1.  Home
  2. Blog
  3. Zaara Mazhar
  4. Hum Aur Bas Hum

Hum Aur Bas Hum

ہم اور بس ہم

ہم بھی عجیب ہیں اتنے عجیب کہ لوگوں نے ہم پہ لکھنا شروع کر دیا ہے کہ ہم نے گزرے دو ڈھائی برسوں میں مختلف سوسائٹیز میں اتنے گھر اور پلاٹس دیکھے ہیں جتنے اور جیسے شہزادے بیٹے کی مائیں لڑکوں کے رشتے دیکھنے جاتی ہیں۔ لڑکی کی تلاش میں لوگ کنوؤں میں بانس ڈلواتے ہم نے وہی بانس گھر کی تلاش میں ڈلوائے اور الحمداللہ اتنے ہی نقص نکالے جتنے چائے سموسے اور کباب ڈکارنے کے بعد لڑکے والے وچولن کے سامنے لڑکی اور اسکے گھر والوں میں نکالتے ہیں ہم بھی ڈیلرز کو جب انکار کی وجہ بتاتے ہیں تو وہی فیلنگز آتی ہیں۔ کوئی ویک اینڈ خالی نہیں گیا کہ ہم نے گھر یا پلاٹ نہ دیکھا ہو۔

جڑواں شہروں کی گلیوں اور سڑکوں کی اترائیاں چڑھائیاں ایسی ہیں کہ چڑھتے سانس پھولتا ہے اور اترتے ہوئے وہی سانس لڑھکتا ہے۔ اسلام آباد میں یہ صورت حال قدرے کم ہے لیکن پنڈی میں اللہ معاف کرے جتنے بھی پرانے گھر، گلیاں، محلے بنے ہیں بھوت بسیروں کا خیال آتا ہے۔ پانی کی شدید قلت ہے پہاڑوں اور ٹیلوں کو کاٹ کاٹ کے گھر بنے ہیں جن کی بوسیدہ باقیات ابھی تک ارتقائی مراحل میں ہیں نئی سوسائٹیز کی بات الگ ہے کہ پلانڈ ہیں۔

رات کے وقت چھت پہ چڑھیں تو پرانا پنڈی جگنوؤں کی طرح جگمگاتا ہے روشنیوں میں دور سے نظر آنے والے پہاڑوں پہ بنے گھر ایسے معلوم پڑتے ہیں جیسے کسی نے عجلت میں بے ترتیبی سے بک شیلف میں رنگ برنگی کتابیں ٹھونس دی ہوں۔ موڈ اچھا ہو تو یہ بے ترتیبی پرکشش بھی لگتی ہے۔ اسلام آباد میں یہ صورت حال قدرے کم ہے مزے کی بات یہ ہے کہ ہم کتنی بھی اونچی سوسائیٹی میں رہتے ہوں لگتا ہے میدان میں ہی کھڑے ہیں۔

ایک گھر اتنی ڈھلان پہ واقع ہوتا ہے جیسے بیسمنٹ ہو اللہ کی شان کہ ساتھ والا گھر ایسے کھڑا ہے کہ پہلے گھر کا فسٹ فلور اور دوسرے گھر کا گراؤنڈ فلور برابر ہیں۔ یہ نشیب و فراز اور ہر گلی محلے اور سوسائیٹی میں عام ہیں۔۔ آپ واک کرنے نکلے ہیں اور مزاج چونچال ہے تو یہ نشیب و فراز بہت اچھے لگتے ہیں لیکن اکثر اکتاہٹ ہو جاتی ہے ٹانگوں کے مسلز کھچ جاتے ہیں۔ میرے خیال سے یہی وجہ ہے کہ یہاں کے لوگوں کے پیٹ زیادہ باہر نہیں نکلتے۔۔

میں جس سوسائیٹی کے اے بلاک میں رہتی ہوں اس کا ایف اور ایچ بلاک بارہ چودہ فٹ نیچائی پہ ہے۔ لیکن تعمیرات ایسی ہیں کہ کبھی اندازہ نہیں ہوتا کہ میں پہاڑ پہ رہ رہی ہوں۔ موسم بھی اسی لحاظ سے گلیوں تک میں سرایت کرتا ہے۔ ہمارا گھر سردی گرمی میں ٹھنڈا رہتا ہے لیکن بی اور سی بلاک میں کافی فرق ہے۔ وہاں رہنے والی ایک دوست کے گھر کے لان میں کھڑے ہوں تو چند گز دور شالیمار روڈ اور لان کا لیول برابر ہے دور سے چلتی روڈ اور مرکز لان میں سے ہی نظر آتے ہیں۔

روز مرہ آنے جانے کی سڑکیں بیس پچیس فٹ کی اترائی اور چڑھائی میں ہیں کہیں اس سے بھی زیادہ ہوں گی۔ موجودہ سری نگر ہائے وے(کشمیر روڈ)کو ہی لیں سیدھی روڈ پہ اونچائی پہ نظرآنے والی گاڑیاں دھوپ میں یوں لگتی ہیں جیسے کسی نے سڑک پہ رنگ برنگے شیشے کوٹ کے ڈالے ہوں اگلے پانچ منٹ میں ہم بھی ان ٹکڑوں کا حصہ ہوتے ہیں اور آگے مزید کانچ ہی کانچ۔۔

گھر دیکھنے سے بات شروع ہوئی تھی اب کسی گھر کی کنسٹرکشن پرانی ہے تو ریجکیٹ۔۔ کسی کی تعمیر پسند آئی تو لوکیلیٹی ناقابلِ برداشت۔۔ کسی کی تعمیر میں سیاہ اعمال نامے کی طرح گھٹیا مٹیریل درج کر دیا گیا ہے تو کسی گھر کا رخ پسند نہیں۔ کسی میں بورنگ اور سوسائٹی کا پانی نہیں، گیس نہیں۔۔ کسی گھر میں چوکور کی بجائے نوکدار کمرے ہیں۔ کوئی بلیو ایریا سے کوسوں میل پرے ہے (صاحب کی جائے نوکری) تو کوئی بٹیا کی یونی سے کئی کلومیٹرز کی چکردار دوری پہ۔۔۔ سب کچھ مل جائے تو ڈیمانڈ اتنی ہے کہ ہمارے منّے سے بجٹ کے پوائنٹس سٹاک ایکسچینج کی طرح اوندھے منہ جا گرتے ہیں الغرض کسی گھر کی ناک بہہ رہی کسی کی رال۔۔ کسی گھر کا منہ نہ متھا جن پہاڑوں لتھا ہے۔۔

خیر گھر تو لیتے رہیں گے اللہ کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے دیر سویر ہو ہی جاتی ہے۔ ہم گھر دیکھ دیکھ کے اور نقص نکال نکال کے اتنے تھک چکے ہیں کہ صحیح معنوں میں ہمارے کس بل نکل چکے ہیں اب سوچ لیا ہے جب بچے کی شادی کی باری آئے گی ہم اپنی جوتیاں مزید نہیں گھسائیں گے بیٹے کی پسند کو ترجیح دیں گے اور چپ چاپ لڑکی بیاہ لائیں گے۔

Check Also

Amma Ke Niwari Palang

By Tahira Kazmi