میرے سارے دوپٹوں کی شامت آ ئی رہتی میں گھر میں موجود نہ ہوتی تو سارے جوتے نکال لیتی اور لائن سے لگا کر باری باری پہنتی مما میں ٹَک ٹَک والے جوتے کب پہنوں گی۔ عائشہ مریم فریال ماہم سب پہنتی ہیں وہ اشتیاق سے بتاتی مگر مجھے بچیوں پہ ہیل والے جوتے کبھی پسند نہیں تھے سو لیکر ہی نہ دیتی اور نتیجے میں وہ موقعہ پاتے ہی میرے جوتوں پہ اپنے شوق پورے کرتی ہائی ہیل کے جوتے درمیان سے بیٹھ جاتے ہیں میں اسکی ناک غصے سے دبا دیتی وہ بسور کر رہ جاتی۔
جونئیر سیکشن سے اوورآل پوزیشن لیکر پاس آ ؤٹ ہوئی تو پرنسپل نے اسے اپنے اسکول کا فخر قرار دیااور میں اپنا مان اور استحقاق چہرے پہ سجائے مبارک بادیں وصول کرتی رہی امی کی طبیعت میں کافی تیزی تھی گھر میں بھتیجا بھتیجی کی شرارتوں سے تنگ رہتیں مگر لیلیٰ رانی تو جب بھی جاتی خوب لاڈ اٹھاتیں مجھے کہتیں بہت ٹھنڈے اور دھیمے مزاج کی ہے لیلیٰ اسکا مزاج مجھ پہ پڑا ہے گھّٹی جو میں نے دی تھی میں اور بھابھی بے ساختہ ہنس پڑتے۔ میں گرمی کی لمبی، امسائی دوپہروں میں گھٹن سے گھبرا کر لیٹ جاتی تو اٹھنے پر پورا کچن صاف ستھرا ملتا تب بے ساختہ پیار آ جاتا میں تجاہلِ عارفانہ سے کام لیتی اور پوچھتی جانی کچن کون سمیٹ گیا وہ دھیمے دھیمے مسکاتی اور بولتی پتہ نہیں مام شاید کوئی پری، کوئی سینڈریلا آ ئی تھی سب کر گئی میں سرشار سی گلے سے لگا لیتی۔
اب گھر میں اسکی سہیلیوں کا میلہ لگا رہتا کبھی مل کر خوب پڑھتیں کبھی خوب اودھم مچاتیں پھّرا مار کر آ م کے درخت پر لگے جھولوں پر چڑیاؤں کی طرح جھولتیں لان میں سنہری کلابتو جیسے امڈتے قہقہے دریچوں سے لپٹ جاتے تتلیوں کی طرح پھولوں پر منڈلاتی رہتیں۔ وہاں سے اٹھتیں تو پوری کالونی میں رنگ برنگی سائکلیں دوڑاتیں پھرتیں کبھی ماہم کے گھر کبھی فریال کے کبھی کسی تیسری کے گھرایک دفعہ امی آ ئیں تو گرمی کی چھٹیاں تھیں کہنے لگیں سب بچے ننھیال جاتے ہیں اب کےلیلیٰ میرے ساتھ جائے گی مجھے پتہ تھا سرتاج پسند نہیں کریں گے مگر امی کے اصرار پر بھیج دیا اف تب پتہ چلا وہ تو ہمارے گھر کی بولتی چڑیا تھی چہکتی رہتی تھی اڑتی خوشبو تھی تو مہکتی رہتی تھی زندگی کا احساس اسکے دم سے تھا ہر دم ہنگامہ مچائے رکھتی چوتھے روز یہ امی کی ناراضگی کے باوجود جا کر لے آ ئےکہ سونا گھر کاٹنے کو دوڑ رہا ہے میں سوچتی خدایا یہ وہی بچی ہے جسکے پیدا ہونے پہ میں ناخوش تھی مگر اللہ کتنا مہربان ہے کہ اسنے میرے دامن میں اپنی رحمت بھر دی۔
دن چٹکیوں میں اڑے اتنے ماہ و سال اتنی جلدی گزر گئے میں نے اسکی فرنچ ٹیل باندھتے ہوئے سوچا قد کاٹھ میں میرے برابر ہو رہی تھی میٹرک کے پیپرز دے کر فارغ ہوئی تو میرا خیال تھا اسکے لئیے ڈاکٹری بہترین لائن ہے اور وہ بابا کی طرح انجئنرنگ کرنا چاہتی تھی مگر میری شدید خواہش کو دیکھتے ہوئے ارادہ بدل دیا اور پری میڈیکل پڑھنے لگی ماشااللہ کتنی فرما بردار ہے میں اسکے ملیح جہرے کو دیکھتے ہوئے سوچتی اپنے ٹائٹ شیڈول میں بھی میرا خیال رکھتی رات کو کچن میں سمیٹ لوں گی میرے چہرے پہ تھکاوٹ کے آ ثار پاتے ہی مجھے فکر سے آ زاد کر دیتی گھر میں ملازمہ اور ہیلپر ہمیشہ ہی سے موجود تھے مگر مجھے کچن کبھی بھی ملازمین کے حوالے کرنا پسند نہیں رہا۔
جان توڑ کر محنت کی کہ میڈیکل میں کمپیٹیشن بہت ہے اور میں ریپیٹ نہیں کروں گی پہلی بار میں ہی کلئیر کرنا ہے مجھے انٹری ٹیسٹ بڑے عزم سے کہتی مما کلئیر کر لوں گی ناں بہت دعائیں کیجئے گا بس مصّلے سے اٹھا ہی نہ کریں پڑھتے پڑھتے رک کر ایڈوائس کرتی میں حوصلہ بندھانے کو کہتی میری بیٹی کا نہیں ہوگا تو سمجھو اس سال کسی کا بھی نہیں ہو گا میری بیٹی سے ذیادہ کون ذہین ہو گا اور وہ حوصلہ پکڑ لیتی آ خر اسکی محنت رنگ لے آ ئی وہ کلئیر کر گئی اور جب کے ای میں جا رہی تھی تو مارے تفّاخر اور اللہ کے کرم کے میں بات کرتے کرتے اکثر گلوگیر ہو جاتی اس نے میرا وہ خواب بھی پورا کیا تھا جو میں نے کبھی اپنے لیئے دیکھا تھا۔

