Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zaara Mazhar
  4. Hum Khud Se Tang Hain

Hum Khud Se Tang Hain

ہم خود سے تنگ ہیں

چشمہ کے پرسکون اور فطری ماحول میں برس ہا برس رہنے کے سبب ہمارے کان بے پناہ حساس ہو چکے ہیں۔ اور سچی بات ہے، ہم اپنے کانوں کی حساسیت سے بے پناہ تنگ ہیں۔ ذرا سی ہوا چلنے سے کھڑکنے لگتے تھے۔ کہاں تو ہمارے کان نغمۂ گل و بلبل سننے کے عادی تھے۔ پرندوں کے چہچہوں کے درمیان، گلہریوں کی نوکیلی آ وازیں سمع خراشی محسوس ہوتی تھیں۔ پوپی کی کلیوں سے پھول بننے کی انتہائی ہلکی آ واز بھی ہمارے کان کے اینٹینا پکڑ لیتے، کجا یہ عالم ہے کہ جس جگہ آ شیانہ بنا ہے دھڑا دھڑ تعمیرات ہو رہی ہیں۔ چوبیس گھنٹے ٹھک ٹھک، ٹُھک ٹُھک، چڑاؤں چڑک ہوتی رہتی ہے۔ پاس پڑوس میں گہرے سے گہرا بور کروانے کا مقابلہ رہتا ہے۔ ہم ٹہرے امن پسند فطرت کے عاشق۔ ایک کرب اور تکلیف میں مبتلا رہتے ہیں۔

کہاں رانا صاحب کے جامن کے درخت کے پتوں کے گرنے کی آ واز سے ناراض رہتے تھے۔ انکے درختوں پر بولتے کاگا، ہم سے برداشت نہیں ہوتے تھے۔ صحن میں چلنے والی خوشبو دار پُروا سے ہم باقاعدہ ناراض ہو جاتے تھے، اور کہاں یہ اسلام آباد کی تعمیراتی دہشت گردی۔ جو لوگ اسلام آباد کو پرسکون شہر کہتے ہیں، عبث دھوکہ دیتے ہیں۔ لگتا ہے ٹھیکداروں کو کہیں اوپر، بہت اوپر سے ٹھیکہ ملا ہے کہ اسلام آباد کا چپہ چپہ، بلکہ انچ انچ تعمیر کر ڈالو، آ ئندہ پوری دنیا یہیں بسے گی، ہمیں تو شک ہے شاید قیامت بھی یہیں قائم ہو گی، آخر کو ریاستِ مدینہ کا دارالحکومت ہے۔ جنتِ ارضی پر مٹی کے خوبصورت ٹیلے اور پہاڑ، سب کاٹ پیٹ کر برابر کر دئیے اور سہ منزلہ عمارتیں کھڑی کر ڈالی ہیں۔

ہماری دنیا میں سکون اور فطرت شناسی چانچنی ہو تو چشمہ اور گرد و نواح یا پہاڑوں کو مسکن کیجئے۔ پہاڑوں پہ زندگی اب بھی فطرت سے آہنگ رکھتی ہے۔ سچے، کھرے، سادہ فطرت لوگ جیسے ابھی ابھی جنت سے زمین پہ اتارے گئے ہوں، کہ جا بندے کم سے کم پہاڑوں پہ تو فطرت کو زندہ رکھ۔ ہمارے کانوں کی حساسیت کا یہ معاملہ ہے، کہ دسترخوان پہ کوئی مولی کَچر کَچر کرے تو ہمارے گُوش لمبے ہو کر خرگوش ہو جاتے ہیں۔ سو اپنے دستر خوان پہ ہم رکھتے ہی نہیں۔ لیکن کیا کیجئے جب کہیں مہمان ہوں تو، ببل گم چبانے والے کے منہ کے زاویہ جات اور ببل کا پٹاخہ برداشت نہیں ہوتا۔ اگرچہ کسی زمانے میں ہم خود chain bubblerچین ببلر رہے ہیں۔

کوئی مونگ پھلی اپنے کمرے میں چھیلے، کھائے ہمارے کان کھڑے ہو کر کھڑکھرانے لگتے ہیں۔ اور چائے سڑکنے کی آ واز۔ لگتا ہے صاحبِ نوش ہمارے کان کے اندر بیٹھ کر شوق و شغل فرما رہے ہیں۔ جبکہ بازپرس پہ عادی چائے نوش تاویل دیتے ہیں، کہ جب تک چائے سُڑکی نہ جائے، بڑے سے بھاری مگ میں چار چمچ چینی کے ساتھ، منہ بھر بھر گرم گھونٹ نہ بھرے جائیں، سواد ادھورا رہتا ہے۔ یہ موئے نزاکت سے سِپ بھرنے والے، چائے کے اصل ذائقے سے محروم رہتے ہیں۔ ہم ایسی ہی جوابی رائے انکے بارے رکھتے ہیں اور بڑی شدت سے رکھتے ہیں، کہ چائے چپکے سے، نزاکت سے، سفید و سنہری پیالیوں میں اور تمیز سے جرعہ جرعہ پینے کا ذوق ہے۔ جیسے لکھنوی معاشرت کا پاندان رکھنے کا سلیقہ۔

چپل گھسیٹ کر چلنے والے پر تو ہم ضبط کھونے لگتے ہیں، اور کوئی ناگہانی آ واز، جیسے سڑک پہ پٹاخہ پھوٹے، تو ہم گھبرا کر چیخ ہی پڑتے ہیں۔ دل کی دھڑکن بے قابو ہوکر پسلیوں کا مضبوط پنجرہ توڑنے پر مچل جاتی ہے۔ کچن میں محویت سے مصروف ہوں اور کوئی ہماری لا علمی میں، رُخ کے عقب سے کسی ضرورت کے تحت آ جائے تو ہم غش کھا بیٹھتے ہیں۔ اسی لئیے اپنے منہ سے کہتے ہیں، ہمیں برداشت کرنا کوئی آ سان کام نہیں۔ ہمارے لواحقین کی برداشت کو سات سات سلامیں۔ سفر میں ہوں تو گاڑیوں کے انجن کے شور سے ہمارے کان بند ہو جاتے ہیں۔

بچے تعلیمی دور کے اس حصے میں ہیں، کہ ہمیں اور ہمارے صاحب کو اکثر اکیلے اکیلے سفر کرنا پڑتا ہے۔ جب ہم سفر پہ ہوں تو ہمارے اگلے اور پچھلے ہمیں، موبائیل قبر جیسی کسی روڈ لائینر، ڈائیوو یا شٹل سروس کے حوالے کر کے، ایک دوسرے کو فون کر کر کے پریشانی سے بد حواس ہوئے جاتے ہیں، ہم بد مزگی سے کان سُن کئیے ٹُن ہوتے ہیں۔ کچھ سنائی نہیں دیتا۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں ہوں تو ہاتھ ہلانا کفر سمجھتے ہیں، کہ ہاتھ اِدھر اُدھر کسی پارٹیکل کو چھو گئے تو ہر چیز دھونی پڑے گی۔ اسی ڈر سے ہاتھ تہہ دے کر بغل میں داب لیتے ہیں۔ ٹانگیں اور منہ اکڑا لیتے ہیں، جیسے کوئی پتھر سیٹ پہ دھرا ہو۔ دو سیٹس لیتے ہیں، لیکن آ دھی پر بیٹھتے ہیں۔ اس بنا پہ کچھ زیادہ ہی تھک جاتے ہیں۔

موبائیل بھی نہیں نکالتے۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے، ہم ربّ کی اس رنگ برنگی دنیا میں ایک مشکل و عجیب نمونہ ہیں۔ عام خواتین کی طرح میکے، بازار میں چلے جائیں تو واپسی کا رستہ بھول جاتے ہیں۔ گھر والے بیچارے دسترخوان سجائے کھانا ٹھنڈا کر بیٹھتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں، مہنگائی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے (کاش یہ شور بھی کہیں بِکتا ہوتا تو ہم اپنے کانوں میں جمع ہونے والا تمام کا تمام کہیں بیچ باچ کر ہاتھ کے دو کنگن بنوا لیتے) ہم کانوں میں مفت کا بازاری شور و غوغا ڈالے بوجھل سے، بہرے ہوئے وے ہوتے ہیں۔ گھر آ کر ہر بار ماں سے لفظی چھترول بھی ہوتی ہے، کہ فون اٹھا کر بتا تو دیا کرو کہ تمہارا انتظار نہ کیا جائے۔

مگر تم تو مچھلی بازار میں مچھلیاں ہی پکڑنے کھڑی ہو جاتی ہو۔ (مچھلی کا شوقیہ شکار کھیلنا ایک انتہائی صبر آ زما کام ہے، اسی جانب اشارہ ہوتا ہے والدہ محترمہ کا) کئی بار ماں کو بتا چکے ہیں کہ مچھلی بازار میں اب مچھلی تو کیا، اس کا چانا بھی نہیں ملتا۔ ماں ہر بار بھول جاتی ہیں، اور چھوٹے بھائی بھابھی کے سامنےلوہے کے دندانے دار برش جیسی عزت افزائی سے، ہماری غفلت و غیر ذمہ داری کے چانے(scales)اتارنے لگتی ہیں۔ ہم خفت و ڈھٹائی سے پوچھتے رہ جاتے ہیں۔ ہمارا قصور تو بتائیے والدہ؟

(ضروری نوٹ)

1۔ مچھلی بازار گوجرانوالہ کے مین بازار، گھنٹہ گھر کے اندر مشہور بازار ہے، جہاں پندرہ بیس سال پہلے تک، شہر کی بہترین اور ہمہ قسمی تازہ مچھلی ملتی تھی۔ ساتھ ہی جڑی ہوئی سبزی منڈی اور انکے عقب میں ڈرائی فروٹ کی بہت بڑی منڈی تھی۔ اس لئیے مچھلی بازار والے چوک میں کھوے سے کھوا چھلتا تھا۔ پرانے لوگ اب بھی اس چوک کو مچھلی بازار ہی کہتے ہیں۔

2۔ چانے، مچھلی کی جلد پر سخت چِھلکے (scales)، جنہیں مچھلی فروش لوہے کے دندانے والے برش سے کُھرچ کر اتارتے ہیں۔

Check Also

Hum Mein Se Log

By Najam Wali Khan