Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zaara Mazhar/
  4. Hum Ache Hain

Hum Ache Hain

ہم اچھے ہیں

گزر جانے والی ہر عید اپنے ساتھ کتنی کہانیاں چھوڑ جاتی ہے۔ خاندان چاہے پورا سال نہ ملیں لیکن عید کے موقعہ پر لازمی ملتے ہیں آج اس کے گھر دعوت تو کل اس کے گھر عید ملن پارٹی، کھانے اور دعوتیں تو بہانہ ہوتی ہیں اصل مقصد ایک دوسرے کے حالات سے جانکاری ہوتی ہے۔

سال بھر میں ہونے والی شادیاں، جینے مرنے، طے پائے رشتے، بچوں کی تعلیم اور نوکریاں ایک دوسرے سے متعلق سب سے آگاہی ملتی ہے کھانے پینے اور ملنے ملانے کے بعد کئی طرح کی گپ شپ چلتی ہیں جیسے:

چھوٹی سنو، بڑی آپا نے کھنگھار کے خاص گفتگو کا آغاز کیا، جی بڑی آپا۔

بڑی آپا، یہ گھر کی صفائی جھاڑ پونچھ ابھی تک ماسی سے کیوں کرواتی ہو بڑی آپا کی نظر نے شرقاً غرباً گھر کا احاطہ کیا اب تو خیر سے گھر میں بہو بھی ہے، چھوٹی، بس دل نہیں کرتا تھکن ہو جاتی اور صفائی ستھرائی والا کام مجھ سے خود تو کبھی ہوا نہیں بہو کو کیسے لگا دوں جھاڑو پونچھا ہی کروانا تھا تو ایک ماسی اور لاتی بہو تو نہ لاتی

مجھے گندی مندی پسینے میں نہائی دلہن کبھی اچھی نہیں لگتی۔ بہو تو شیشے کی طرح چمکتی دمکتی اچھی لگتی ہے۔ بڑی آپا، ہم اچھے ہیں ناں آج تک کسی کام والی کو گھر میں نہیں گھسایا گھر کی اونچی نیچی باتیں محلے بھر میں گھومتی ہیں۔ ہماری دونوں بہوویں ہی کرتی ہیں اچھا ہے مصروف رہتی ہیں ورنہ میرے سر پہ ایک بال نہ چھوڑیں۔

تم تو خیر شروع سے ہی بگڑی تگڑی ہو اپنی شادی کے وقت سسرال میں یوں گھل مل گئی تھی جیسے قفس سے جان چھٹی ہو آپا نے نخوت سے ناک سکوڑی، بڑی، کپڑے ابھی بھی درزی سے سلواتی ہو کہ خود سلائی کرتی ہو شادی سے پہلے تو خاندان بھر میں تمہاری ڈیزائنگ مشہور تھی۔ چھوٹی، جی درزی سے ہی سلواتی ہوں اتنا جھنجھٹ اب نہیں ہوتا۔

بڑی، ہم اچھے ہیں ناں خود ہی سی لیتے ہیں درزی تو اِتّی اِتّی سلائیاں ٹھگ لیتے ہیں اور بچا ہوا کپڑا بھی واپس نہیں کرتے ہم تو ساری کترنیں جمع کر کے رکھتے ہیں الماری بھر گئی اب تو، تمہارے بھائی کہہ رہے تھے بیوی یہ اتنی بڑی الماری کیا کترنیں بھرنے کے لئے بنوائی تھی کپڑے ٹانگنے کو جگہ نہیں ملتی، بڑے گھنے ہیں ہنستے ہنستے چوٹ مار دیتے ہیں کلیجہ جلا کے رکھ دیتے ہیں۔

بڑی، تم نے بہو کے کمرے میں بھی اے سی لگوا دیا تاکہ کمرہ بند رکھنے کا بہانہ ملا رہے اور سسرال والے لمبے لمبے بل بھرتے رہیں۔ ادھر کی ہر خبر اماں کو پہنچاتی ہوں گی ہے کہ نہیں؟ ہاں آپا گرمی بہت پڑ رہی ہے غریب کا کمرہ دھوپ کے رخ پہ ہے اچھا نہیں لگتا کہ ہمارا کمرہ ٹھنڈا ہو اور نئی نویلی بہو دھوپ میں جلتی رہے۔

یہاں کسی کے کون سے کالے کرتوت ہیں جو ہم نے چھپانے ہیں اور ہم کونسا بہو پہ ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں جو یہاں کی خبریں وہاں پہنچانے کے ڈر میں رہیں کچھ اچھا ہی بتاتی ہوگی، بڑی، ہم اچھے ہیں ناں یہ علت ہی نہیں پالی بجلی ہو بھی تو اکثر پنکھا بند کر دیتے ہیں کہ بل کم آئے دیکھا دیکھی مروت میں بہوؤں کو بھی بند کرنا پڑتا ہے اور کمرہ بھی کھلا رہتا ہے چلتے پھرتے سب خبر رکھتی ہوں کہ کمرے میں کیا ہو رہا ہے۔

بڑی، تم نے بہو کو اتنا سر کیوں چڑھایا ہوا ہے اگلی بات کہنے کے لئے آپا کا نیا کھنگھورا یقیناً تمہید کے بعد اب بلی تھیلے سے باہر آنے والی تھی، اسے خاندان بھر کا تادیبی سوال سمجھو ایک اور کھنگھورا کیوں بہو کو مکمل چھوٹ دے رکھی ہے جیسے تمہاری بیٹی ہو، گود میں ہی گھسی جارہی ہے پورے گھر پہ قابض ہوئی جارہی ہے۔

اے چھوٹی کب عقل آئے گی تمہیں خاندان بھر میں کیا انوکھی بہو لائی ہو تم، اسے اس کے کمرے تک ہی محدود کرو سو طرح کی آپس کی رازداری کی باتیں ہوتی ہیں لاتے ہی سب کھول کھال کے سامنے رکھ دیا کنجیاں ہی تھما دیں سیاہ کرے یا سفید اے کہیں تو پردہ رکھا ہوتا، چھوٹی، بڑی آپا اتنی تو اچھی ہے بالکل بیٹی ہی لگتی ہے میری بیٹی نہیں تھی پلی پلائی مل گئی بیٹی کا سکھ کیا ہوتا ہے اب جانا۔

اتنا ادب آداب لحاظ کرتی ہے گھر بار چھوڑ کے ہمارے لئے آئی ہے اتنی محبت تو کبھی بیٹوں نے نہیں کی میرے اکیلے کے خیال سے میکے نہیں جاتی۔ مجھے کچھ کرنے ہی نہیں دیتی، ایسے سٹائل بنا بنا کے میرے چھوٹے بالوں کے جوڑے بناتی ہے کہ مزہ آجاتا ہے کس جوڑے کے ساتھ کیسا جوتا اور پرس اچھا لگے گا بتاتی ہے۔

سچی پوچھئے مجھےد تو اب خاندان بھر میں ملنے ملانے کی فرصت ملی ہے میرا سدا کا لڑکوں والا مصروفیت زدہ گھر تھا کبھی کوئی ہاتھ بٹانے والا نہیں تھا نکلنے کی فرصت ہی نہ ملتی تھی۔ عید شبرات پہ بھی نہ چوڑی کی چھنک نہ گوٹے کی دھنک نہ پائل کی چھم چھم نہ کوئی جلترنگ سی ہنسی، بہو تو سُونے گھر میں افشاں کی طرح چمکتی ہے

گھر میں اسکے سنہری قہقہے گونجتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے گھر بھر چاندنی سی بکھری ہو، ہم ساس بہو نے تمام روزے سفید ابرق والے کپڑے اور چوڑیاں پہنیں۔ ابھی عید پہ بھی اس نے دونوں دیوروں اور سسر کو دوڑائے رکھا کبھی مہندی کی کون کی نوک پسند نہیں آئی کبھی چوڑیوں کے پسندیدہ شیڈ پہ بھگایا دوپٹوں کے پلو بارہ بجے بن کے آئے۔

خود کچن میں گھسی مجھ سے پوچھ پوچھ کے شیر خرما اور مکھڈی حلوہ بنا رہی تھی جانے آنے سےگھر میں بھمبھیری جیسی ایک ہلچل مچی رہی، اخیر دم تک اس کے کام ہی پورے نہیں ہو رہے تھے معلوم پڑ رہا تھا چاند رات ہے ورنہ ہم تو سر شام ہی پڑ جایا کرتے تھے سچی پوچھئے بڑی آپا چاند رات کا لطف آگیا۔

بڑی، ہم اچھے ہیں بہوؤں کے نرخرے پہ پاؤں رکھا ہے ذرا سی ڈھیل دوں تو اپنی مرضیاں کرنے لگیں۔ میری شکل دیکھ کے سانپ سونگھ جاتا ہے خاندان بھر میں میرے رعب کی مثال دی جاتی ہے۔ بھئی خدا لگتی کہوں گی بہو کبھی بیٹی تو نہیں بن سکتی بہوؤں کو رکھنے کے طریقے ہوتے ہیں تم کوئی انوکھی ساس نہیں بنی ہو نہ ہی کوئی شہزادی بیاہ کے لائی ہو۔

ذرا دبا کے رکھا کرو تم خاندان بھر کی بہوؤں کو بگاڑو گی، ایسے ہی خاندانوں کے زوال شروع ہوتے ہیں خاندان بھر کی بہوویں دبے دبے تمہاری مثال دینے لگی ہیں اور اجالا کی قسمت پہ رشک کرنے لگی ہیں پھر یہیں سے بغاوت شروع ہوتی ہے۔ برا مت ماننا بڑی ہوں ٹھنڈے دل سے غور کرنا اسے خاندان بھر کی طرف سے سرزنش سمجھنا لاؤ میرا عبایا چلتی ہوں۔

Check Also

Insaan Rizq Ko Dhoondte Hain

By Syed Mehdi Bukhari