1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zaara Mazhar/
  4. Kal Shab Dekha Khwab Jo Main Ne Sote Mein

Kal Shab Dekha Khwab Jo Main Ne Sote Mein

کل شب دیکھا خواب جو میں نے سوتے میں

غضب ہوا،عجب خواب دیکھا کل شب۔اک انبوہِ پر کثیر، اک لاپرواہ جمِ غفیر،کہ تھوڑا اجنبی اجنبی معلوم پڑتا تھا۔ یہ بڑے بڑے اتوار بازار کھلے ہیں۔ کہیں تمبو قنات لگا کر اور کہیں راتوں رات وسیع رقبے پر چار دیواریاں کھڑی کر کے،کیا دیکھتے ہیں ،کہ بازار کے بیچوں بیچ انسانی بھیڑ لگی ہے۔ سارے بازاروں میں صرف ایک ہی جنس رکھی ہے، اور وہ ہے عقل۔دانشوارانِ ملت عوام میں عقل بانٹنا چاہ رہے ہیں۔بڑے بڑے جوٹ کے بوروں میں تازہ تازہ، ہری بھری عقل بند ہے۔ کچھ پک چکی ہے،کسی کو پال ڈال کر پکایا گیا ہے،کوئی کوئی دانہ ابھی کچا ہے۔کچھ ملک میں پیدا ہوئی ہے کچھ درآمد کی گئی ہے۔

عقل اتنی خوبصورت اور پرکشش تھی،کہ ہمارا کچی ہی تلوانے کو جی چاہنے لگا۔ ہم جذباتی ہو کرتیزی سے تمبو میں گھسے،ساتھ میں ہماری سہیلی دو شین نے ہمیں کہنی ماری۔ اتاولی نہ ہو تو،پک تو لینے دو عقل کو۔ہم منہ بسور کر کم عقلوں کا تماشہ دیکھنےلگے۔بوریوں کے منہ پر سیبےکا جال بنا ہوا تھا ،مگر عقل ہے کہ امڈ امڈ کر باہر نکل کر عوام کے شاپنگ تھیلوں میں خود ہی گھسنا چاہتی ہے۔کلبلا رہی ہے، بلکہ سانپوں کی طرح رینگ رہی ہے۔پھپکار رہی ہے،یا جیسے مچھلی کا پونگ سرسرا رہا ہو۔کچھ دکاندار اپنی لپلپاتی عقل کو زبردستی واپس ٹھونس رہے ہیں۔

ہما شما ہمگیں تو موجود ہیں۔کچھ ہمہ داں اور عِماد الدولہ بھی موقعہ پر مل گئے۔یہ بڑی بڑی سیاہ گاڑیاں اور سیاہ شیشوں کی عینک والے لحیم شحیم باڈی گارڈ۔ہم نے اپنی کم عقل سے سوچا انہیں کیا ضرورت ہے دانش کی۔ مگر خواب کی کیفیت میں دماغ پر زیادہ زور نہیں ڈال سکے، اس لئے دوبارہ مزے سے خواب ہی دیکھنے لگے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ اچانک دودھ اور شہد کی نہریں کھد گئی ہیں، ٹھاٹھیں مار رہی ہیں ،مگر چند انتہائی ناپسندیدہ لوگوں نے انہیں ڈَکا لگا کر روک رکھا ہے۔اب وہ ڈکے ہٹائیں تو مذکورہ نہریں جاری ہوں۔

آ گے کیا دیکھتے ہیں ،کہ کچھ کم عقل عوام تو ٹوٹی پڑ رہی ہے سودا تلوا کر گھر لے جانے کو ،اور دودھ و شہد کی نہروں میں تیراکی کرنے کو۔مگر کچھ دکاندار چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں پہلے لائین بناؤ،لائین بناؤ،تاکہ سب کو باری باری عقل بانٹی جا سکے۔البتہ نہریں فری میں ہیں ،عوام عقل کی تقسیم کے بعد جتنی چاہیں مفت میں ڈبکیاں لگا لیں،لیکن عقل کا استعمال کفایت سے کر کے اپنی زندگیوں کو جنت بنائیں ۔مگر سب کو جلدی ہے۔ عقل اپنے اپنے بھیجوں۔معذرت تھیلوں میں ڈالنے کی۔کھوے سے کھوا چِھل رہا ہے۔جیسے کسی زمانے میں بغداد کے بازار رونق اور افراتفری کے لیئے مشہور ہوا کرتے تھے۔

دکاندار مزید کہہ رہے تھے، پیچھے سے آ رڈر آ یا ہے۔پہلا حق" اشرافیہ"کا ہے انہیں پہلے عقل بانٹی جائے گی۔انکے بھوسہ بھرے دماغوں میں ،اور انکی بڑی بڑی گاڑیوں میں بھری جائے گی، تب اگر بچ رہی تو عوام کو تولہ بھاؤ کے حساب سے ملے گی۔ہر گاہ ہمارا جی پھر للچایا کہ ہمت کریں ،اور یہ عقل و دانش اپنے جھولے میں بھر لیں ،تاکہ ہماری زندگی جنت کا نمونہ بن جائے، مگر وائے ناکامی کہ دائیں بائیں شینوں نے بازو دبوچ لیا۔رش ہے کہ بڑھتا جا رہا تھا ،مگر عمائدینِ سلطنت ہٹیلے ثابت ہو رہے ہیں ،ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ بڑے دکاندار نے، جو اونچی نشست پر عقل کی بوریوں کے درمیان کھڑا تھا، جمِ غفیر کو برف کا بلاک بنے دیکھ کر رانا عطاءاللہ کو آ واز دے کر کہا ،آ ئیں سر! بونی کروا دیں، تاکہ عوام و خواص کو عقل بانٹنی شروع کی جائے۔

رانا ساب کو تپ چڑھ گئی۔جیسے نوشتۂ تقدیر پڑھ لیا ہو۔انہوں نے چوہدری انتشار صاحب کی طرف اشارہ کر دیا کہ انہیں ضرورت ہے۔ میرے پاس تو پہلے ہی کافی زیادہ ہے۔چوہدری صاحب بھنا گئے۔ میرے تو اپنے کھیتوں میں اگتی ہے ،میں تو خود ٹھیلا لگانے آ یا ہوں اس اتوار بازار میں،سب کو فری میں بانٹنا چاہتا ہوں۔کافی ذخیرہ بھی کر رکھی ہے ،تم سب میرے ٹھیلے پہ آ جاؤ۔کن اکھیوں سے خواجہ واصف کی طرف دیکھا۔خواجہ صاحب غصے سے، میَں مَیں کرنے لگے۔تمہیں کیا لگتا ہے،میں عقل سے پیدل ہوں؟ میری شوگر ملوں میں روزانہ ٹنوں کے حساب سے عقل کرش کی جاتی ہے۔میں ملاوٹ شدہ بازاری عقل لوں گا؟ ہم انہیں آ پس میں الجھتا چھوڑ کر آ گے کا خواب دیکھنے لگے۔

ایک دکاندار بلال چوہدری کو آواز لگا بیٹھا، بلال چوہدری مڑے اور اس کے گلے پڑ گئے۔دونوں بری طرح دست و گریباں ہوگئے ،ہم نے سوچا یہ جھگڑا لمبا چلے گا اب۔ اس سے پہلے کے ان کے شور سے ہماری آ نکھ کھل جائے،تھوڑا سا خواب اور دیکھ لیں۔آ نیال رمیز کلین شیو کر کے آ فٹر شیو سے مہکتے بڑی تیزی سے جا رہے تھے ،کہ ان کا جرمن برانڈ کوٹ کا بٹن شمیم الحق کی شرٹ کے کاج میں پھنس گیا ،دونوں کی توندیں آ پس میں ٹکرائیں، تو شمیم الحق نے مارے طیش کے آ نیال رمیز کے منہ پر تھپڑ دے مارا۔پھر دونوں آ پس میں گتھم گتھا ہوگئے۔ہم چپ چاپ لائین میں لیٹے اپنا خواب دیکھتے رہے اور کر بھی کیا سکتے تھے۔

حالتِ خواب میں اٹھ نہیں سکتے تھے ورنہ انکی صلح صفائی کروا دیتے۔پیچھے لائنوں میں اچانک شور بلند ہوا ،اور ہم اپنی متجسسانہ فطرت کے ہاتھوں مجبور ہوکر، سوتے ہی میں ایڑھیاں اٹھا اٹھا کر آ نکھیں ادھر ادھر گھمانے لگے۔ہم چاہ رہے تھے،اس سے پہلے کہ ہماری آ نکھ کھل جائے ،ہم زیادہ سے زیادہ طویل خواب دیکھ لیں۔ ناگاہ ہمارے کان ایک عجیب سے شور کی جانب متوجہ ہوگئے۔ریاض الحسن چوہان اس انبوہِ پر کثیر میں گھرے کچھ بول بول کر ہوا میں مٹھیاں پھینک رہے تھے ،اور ارد گرد کا جمِ غفیر پیچ و تاب کھا رہا ہے۔اچانک راجہ صداقت ایک جانب سے وارد ہوئے، سر پہ دھرا ٹوکرا اتارا ،اور آ وازیں لگا لگا کر اپنا سودا بیچنے لگے۔

ہم نے سوچا، اس اتوار بازار میں راجہ صداقت الگ سے کاہے کا ٹوکرا لگائے کھڑے ہیں ،ہم حالتِ خواب میں ہی چل دئیے ،دیکھیں تو سہی ،ہے کیا ٹوکرے میں۔باپ رے باپ، سفید سفید چونے سے ٹوکرا بھرا تھا ،اور عوام کو لگانے کی کوشش کر رہے تھے ،مگر کوئی جاہل سے جاہل آدمی بھی لگوانے کو راضی نہ تھا۔ سو ،انہیں اپنا ٹوکرا سر پر واپس رکھ کے جانا پڑا۔بارے کیا دیکھتے ہیں، کہ ایک صاحب شاہ ویز کثیف کہیں سے اچانک برآمد ہوئے، اور دوسرے صاحب دُراب معید کے منہ پر سیاہی ملنے کی کوشش کرنے لگے۔اس کوشش میں دونوں کے سفید کپڑے کیچڑ میں لت پت ہو گئے۔کچھ دانشوروں نے آ گے بڑھ کر بڑی مشکل سے بیچ بچاؤ کروایا۔

ایک کونے میں ہراول خرداری، نامراد بھلی شاہ اور آ فتاب شاہ بھی کھڑے کچھ تقیسم کر رہے تھے۔ مگر عوام لینے کو راضی ہی نہ تھے۔ہم حیران تھے ،کہ بھیا اس مہنگائی کے زمانے میں اگر چونا مفت میں مل رہا ہے ،تو بھوکی عوام کیوں نہیں لے رہی۔عجیب گڈ مڈ خواب تھا۔عوام کہیں اور سے عقل لینا چاہتی تھی، مگر بیچ میں فالتو گاڑیاں کھڑی رکاوٹ ڈال رہی تھیں۔ہمیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ خواب کو مزید دیکھتے رہیں ،یا اب اٹھ جائیں۔سچ پوچھیں تو بہت مزہ آ رہا تھا، مگر رات بہت گزر چکی تھی۔ روشن سویرا ہونے کے قریب تھا۔ ہم نے سوچا اب جاگ جاتے ہیں۔ہمارے خواب کہیں نہیں بھاگے جا رہے ،اس خواب کو ہضم کر لیں۔ کسی اچھے رضاکار معتبر سے اسکی تعبیر نکلوا لیں، تب آ ئندہ فرصت ملنے پر اگلی قسط دیکھیں گے انشاءاللہ۔

Check Also

Gandum, Nizam e Taleem, Hukumran Aur Awam (2)

By Zia Ur Rehman