Mita De Apni Hasti Ko
مٹا دے اپنی ہستی کو

ماں اکثر کام کاج کے دوران یہ شعر گنگناتی رہتی تھیں اور پھر کام میں ایسی جان ڈالتیں کہ کم وسائل کے باوجود کام جگر جگر کرنے لگتا۔ گھر کے جس گوشے میں ماں کے قدم پڑتے وہی جگمگانے لگتا۔ جس ہانڈی میں ماں کی ڈوئی یا ہدایت چل جاتی وہ ہی لذت سے بھر جاتی۔ ہنڈیا میں نمک مرچ برابر ہو۔ چٹنی سلاد اچار دسترخوان پہ لازمی ہوں یہ انکی سختی سے ہدایت تھی۔ تمام بہن بھائیوں کے کپڑے گھر میں سلتے اور جرسیاں بھی گھر میں بنتیں۔
بازار سے کوئی بھی کام کروانے کا رواج ہمارے ہاں بالکل نہیں تھا سوائے اسکے کہ بھاری چادریں اور لٹھے کے کپڑے دھوبی کے ہاں جاتے تھے۔ ہر عمل میں کفایت اور سلیقہ شعاری لازمی جز تھی پھوہڑ پنے کی کہیں گنجائش نہیں تھی۔ مشکل یہ تھی کہ ماں کو ہم سب بہنوں سے بھی یہی توقع رہتی۔ ہم لا ابالی پن میں ناپختہ سا کام سر سے اتارنے کی کوشش میں ہوتے لیکن کوکنگ ہو دھلائی ہو صفائی ستھرائی یا سلائی کڑھائی کسی بھی کام سے ماں کو مطمئن کرنا بے حد مشکل کام تھا۔ روزمرہ کے کاموں پہ ان کا ایسا چیک اینڈ بیلنس تھا کہ ہم بہنوں کو لگتا ماں کے جسم پہ آنکھیں ہی آنکھیں اگی ہوئی ہیں بلکہ کبھی کبھی تو ماں مجسم آنکھ لگتی تھیں یا ایک چلتی پھرتی ایکسرے مشین۔
ہمارا کوئی بھی عمل ان سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا تھا اور پھر ماں کو آنکھوں سے سانس پینے ؔمیں خوب محاورہ تھا۔ ڈانٹتی کم تھیں بس انکی ایک گھوری کافی ہوتی تھی۔ ہمارا کسی بے ضرر سی شرارت کا چور ایک منٹ میں پکڑ لیتیں ہم نہ مانتے تو کہتیں تمہارے پیٹ کی بات میرے ناخنوں میں نظر آجاتی ہے۔ سونے کا نوالہ ضرور دیتی تھیں لیکن ساتھ ہی شیر کی نظر بھی رکھتیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ماں کوئی ڈکٹیٹر یا سخت نقوش والی سخت مزاج عورت تھیں بلکہ خاندان میں انکی سادہ لوحی اور دھیمی شرمیلی مسکراہٹ اور بھولے بھالے بے ریا نقوش مشہور تھے۔
رشتے نبھانا جانتی تھیں اور اپنے پیدا کئے ہوئے سنبھالنا بھی۔ پرانی ماؤں کی طرح انہیں بھی دنیا کے ہر کام پہ عبور حاصل تھا ان کی کوشش تھی کہ گھر داری کے یہ تمام اسرار رموز ہم تمام بہنوں کے دماغوں میں انڈیل دیں تاکہ سسرال میں جاکے کوئی مشکل نہ ہو اگرچہ ہم کڑھ کے کئی بار پاؤں پٹختے، سوچتے ماں کو تو کبھی کام پسند ہی نہیں آ سکتا۔ ہم کبھی غفلت کی نیند نہیں سوئے۔ ڈھیلا ڈھالا اور کسلمند حلیہ انہیں سخت ناپسند تھا۔
صاف ستھرے استری شدہ جوڑے، دھلے منہ پہ کنگھی چوٹی، آنکھوں میں سرمہ اور موسم کی کریم یا لوشن ہمارا صبح سویرے کا معمول تھا جس میں کمی بیشی ماں کو پسند نہیں تھی۔ خود بھی ہمیشہ استری شدہ جوڑا پہنتیں۔ نہا کے نکلنے سے پہلے اپنا جوڑا بھی مل کے ڈال دیتیں۔ ماں نے کبھی نہیں کہا تم اہم ہو یا تمہاری مرضی اہم ہے کہتیں بھی کیسے وہ تو خود اس شعر کی عملی تفسیر تھیں کہ۔ ؎
مٹا دے اپنی ہستی کو گر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے
نہ ہی کبھی یہ کہا کہ اگر گزارا نہ ہو تو واپس آجانا اور نہ یہ کہا کہ ڈولی میں جا رہی ہو اب جنازہ اٹھے۔ ایک بہن کے گھر میں مسائل تھے ماں لاتعلق ہوکے بیٹھ نہیں گئیں بیٹی کو سمجھایا بھی اور کئی طرح سے سپورٹ بھی کیا۔ انہوں نے ہماری تربیت کرنے کی کوشش میں ہم تمام بہنوں کو سوئی کے ناکے سے گزار دیا۔ شائد انہیں اپنی تربیت پہ بھروسہ تھا۔ اسی لئے انہوں نے کبھی ایسی نصیحت کی ضرورت نہیں سمجھی۔ ماں کی ڈانٹ ڈپٹ جانے کب ہمیں اہم بنا گئی۔ ہم جولیوں اور سنگی ساتھیوں جیسے الٹ سلٹ فیشن ہم نے کبھی نہیں کئے اگرچہ دل میں ارمان ہوتے تھے۔ اب سوچتے ہیں وہ پابندیاں کتنی ضروری تھیں ہمیں برے بھلے میں امتیاز کرنا سکھا گئیں۔
ہم بہنیں اس لمحے لمحے کی گرفت سے بہت ڈرتی تھیں۔ پھر جانے کب چپکے سے یہ شعر ہماری زندگی کا حصہ بن گیا کہ جب ہم نے اس ِمٹی ہوئی ہستی کے ساتھ سسرال میں قدم رکھا تو وہاں چھ سال پہلے سے ایک بہو موجود تھی اور اپنے رنگ جما چکی تھی کامل و مثالی بہو کا ایک تاثر بھی بنا چکی تھی۔ سب اسی ترازو میں تولنا چاہتے تھے۔ دس بارہ دنوں میں جانے کیا ہوا کہ سب نے احساس دلانا شروع کر دیا کہ تم اہم ہو۔ تم خاص ہو تب جی چاہتا اڑ کے جاؤں اور ماں کے قدموں میں سر رکھ دوں۔
ماں کی وہ سب سختیاں دیسی گھی کا حلوہ بن چکی تھیں کہ ماں کے اہم نہ سمجھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اپنے گھر میں اہم مانے جانا معنے رکھتا ہے۔ آپ کو عرش کا کنگرہ بنا ڈالتا ہے۔ اب ماں بہت ضعیف ہو چکی ہیں انکی آنکھوں کو کم دکھائی دیتا ہے کانوں کو کم سنائی دیتا ہے۔ بہوؤں کے ہاتھ سے کچھ بھی لے کے مین میخ نکالے بنا آرام سے کھا لیتی ہیں کپڑے استری نہ بھی ہوں پرواہ نہیں کرتیں لیکن اپنے جلائے چراغوں کی روشنی میں وہ بہت مطمئن ہیں۔
ایک ہلکی نرم مسکراہٹ جو اپنی ذمہ داری احسن طریق پر نبھانے کے بعد مقدر بنتی ہے انکی شخصیت کا خاصہ ہے۔ اب ماں کو شائد یہ شعر بھی بھول چکا ہو میں نے اب انہیں کبھی گنگناتے نہیں دیکھا ماں کی خواہش ہے جتنی بھی زندگی ہے اللہ انہیں محتاج نہ کرے بلکہ چلتے پھرتے لے جائے۔

