Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zaara Mazhar/
  4. Maryam Ki Kahani Din Ba Din Ulajhti Ja Rahi Hai

Maryam Ki Kahani Din Ba Din Ulajhti Ja Rahi Hai

مریم کی کہانی دن بدن الجھتی جا رہی ہے

آج پھر ڈرتے ڈرتے میں نے چھوٹی بہن مریم کو ایک لڑکے کی تصویر روانہ کی تھی اور حسبِ معمول اگلے سیکنڈ میں اس نے مجھے لوٹا دی تھی کہ آپا آپ نے اس میں کیا دیکھا؟ اور میں پھر حسبِ معمول شرمندہ سی ہو گئی کہ مجھ سے ایک اور کوتاہی ہو گئی۔ میرے نامۂ اعمال میں ایک اور جرم درج ہو گیا۔ اللہ کہاں سے ڈھونڈوں اس کے لیۓ شہزادہ سا؟ مریم شروع میں ایسی منہ پھٹ نہیں تھی بڑھتی عمر، روز روز کی رشتہ پریڈ اور تصویر کشائی سے ایسی کٹ کھّنی ہو گئی تھی۔

اپنا خون ہے ناں اس لئے میرا دل اسے رعایت دے دیتا ہے۔ مجھے بہن پہ اور اس کی بھری جوانی پہ ترس بھی آتا ہے، اس پہ جوانی بھی یوں ٹوٹ کے آئی تھی جیسے بہار کے موسم میں کھلا گلاب۔ دہکتا روپ جھلا نہیں جاتا لیکن میں کر کیا کر سکتی تھی؟ وہ مجھے بے حد عزیز ہے اسے گودوں میں کھلایا تھا میرا بس چلتا تو میں کسی ریاست سے کوئی شہزادہ پکڑ لاتی، دامن میں ستارے بھر دیتی۔

امی، ابا کے بعد الگ پریشان رہتی ہیں جب بھی بات ہوتی ہے ان کی رات کروٹیں بدلتے گزری ہوتی ہے۔ لیکن ماں بھولی بھی بہت ہیں انہیں مریم کی عمر بڑھنے کی فکر سے زیادہ اس بات کی فکر ہے کہ لڑکا منہ متھے لگدا ہووے۔ برادری میں بیٹھا ہوا جچے، بہنوئی کے ساتھ کھڑا سجے، دونوں کا جوڑ برابر لگے ساتھ ہی ان کی نظر میرے برابر کھڑے ہمایوں پہ ٹک جاتی یے۔ امی کو کیا پتہ آج کل لڑکیوں کے رشتے ڈھونڈنا کنویں میں بانس ڈلوانے کے برابر ہے۔

مریم ہے تو خوبصورت لیکن قد میں مار کھا گئی ہے، لڑکے والوں کی ڈیمانڈ ساڑھے پانچ اور پونے چھ تک پہنچی ہوئی ہے۔ ہمایوں بھی دس اچھائیوں اور دس برائیوں کا مجموعہ انسان ہیں ریموٹ کنٹرول روبوٹ نہیں ہیں لیکن خاندان بھر میں قابل رشک ہیں۔ اچھا جما ہوا کاروبار ہے تینوں بچے مہنگے اداروں میں پڑھ رہے ہیں سیاحت کے شوقین ہیں، ہماری سیرو تفریح بھی چلتی رہتی ہے۔

مجھے کھلا پیسہ دیتے ہیں جو ان کی اضافی خوبی ہے لیکن یہ سب کچھ وقت کے ساتھ ساتھ ملا ہے اور زندگی کے یہ تمام مزے میری فرمانبرداری سے مشروط ہیں۔ انہوں نے جیسے رکھا رہی کبھی ڈیمانڈ نہیں کی، کسی کو معیار نہیں بنایا سچی پوچھیں تو میں ان کی انگلیوں پہ ناچتی ہوں، آنکھ کے اشاروں پہ چلتی ہوں لیکن دیکھنے والوں کو لگتا ہے میں قسمت کی دھنی ہوں، میں سوچتی ہوں ایسا سمجھتے ہیں تو اور بھی اچھا ہے ہم دونوں کی شان بڑھتی ہے۔

لیکن یہ تمام آسائشات آسمان سے نہیں ٹپکتی تھیں جدو جہد سے کھوجنی پڑتی تھیں۔ نہ ہی ہم پہلے دن سے ایسے آسودہ تھے ہم جس مقام پہ سخت جدوجہد، محنت اور ربّ کی مہربانی سے پندرہ برسوں بعد کھڑے ہونے کے قابل ہوئے تھے میری ماں کا اور مریم کا اب وہ معیار تھا۔ انہیں زندگی یہاں سے شروع کرنی ہے انہیں سمجھ نہیں آتی کہ ایک لڑکا جو ابھی پریکٹیکل لائف شروع کرنے والا ہے، کم عمر ہے اس کے پاس یہ سب کہاں سے آئے گا؟

یہ مادیات تو اپنی جوانی کے سال، محنت اور سٹرگل کو دینے کے بعد زندگی کا حصہ بنتی ہیں۔ مریم چھوٹی بہن ہے، ابا اچانک روڈ ایکسیڈنٹ میں چل بسے، مریم مجھ سے دس برس چھوٹی تھی۔ ایک ہی بھائی ہے جو دبئی میں گدھا بنا ہوا مریم سے پانچ سال بڑا ہے لیکن امی ابھی اس کی شادی کرنا نہیں چاہتی کہ جب تک مریم کی نہ ہو جاتی۔ مریم کو لگتا ہے بہن کو میری فکر ہی نہیں ہے جبکہ بھرا ہوا سسرالی کنبہ اور میرے اپنے بچے بہت بڑی مصروفیت تھے۔

میں جب بھی رشتہ دیکھنے جاتی ہوں میرا گھر اور بچے بری طرح ڈسٹرب ہو جاتے ہیں۔ بچوں کے سکول ہوم ورک رہ جاتے ہیں، سکول میں غیر حاضری لگتی ہے، ہمایوں کو تنگی ہوتی ہے، ساس سسر بھی برا منہ بناتے ہیں یہ سب میں کور تو کر لیتی لیکن خود بہت تھک جاتی ہوں اب تو امی اور مریم کو لگتا ہے کہ میں اپنے بال بچوں میں عیش موج کر رہی ہوں، مریم کی عمر گزرتی جا رہی ہے مجھے کیا فکر اور کیوں فکر؟

مریم کا رشتہ نہ ہونے کے سبب ہماری زندگی ریشم کی ڈور کی طرح الجھتی جا رہی ہے میری اپنی بیٹی بڑی ہو رہی ہے مریم سے بے حد مشابہت رکھتی ہے۔ آنے والوں کی نظر پہلی بار جب اس کی جانب اٹھی تو آئندہ کے لئے میں حفصہ کو کمرے میں بند رکھنا شروع کر دیا۔ دوسری طرف بھائی کی عمر بڑھتی جا رہی ہے لیکن امی ابھی اس کی شادی کا ذکر بھی سننا نہیں چاہتیں کہ آنے والی تو گھر تنکا تنکا کر دے گی اور مریم کا کباڑہ بھی کر دے گی۔

نند، بھاوج کے جھگڑوں سے گھر کی فضا باد سموم کے جکڑوں میں رہے گی۔ میں کبھی کبھی سوچتی ہوں اگر ہم نے مزید دیر کی تو بھائی ایک دن خود ہی شادی کر لے گا۔ امی ان پریشانیوں کو نہیں سمجھتیں۔ میں جب بھی گھیر گھار کے کوئی رشتہ بھیجتی ہوں امی اور مریم دوسرے پلڑے میں ہمایوں کو تول کے لڑکے کو یکسر مسترد کر دیتی ہیں۔

ہمایوں کوئی ایسا بھی پیمانہ نہیں ہیں یہ تو میں ہوں جس نے انہیں سر کا تاج بنا کے کوہ نور کا تعارف دے رکھا ہے اگر میں خود ان کی عزت نہ بناتی تو ہمایوں کو کوہ نور سے عام پتھر بنتے دیر نہ لگتی۔ آج میں ہمایوں میں ایک کیڑا نکالوں تو دس، بیس کیڑے امی نے اور پکڑ لینے ہیں۔ مریم میری بہن سہی، ہے تو امی کی اولاد میرا اس پہ اختیار تھوڑی چل سکتا ہے ہاں اگر میری بیٹی ہوتی یا امی بیچ میں نہ ہوتیں تو میں کب کا رشتہ کر چکی ہوتی۔ میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔

ہر گزرتا دن، ہفتہ، مہینہ، سال اسے اور بڑا کر دیتا ہے۔ ادھر فارغ بیٹھے بیٹھے مریم اکتا چکی تھی ڈگریوں پہ ڈگریاں جمع کئے جا رہی ہے، یہ بھاری بھر کم ڈگریاں اس کے انتخاب کا پیمانہ مزید تنگ کئے جا رہی ہیں۔ میرا تو یہ معاملہ تھا ادھر ڈگری لی ادھر رشتہ آیا، ابا نے زیادہ پوچھ تاچھ کئے بنا مجھے رخصت کر دیا یا جو بھی پوچھ پڑتال کی باہر باہر کی گھر میں کچھ بھی ڈسکس نہیں ہوا، میرا کوئی مطالبہ تھا نہ میرے سامنے کوئی پیمانہ تھا میں سسرال جا کے فرمانبرداری سے بسنے لگی اور میرا ربّ رنگ لگانے لگا۔

ادھر بھائی کے بھیجے درہم امی اور مریم کا اسٹینڈرڈ ہائی کئے دے رہے ہیں ان کی ناک مزید اونچی ہوتی جا رہی ہے۔ میں مریم کو اور امی کو کیسے سمجھاؤں کہ اگر شادی ہی کرنی ہے تو یہ ڈگریاں کسی کام کی نہیں ہیں بلکہ شادی میں رکاوٹ بنتی جا رہی ہیں، میری ایک اکلوتی ڈگری بھی کہیں رکھی ہوئی ہے کئی برس سے دیکھی تک نہیں۔ یہ بات ایک دفعہ دبے لفظوں میں گھر میں کی تھی امی اور بہن دونوں کو بہت برا لگا، اس نے صاف کہہ دیا کہ حفصہ کو کیوں پڑھا رہی ہیں؟ پھر اس کی بھی تو شادی کرنی ہے۔

ادھر بھائی دن بدن اگریسو ہوتا جا رہا ہے دو دو سال پاکستان نہیں آتا ہمارے معاشرے میں ابھی تک لڑکے بیچارے اپنے منہ سے شادی کی طلب نہیں جتا سکتے۔ بھائی کا کیا قصور ہے جو اس کی جوانی کے سال ضائع کئے جا رہے ہیں نہ روپے کی کمی ہے نہ بھائی ذمہ داری سے ہاتھ اٹھا رہا ہے، امی کافی مسائل کا شکار رہتی ہیں مریم کا یہی پیمانہ رہا تو مجھے اس کی شادی ہوتی نظر نہیں آتی۔

اب تو مریم کو یہ بھی لگنے لگا ہے کہ میں بھائی کو بھڑکا رہی ہوں جبکہ میرے دل میں دونوں کے لئے یکساں محبت ہے مجھے یہ وہم بھی دامن گیر ہے کہ کل کلاں کو امی کو کچھ ہو گیا تو مریم کہاں جائے گی؟ میں اس لئے بھی چاہتی ہوں کہ بھائی کی شادی ہو جائے تاکہ خدانخواستہ امی کے بعد گھر میں کوئی عورت تو ہو لیکن انہیں لگتا ہے مجھے فکر ہی نہیں ہے۔ الہٰی ہمیں اس مشکل سے نکال دے اب۔

Check Also

Ameer Jamaat e Islami Se Mulaqaat (1)

By Amir Khakwani