Main Aik Damad Hoon (2)
میں ایک داماد ہوں(2)

تمہیں نہیں لگتا کہ سب چپ چپ تھے، جیسے بادل نخواستہ شادی ہو رہی ہو، نہ کوئی ارمان نہ کوئی دھوم دھڑکا، نہ کوئی ہلہ گلُہ۔ امی نے گھر داخل ہوتے ہی پہلا اعتراض کیا، میں کیا بولتا؟ پہلو میں حور بیٹھی لَو دے رہی تھی، میری دائیں طرف سلگ رہی تھی۔ نئی دنیا دریافت کرنے کا اور ذمہ داری کا احساس بالاتر تھا۔ آیوشہ اتنی خوبصورت لگ رہی تھی، کہ باقی تمام احساسات اور معاملات خود بخود ثانوی حیثیت اختیار کر گئے تھے۔
ولیمہ روایتی طریقے پر دھوم دھام اور تام جھام سے ہوا، رواج کے مطابق ہم آیوشہ کے گھر آگئے، دو چار روز مجھے یہاں رکنا تھا، پھر گھر والے مکلاوہ لینے آتے تو ہم واپس آتے۔ وہ چار دن اتنی خوبصورتی سے گزرے کہ میں حیران رہ گیا، ورنہ میں اپنی طبعیت کے سبب کافی پریشان تھا، کہ نئی جگہ پہ، نئے بیڈ پہ نیند کیسے آئے گی، میں سب کے ساتھ کیسے بولوں گا، لہجے میں وہ کلف اور گردن میں سریا کیسے ڈالوں گا؟ آیوشہ گھر کی بڑی بیٹی تھی، سب اسکے چاؤ چونچلے اٹھا رہے تھے، لاڈ لڈا رہے تھے، لیکن مجھے جتا نہیں رہے تھے، وہ سب ایک معمول کی بات لگ رہی تھی۔
اس کے ابو نے اسکی بچپن سے لے کے آج تک کی شاندار تعلیمی کامیابیاں مجھ سے شئیر کیں، بلکہ پریپ سے لیکر آج تک کا اکیڈمک ریکارڈ میرے حوالے کر دیا۔ کم گو سی امی نے کئی بار کھانے میں میری پسند پوچھی، اور اس کے مطابق کھانے تیار کئے، بلکہ ان کا زیادہ وقت کچن میں ہی گزرتا۔ گھر میں ذرا بھی اجنیت محسوس نہیں ہوئی، میرے دونوں سالے آیوشہ سے چھوٹے تھے۔ چہروں پہ ہلکی ہلکی داڑھی آرہی تھی، بے تکلفی اور سادگی سے مجھے گھیرے میں لے کے بیٹھ جاتے، اپنے تعلیمی میلانات و مصروفیات اور فیوچر پلانز شئیر کرتے کرتے آپس میں چونچیں لڑانے لگتے، مذاق مذاق میں ایک دوسرے کی کئی پولیں کھول کے رکھ دیں۔
مجھے اتنی بے تکلفی سے اپنے ساتھ شامل کر لیا، کہ مجھے اندازہ ہی نہیں ہوا کہ ہم کب، ہاتھوں پہ ہاتھ مار کے اونچے اونچے قہقہے لگانے لگے۔ شائد انکی امی انہیں بتانا بھول گئی تھیں، کہ عبداللہ یعنی میں، اس گھر کا داماد ہوں اور سب نے مجھے ہوّا سمجھنا ہے۔ بلکہ اس گپ شپ میں وہ بھی شامل ہوگئیں، خوشدلی سے بولیں بیٹا!اب یہ آپکا اپنا گھر بن گیا ہے، آنا جانا تو لگا رہے گا۔ بیٹیاں دے کے بیٹے بنائے جاتے ہیں اور آیوشہ ہماری سب سے بڑی بیٹی ہے، اس ناطے سے آپ ہمارے بڑے بیٹے، اس خوبصورتی اور سادگی بھرے جملوں میں مجھے اپنی گردن میں ان دیکھا سریا رکھنے کا خیال ہی نہیں آیا۔
چھوٹی سالی کم گو اور گڑیا جیسی تھی، میری کوئی چھوٹی بہن نہیں تھی، مجھے لگا اگر ہوتی تو کاش کہ بالکل ایسی ہوتی، سمجھدار اور لئے دئیے رہنے والی، چپ چاپ امی کی مدد کرواتی رہی، گھر کا ماحول بہت سادہ سا اور کھلا کھلا تھا، کوئی گھٹن نہیں، کوئی پردہ پوشی نہیں تھی۔ جب ہم واپسی کے لئے جارہے تھے، اس روز آیوشہ کے ابو کی طبعیت ناساز تھی۔ پھر بھی اٹھ کے بیٹی کے سوٹ کیس اور ڈھیر سا سامان، جو اسکی امی نے مختلف بہانوں سے ساتھ کر دیا تھا، خود گاڑی میں بھرا۔ سوٹ کیس گھسیٹتے ایک وہیل ذرا سا پھنسا، وہیں اکڑوں بیٹھ کے اسے رواں کیا، حالانکہ ملازمہ لڑکی سامنے ہی کھڑی تھی۔
اتنے بڑے افسر کا، داماد کے سامنے یوں بنا کسی اکڑ کے جھک جانا، میری گردن میں سریا رکھنے کی اوقات نہ بنا سکا، رخصت کرتے سمے انکی داڑھی بے اختیار آنسوؤں سے گیلی ہوئی، انہوں نے جیب سے رومال نکالا اور نامحسوس سے انداز میں آنسو جذب کر لیئے۔ بیٹی کے بعد مجھے گلے لگایا تو لرز رہے تھے، ایک کپکپاتی سی مجبور سرگوشی دھیرے سے میرے کانوں میں انڈیلی، بیٹا میری عزیز از جان کا بہت خیال رکھنا، اب اسے تمہارے حوالے کر دیا ہے۔ یوں جیسے جگر کا ٹکڑا کاٹ کے مجھے دیا ہو، انکے آنسوؤں نے میری کلف دھو کے رکھ دی، اکڑاؤ کہاں سے لاتا؟
امی اور بہن بھی آنسوؤں کی لڑی کے بیچ میں رندھے گلے کے ساتھ مسکرا رہی تھیں، عجیب بنا بادل بارش جیسا موسم، انکے چہروں پہ ٹہرا تھا۔ میں نے اسی دم عہد کر لیا کہ، آیوشہ کو کبھی سوئی تک چبھنے جتنی تکلیف نہیں دوں گا، وہ ہمیشہ میری زندگی کی ترجیحات میں شامل رہے گی۔ آیوشہ کی تربیت ایسی ہوئی ہے کہ، وہ کبھی بڑوں کے آگے زبان نہیں چلاتی، چپ چاپ سہہ لیتی ہے۔ الحمداللہ دو برسوں میں گھر میں بہت سی دھوپیں، چھاؤں آئی ہیں، ماں کے بہت سے پچھتاوے اور اعتراضات زبان پہ سرسراتے رہتے ہیں، لیکن میں نے لہجے کی اور کسی موسم کی شدت آیوشہ تک آنے نہیں دی۔
امی نے کئی بار میرے دامادی منصب کی نزاکت جتا کے، اور بہنوئی کا کردار دکھا کے، اسے کیش کروانے کی ہدایت کاری کی، لیکن مجھ سے اداکاری ہو نہیں پاتی۔ مجھے آیوشہ کے گھر والوں کا خلوص، اپنائیت اور سادگی وہ مصنوعی پن اوڑھنے نہیں دیتی، جس کے بھاری پن سے میری سانس گھٹنے لگے۔ جب سےایک گڑیا جیسی بیٹی ہماری زندگی میں آئی ہے، مجھے لگتا ہے یہ سچ مچ میرے جگر کا ایک ٹکڑا ہے، ہمارا سونا جاگنا سب اسکی روٹین کا محتاج ہے، بیٹیاں شائد ایسے ہی پالی جاتی ہیں۔
سوچتا ہوں آیوشہ کے والدین نے بھی ایسے ہی پالا ہوگا، پال پوس کے پڑھا لکھا کے، مجھ اجنبی کے حوالے کر دیا کہ، زمانے کا دستور اور بیٹی کی خوشی تھا۔ میری جگر گوشی ہنستی ہے تو میں ہنستا ہوں، وہ روتی ہے تو میری جان پہ بن آتی ہے، سوچتا ہوں وقت آنے پہ کسی غیر کے حوالے کیسے کروں گا؟ مجھے آیوشہ کے ابو کی وہ کپکپاہٹ ابھی تک محسوس ہوتی ہے، شائد اس روز انہوں نے معانقے کے دوران مجھ میں منتقل کر دی تھی۔ کہانی سنانے کا مقصد یہ تھا کہ، شائد بطور داماد ہمیں اپنی کردار سازی کی ضرورت ہے، شائد کسی کو کوئی تحریک ملے۔

