1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zaara Mazhar/
  4. Pakhandi (2)

Pakhandi (2)

ُُپاکھنڈی(2)

چھلاوہ ہی تھا۔ لمحے لمحے کی رپورٹ اسے لکھتا رہتا۔ ابھی بازار گیا تھا۔ آ ج گھر میں مستری لگایا ہے۔ اب بجلی کا کام کروا رہا ہوں۔ مگر تم آ نلائن ہی رہنا خبردار جو ہلیں تو۔ بیاہی بہن کو سسرال چھوڑنے جا رہا ہوں۔۔ اب گاؤں سے کچھ برادری والے آ ۓ بیٹھے ہیں۔ بیٹھک کی تصویر سینڈ کر دیتا۔ بچوں کو اسکول چھوڑنے گیا تھا۔ دوست آ یا ہوا ہے یونی فیلو۔ چاۓ کا کپ اسکو بھی ارسال کردیتا وہ سچ مچ سرشار ہو جاتی۔ بیوی بچوں کے ساتھ میکے گئی ہے۔

بیٹیوں کی اور بیوی کی روانگی کی تصویر بھیج دی۔ آ ج یہ نیلے رنگ کا کرتا لایا ہوں دیکھو کیسا ہے عید پہ پہنوں گا۔ تم بھی نیلا ڈریس بنوانا تصویریں جوڑوں گا۔ پزا ہٹ پہ ہوں فیملی کے ساتھ۔ دوستوں کے ساتھ لنچ کیا۔ کے۔ ایف۔ سی میں تصویر ارسال کر دیتا۔ آج بیوی نے کھانا بنا کر دیا دیکھو۔ ناشتے دان کا منہ کھول دیتا۔ آ ج دیر ہو گئی صبح اب لنچ میں کیلے کھاؤں گا تم بھی آ جاؤ شرارت سے ہنستا۔۔ اسے لگتا اسکی فیملی کا حصہ ہے وہ۔ آ ج والدہ کو لے کر ڈاکٹر کے پاس جانا ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی بات شیئر کرتا شائد اپنا عادی بنا رہا تھا۔

وہ سر دھنتی متاثر ہوتی رہتی کتنا فرمابردار ہے۔ کیسا خیال رکھنے والا ہے۔ محبت کرنے والا ہے۔ کتنی انرجی بھری ہے اس کے اندر پورے خاندان کی رگوں میں دوڑتا ہے وہ آ فس سے واپس آ ئے تھکے تھکائے شوہر سے اس کا موازنہ کرتی۔ تب ہی دل تھوڑا تھوڑا بے ایمان ہونا شروع ہو گیا وہ خود کو دلاسہ دیتی نہیں یہ تو بس۔ اچھا شاید بوائے فرینڈ اسکو کہتے ہیں ناسمجھی میں ایک رشتہ گھڑا۔ لوگوں نے کتنا بدنام کر رکھا ہے

بوائے فرینڈ یا گرل فرینڈ کو۔ اس میں کیا قابلِ تعزیر ہے بھلا۔ وہ خود کو رعایت دیتی۔ ورنہ دونوں کی زندگی بڑی خوبصورتی سے ایک دھارے پر چل رہی تھی کہیں کمی نہ تھی نا ہی بیشی کی گنجائش۔مگر وہ کسی اور ہی دھن میں تھا آ فس پہنچتے ہی اسے بھی انگیج کر لیتا۔ کیا کر رہی ہو گلابو۔ صبح کا سلام۔ سرخا سرخ تازہ سے گلابوں کا بُکے لڑکھا دیتا۔۔ تصویر میں سے بھی خوشبو امڈ امڈ آ تی۔ کہاں ہو آ جاؤ تو گلشن کا کاروبار چلے۔ سطحی سے جملے بڑے پرکشش لگتے۔ جواب دو گی تو آ فس کا کام شروع کروں گا۔

وہ محبتوں اور توجہ کے بوجھ سے دبی دبی رہنے لگی۔ مگر عقل ابھی پلِ صراط پہ کھڑی تھی۔ جنت دوزخ صاف نظر آ رہی تھیں۔ معنی خیز سے شعر ارسال کرتا۔ تم بہت اچھی لگتی ہو۔ تم سے باتیں کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔ میری ساری تھکاوٹ اتر جاتی ہے۔ تب ہی چاہے جانے کے احساس سے بہک گئی۔ شاید محبت ہمیشہ زبان سے اظہار چاہتی ہے۔ وہ کم گو شوہر کو بیزاری سے دیکھتی۔ شعری انتخاب سے بڑھ کر پورے پورے گیت بھیجنے لگا۔ وہ ڈوبنے ابھرنے لگی۔ شاطر مرد تھا بڑی عیاری سے پھندے لگا رہا تھا۔ ایک دن ویڈیو ملی۔

کون کہتا ہے محبت کی زبان ہوتی ہے

یہ حقیقت تو نگاہوں سے بیان ہوتی ہے

خوبصورت کلام اور مغنیہ کی دل موہ لینے والی ادائیں۔۔۔ بس اس دن وہ لڑھک گئی جینا دو بھر ہو گیا۔ سات سروں کے رنگین دریا میں بہ گئی۔ پل بھر کو بھی اسکا خیال ذہن سے نہ اترتا۔ ظالم نے ایسے ٹھّرے کے جام پلائے، ایسی مدھ پلائی کہ مدہوش ہی ہو گئی مستی میں ڈولتی رہتی پاؤں رکھتی کہیں، پڑتا کہیں۔ دودھ ابل ابل کر سوکھ جاتا۔ ہانڈی روز جل جاتی۔ بچوں کے ضروری کام بھی بھولنے لگی بے زبان شوہر تو اپنا گزارا چلا لیتا۔ اسے اس کے حال پہ چھوڑ چکا تھا مگر بچے چیخ پڑتے۔

ممّا آج یونیفارم استری نہیں کروائے۔ ٹائی نہیں ہے۔ موزے کی جوڑی نہیں مل رہی۔ جوتے پالش نہیں ہیں۔ اف آ ج پھر اسکول بس چھوٹ گئی چھوٹی لاڈلی بیٹی منہ بسورتی کوئی بات نہیں ہم اپنی پری کو آ ج خود چھوڑ آ تے ہیں گاڑی کی چابی اٹھاتی شوہر کی سرد نگاہوں سے بچتی واپسی پہ سبزی پھل بھی لیتی آ ؤں گی توجیہہ پیش کرتی۔ مگر وہ لمحے بھر بھی ذہن سے محو نہ ہوتا بن پئے ہی مست رہتی۔ نشے میں مخمور آنکھیں کھل کر نہ دیتیں کسلمندی سے پڑی اپنے اندر ہی چِٹکتی رہتی، مہکتی رہتی ۔

ملازمہ آ تی مارے باندھے کام نمٹاتی یہ جا وہ جا ساتھ حیران ہو کر سوچتی باجی کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے۔ اس دنیا میں لگتی ہی نہیں۔ شاید جن چنمبڑ گئے ہیں اس نے راز داری سے اپنی ساتھیوں کو بتایا۔ آ پوں آ پ مسکاتی رہتی ہے۔ دیوانی لگتی ہے۔پڑوسن پوچھتی بھابھی بڑے دن ہو گئے آ پ کے ہاتھوں کی بریانی کھاۓ۔ دوسری کہتی طاہر کو آ پکے ہاتھ کی ربڑی بہت پسند ہے تیسری چپلی کباب یاد کر کے چٹخارہ لیتی وہ پہلو تہی کر جاتی۔ ہر دم خیالِ یار میں جوگن بنی جھومتی رہتی۔۔۔ اسکے خیال کو اوڑھ لپیٹ کر سرور کی لہروں میں بہتی رہتی۔ اسکی لا یعنی باتیں مزہ دینے لگیں وہ ہر روز ایک شعر اسکے نام کرتا۔

مگر۔ مگر پھر پتہ نہیں اسے کیا ہوا تھا ایکدم پیچھے ہٹ گیا نہ صبح کا سلام نہ پھولوں کے تحفے نہ لمحے لمحے کی تفصیل سب بتانا بھول جاتا۔ وہ سمجھی اکلوتا ہے ذمہ داریوں میں پھنسا ہے ٹائم نہیں ملا ہو گا۔ وقت کاٹے نہ کٹتا جو موٹر وے پہ سفر کے دوران ہر گھنٹے بعد میسج کرتا اب یہاں ہوں۔ اب وہاں ہوں۔ یکسر نظر انداز کرنے لگا۔ وہ جلے پیر کی بلّی بنی گھومتی رہتی۔ نہانے جاتی تو نہائے جاتی۔ شمیپو کی پوری شیشی بہا ڈالتی۔

کچن میں جاتی تو گھنٹوں کھڑی رہتی۔ یاد ہی نہ رہتا کیا پکانا ہے۔ اتنی چپاتیاں ڈال دیتی کہ تین دن تک چلتی رہیں۔ کبھی ہانڈی میں مرچیں ہی مرچیں جھونک دیتی بچوں کے سی سی کرنے پہ ڈپٹ دیتی ایک دم پھیکا تو ہے کھانا۔ اپنی زندگی سے تو رنگ روپ اور ذائقہ سب ہی اڑ گئے۔ باغ باغیچہ ویران ہو گیا۔ جب دل کی بگیا اجڑ رہی ہو تو پھول پتوں کی کون پرواہ کرے۔ اول اول میسج کم ہوۓ۔ کم ہوتے ہوتے بند ہی ہوگئے۔ اسے پنکھے لگ گئے۔ دل کے ہاتھوں مجبور ہو کے خود ہی حال احوال پوچھتی۔ مصروفیت بتا کر ٹال دیتا۔

کوئی چھوٹا سا شعر جواب کی آ س میں بھیج دیتی وہ واہ لکھ کر گونگا ہو جاتا۔ پہلے رابطے کم ہوۓ پھر راستے گم ہوۓ۔ جو نام فرینڈز لسٹ میں سب سے اوپر جگمگاتا رہتا تھا۔ ہوتے ہوتے سب سے نیچے چلا گیا وہ بے بسی سے اپنی نظروں کے سامنے اپنی محبت کو غروب ہوتے دیکھتی رہی۔ سو دفعہ فون اٹھاتی، رکھتی، میسج کروں یا نہیں سوالوں جوابوں میں گھر جاتی۔ انا بھی بیچ میں کھڑی ہو جاتی۔ سب گتھم گتھا ہوئے جاتے۔ سفینہ منجدھار میں ڈوبنے لگا تو خیال آ یا۔۔۔۔ عشق میں مرضیاں نہیں چلتیں اسی کا بھیجا ایک شعر یاد آ گیا سو حال احوال کا پیغام لکھ دیا اس نے دیکھ کر چپ سادھ لی۔

دلِ خوش فہم نے پھر ہمت کی۔ جواباً بڑی سختی سے کہا گیا میری بیوی بیمار ہے ہوسپٹل جارہا ہوں۔ دنیا داری کے سو بکھیڑے ہیں۔ تو میں کہاں ہوں۔ اس دن اپنی ذلت کا احساس شدت سے ہوا۔ انا بھی دلیر ہوئی۔ اب رابطہ نہیں کروں گی اس نے پکا عہد کر لیا اور خوب نبھایا۔ اس سے کسی ہوس کی یا مادیت کی چاہ تو تھی نہیں جو قرب کی خواہش جاگتی۔ کھائی کھیلی عورت تھی شاید اسکو عشق کہتے ہیں وہ خود کو مطمئن کرتی۔

مگر دل نے کون کون سی دہائیاں نہیں دیں، کیسے کیسے ضد نہیں کی۔۔۔ پختہ عمری کا بے غرض عشق تھا۔ برہا کی چلچلاتی دھوپ میں محبت کا پانی مانگ رہا تھا۔۔۔۔ بس ذرا سا چھڑکاؤ۔۔۔ جان چھڑانا مشکل ہو رہا تھا۔ روگ بن رہا تھا۔ مگر آ خری دن والی ذلت یاد کر کے دل کو سنبھال لیتی۔ گھرستی والی تھی۔ دل لگانے کے سو بہانے تھے۔ کچھ نہ کچھ سنبھل ہی گئی۔ مگر۔ کبھی ایسی ہوک اٹھتی کہ دل دیدار چاہتا۔

غنیمت سمجھتی کہ اس نے فرینڈز لسٹ سے خارج نہیں کر دیا یا بلاک نہیں کر دیا۔ پروفائل کھول کے دیکھتی آ ج اس نے کیا شیئر کیا ہے۔ سب پڑھتی کبھی لگتا یہ میسج میرے نام کا ہے۔ مگر دماغ سے کیا عہد خوب نبھایا اب نہیں دھوکہ کھانا جب تک خود رابطہ نہیں کرے گا۔ وہ بھی شاید جان چھوٹنے پر مطمئن ہو گیا ہے۔ خود ہی گتھیاں سلجھاتی رہتی۔ آ ج موسم بڑا اچھا ہے اسکے شہر کے موسم کا احوال پاتے ہی سوچتی آ ج ضرور میسج کرے گا۔

آج بہت ٹھنڈ ہے چاۓ کافی پیتے ہوئے یاد تو کرتا ہوگا۔ انبکس کھول کھول کر چیک کرتی مگر وہاں کسی دستک کا نشان تک نہ ہوتا۔۔ وٹس ایپ بھی دھلا دھلایا اداس سا پڑا ہوتا۔ کیسی کیسی گلاب رتیں گزر گئیں وہ پتھر ہی رہا۔ اب موسمِ برسات آ یا ہے اسے بھی بہت کچھ یاد دلائے گا۔ دلِ خوش امید نے راہ دکھائی۔ پچھلی برسات میں ہی تو ملا تھا کتنی بارشیں تھیں جو ایک دوسرے کو دکھا دکھا کر شیئر کی تھیں اور ایک ساتھ دیکھی تھیں۔ ساون اتنا خوبصورت ہوتا ہے پہلی بار معلوم ہوا۔۔۔۔ مگر ایک ایک کر کے بارش والے سارے دن گزر گئے۔ ہوا کوئی خوشبو بھرا سندیسہ نہ لائی۔

پھولوں نے رنگ نہ پکڑے۔ سبزے میں زندگی مفقود تھی۔ آ خر موسمِ برسات بھی گزر گیا اس پتھر میں جونک نہ لگی۔ وہ بے دم ہوتے دل کو بہلانے میں کامیاب ہو ہی گئی۔ مگر سال بھر کا سفر صدیوں میں طے ہوا پورے گھر کا شیرازہ بکھر گیا رستے ہوۓ زخموں پر کھرنڈ آ گیا۔ حیرانی اب بھی نہ جاتی پتہ نہیں کیا چاہتا تھا۔ خود ہی دراّتا ہوا آ یا دل کی بستی اور گھر گھرستی سب تہ تیغ کر ڈالی اور خود ہی کنارہ کش ہو گیا۔ ایک دن شیئر کیا ہوا تھا۔

ہوسکے تو سبب تلاش کرو

کوئ یونہی خفا نہیں ہوتا

وہ پھر دھوکہ کھا گئی شاید میرے لئے لکھا ہو۔ مگر غلطی کہاں ہے میری۔ بہت سوچنے پر بھی یاد نہیں آ یا وہ جب بھی وال پہ کچھ شیئر کرتا وہ مرتے مرتے جی اٹھتی شاید آ ج۔ شاید آ ج۔ مگر اس آ ج نے نہ آ نا تھا نہ آ ئی۔ حیران ہو ہوکے سوچتی۔ آ نکھیں مل مل کےخود کو دیکھتی یہ میں ہوں چھ ماہ میں ہی خوبصورت عمارت ملبے کا ڈھیر بن کر کھنڈر کا منظر پیش کرنے لگی۔ ہڈیاں نکل آ ئیں۔ آ نکھوں میں اداسیوں نے ایسے ڈیرے ڈالے کہ کنّی کی طرح چمکتی آ نکھوں میں کوئی رنگ ہی نہ بچا نہ کالی نہ کتھئی۔ وہ اداس رنگ آنکھیں لگتیں جو کبھی جگنو کی طرح جگمگاتی تھیں ہیرے کی طرح جگراتی تھیں اب مٹیالے دیئے لگتے۔

چپکے چپکے اللہ سے شکوہ کرتی قسمت میں نہیں تھا تو کوسوں دور سے ملایا کیوں ربّا۔ ادھیڑ بن میں لگی رہتی بدعا بھی تو نہیں دے سکتی جو پیارے ہوں انکے لئیے بدعا نہیں نکلتی۔ اسکی چار بہنوں چار بیٹیوں کا خیال آ جاتا بوڑھے ماں باپ اور۔ اور بیوی بیچاری کا کیا قصور؟ ان سب کی واحد امید۔ واحد دعا وہی تو تھا۔ اپنے کُرلاتے دل کی ایک نہ سنتی۔ بد دعائیں زبان تک آ تے آ تے دعاؤں کا روپ دھار لیتیں۔ہاں۔مگر حساب تو اسی دنیا میں چکانا ہو گا ناں دل بے بسی سے قہقہہ لگاتا چاہے بہن سے یا بیٹی سے۔ نہیں خدایا!وہ کانپ جاتی جو تکلیف میں نے اٹھائی میں برابر کی شریک تھی وہ اس تکلیف سے محفوظ رہیں۔

ببانگِ دہل قطع تعلقی کا اعلان کر کے معلمع چڑھا لیا۔ کچھ سنبھل گئی۔ مگر جو بنیادیں اندر سے ہلی تھیں انہوں نے باہر کی عمارت کو کھنڈر میں تبدیل کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ ٹوٹ پھوٹ گئی۔ جو بہت مضبوط نظر آ یا کرتی تھی۔ اب ٹوٹی پھوٹی عورت دِکھتی ہے اس نے خود ترسی کی کیفیت میں آ ئینے میں جھانکا۔اس کی چند روزہ دل لگی تھی۔ یہ ظالم نامحرم مرد کتنا دلیر ہوتا ہے کتنی دیدہ دلیری سے کھیلتا ہے۔

کیسے نسوانیت کا غرور توڑ کر جی بہلاتا ہے۔ناقابلِ رسا عورت کے جذبات کو کھلونا بنا کر خود کو تسکین پہنچاتا ہے۔بے پناہ غصہ آ تا دل چاہتا ساری دنیا کو آ گ لگا کر خود کو بھی تیلی دکھا دے۔ مگر سنبھلنا تو تھا۔ بچوں کا کیا قصور ہے خود کو سمجھاتے سمجھاتے لوٹ آ ئی۔ اسے لگتا روز روز خود کو سنبھال لینے کا ورد کرتے رہنے سے ایک دن سنبھل ہی جاؤں گی ہاں۔ کاش ایک بار آ کر بتا دے کہ اس نے میرے ساتھ یہ سب کیوں کیا تو کرچیاں سمیٹنے میں آ سانی ہو جائے ایک تھکا تھکا سا سانس نکلا اس کے منہ سے نکلا۔ اس نے سامنے کھلی پروفائل پہ بلاک کو ٹچ کر کے موبائیل بیڈ پہ پٹخ دیا۔

لمحے لمحے کی آنکھ پرنم ہے۔

کون کہتا ہے کہ وقت مرہم ہے

Check Also

Aaj Ki Raniyan Aur Ranaiyan

By Mirza Yasin Baig