Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zaara Mazhar
  4. Koi Batlao Ke Hum Batlaye Kya?

Koi Batlao Ke Hum Batlaye Kya?

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا ؟

چند سال پہلے کی بات ہے بچہ جونئیر ماڈل (پرائمری سکول) سے فارغ التعلیم ہوا اور بوائز کے لیئے الگ مخصوص کیمپس میں بھیج دیا گیا۔ ہمیں لگا ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا، جونئیر ماڈل تو ائیر اسٹرپ کراس کر کے گھر کے سامنے تھا۔ اسمبلی کی صورت دن کا دعائیہ آ غاز اور گھنٹیوں کی ٹن ٹن سنائی دیتی رہتی اور ہم کان لگائے پیریڈز کی ترتیب کے ساتھ بچوں کی کیفیت اور کنڈیشن کے مدو جزر تک محسوس کر سکتے تھے۔ چھٹی والا طویل گونجیلا گھنٹہ سنتے ہی گیٹ کھول کر کھڑے ہو جاتے۔ سارا اسٹاف بھی دوستوں کی مانند۔ کوئی بات ہو، احتیاط ہو خود چلی جاتی ورنہ فون پہ بات کر لیتی روز کا مسئلہ روز ہی حل ہو جاتا۔ بچے ماشااللہ شائینگ اسٹار ہی رہے۔

بوائز میں رہ کر بچے کافی جلدی جلدی رنگ بدلنے لگتے ہیں۔ لیڈی ٹیچرز کے ساتھ تو یوں اٹیچ ہوتے ہیں گویا مرغی اور اسکے نئے نکلنے والے چوزے۔ ہر جگہ ماں کے پیچھے پیچھے۔ وہی انہیں چونچ بھرنا سکھاتی ہے۔ زمین کرید کرید کر کیڑے ڈھونڈنا، شرارتیں کرنا، چوں چوں کرکے ہر چیز میں گھس جانا اور بقا کے لیئے چونچ میں بھر لینا۔ بعینہ جونئیر ماڈل اس کی عظیم ترین مثال ہے۔ گریڈ ون سے ایک ٹیچر کو دی گئی کلاس، گریڈ ففتھ تک جاتے جاتے اسٹوڈنٹس اور طالب علموں میں ماں بچے والا رشتہ ڈیولپ کر دیتی ہے۔

ٹیچرز ہر بچے کی عادات سمیت اسکی رگ رگ سے واقف ہوتی ہیں۔ اور بچہ بھی اپنی ٹیچر کے پیچھے پانچ سال چوں چوں کرتے بانگیں دینے لگتا ہے۔ مگر میل ٹیچرز کا معاملہ ذرا اور نوعیت کا ہو جاتا ہے۔ انکی تربیت کے انداز و اطوار مختلف ہوتے ہیں۔ وہ کچھ کام کرواتے ہیں کچھ بچے پہ چھوڑ دیتے ہیں۔ ہمارے یہاں ہر 6th گریڈ بچے کو سائیکل پہ جانا ضروری ہے یعنی جونئیر ماڈل کے برعکس اسکول پِک اینڈ ڈراپ نہیں دیتا۔ شائد یہ بھی انکی تربیت کے لیئے بے حد ضروری ہے۔ مگر ہمارا پہلا پہلا تجربہ تھا لگتا آ نکھوں کے آ گے سے پہاڑ ہی اوجھل ہو گیا ہے۔

وہی پہاڑ جس کے ارد گرد سارا دن ہماری سعی ہوتی تھی، ہم ذہن میں گنتے رہتے اب فلاں پیریڈ ہے اب فلاں ٹیچر کے ساتھ ہے۔ بوائز کیمپس میں ہمیں پتہ ہی نہ چلتا چھ، سات گھنٹوں میں بچہ کیا کیا فعل کرتا ہے اور کیسے دن گزارتا ہے؟ ہماری تمام تر یکسوئی محو ہو گئی اگرچہ بچہ چھٹی کے منٹ بعد گھر میں موجود ہوتا مگر وہ لمحے لمحے والا کنکشن از خود آ ف ہو گیا۔ ہم ڈرے ڈرے رہنے لگے کہ جانے کیا ہو جائے، مصروفیت اتنی کہ لگتا مرنے کی بھی فرصت نہیں ہے۔ عزرائیل آجائے تو ہاتھ جوڑ کے معذرت کرنی پڑے گی کہ بھیا ہمیں بخش دو ہم اپنے بچوں کی تربیت میں مصروف ہیں۔

حالانکہ کچھ بھی تو انہونا نہیں تھا۔ پوری دنیا میں یونہی ہوتا ہے بس ہمیں عادت نہیں تھی۔ بیٹا خوب محنت کرو، دل لگا کے پڑھو تاکہ جگ میں ماں باپ کا نام روشن ہو۔ سارے دن میں یہ فقرہ تین، چار بار دھرا دیتی۔ بچے کا اسکول دور ہوا تو اس کے رنگ ڈھنگ بدلنے کے ساتھ کافی کچھ بدل گیا شاید میری یکسوئی اور دھیان گھنٹوں کی مسافت میں گم ہونے لگے۔ اب وہ گھڑی کے حساب سے چلنے اور سونے جاگنے میں بوجھ محسوس کرتا۔ کبھی کبھی بغاوت کر دیتا۔ ایک مؤدب سی بے ادبی کر دیتا۔ ٹِک ٹِک کے حساب سے چلنا مشکل ہے میرے کمرے سے یہ گھڑیال نکال دیجئے۔

کبھی کہتا یہ گھر ہے یا آرمی ہاسٹل۔ ہر کام کے لئے گھنٹے مخصوص کر رکھے ہیں۔ میں انسان ہوں یا گھڑی کا غلام۔ آ پ آرمی میں ہوتیں تو اب تک جرنیل بن چکی ہوتیں۔ شائد وہ جو نظروں میں ایک توجہ اور احتیاط سے چل رہا تھا پچھلے پانچ، چھ سال سے اس سے باہر نکل کر آ زادی محسوس کر رہا تھا (جی ہاں کبھی کبھی محبتیں اور توجہ بوجھ ہی بن جاتے ہیں۔) بیٹا جی جو گھڑی کے غلام ہوتے ہیں وہی دنیا بھر میں راج کرتے پھرتے ہیں ماں باپ کا نام روشن کرتے ہیں۔ ہماری آ واز انہی دنوں کچھ کمزور ہونی شروع ہوئی۔ اور بچے کی آواز پھٹتے پھٹتے بھاری سی ہونے لگی۔

ایک دن ایسی ہی ہدایت پہ چڑتے ہوئے بولا مام، ایک بات تو بتائیں؟ یہ ماں باپ کا نام روشن کرنا بچوں کی ہی ذمہ داری کیوں ہے؟ ہماری کمزور آواز آ ج تو گونگی ہی ہوگئی۔ آ خر آ پ نے اتنے سالوں میں اپنا نام خود روشن کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ آ پ اپنا نام خود روشن کیجیئے مجھے جب کرنا ہو گا کر لوں گا۔ ویسے بھی جو کام آ پ اتنے سالوں سے خود نہیں کر سکیں وہ آ پکا بچہ کیسے کر سکتا ہے؟

Check Also

Youtube Automation, Be Rozgar Nojawano Ka Badalta Mustaqbil

By Syed Badar Saeed