Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zaara Mazhar
  4. Hamari Kuch Mazhabi Rawayat

Hamari Kuch Mazhabi Rawayat

ہماری کچھ مذہبی روایات

جن گھروں میں پرانے بزرگ یعنی بزرگوں کے بزرگ حیات ہیں وہ گھرانے زبردستی ہی سہی کچھ نہ کچھ مذہبی جوش و خروش اور روایات زندہ رکھے ہوئے ہیں، وہاں سب کو محرم الحرام کا احترام یاد رہتا ہے، شب برات کی اہمیت و برکات رواں ہیں عید، شب برات اور ہر خوشی کے موقعہ پر داغ مفارقت دے جانے والوں کے عزیزوں کو باقاعدہ پرسہ دینا اور اجتماعی طور پہ یاد کرنے کی روایت کم کم ہی سہی زندہ ہے، بزرگ یہ سب تہوار اور ان سے جڑی نزاکت ابھی بھی یاد رکھتے ہیں۔

جہاں بڑے بزرگ نہیں رہے ان گھروں میں انفرادی طور پہ مذہبی روایات چپ چاپ رخصت کر دی گئی ہیں۔ کچھ روایات و عبادات کو بدعت اور بدعتی ہونے کا ٹھپہ لگاتے لگاتے زندگی سے مذہب کو بالکل ہی نکال کے گوشہ نشین کر دیا گیا ہے۔ ماڈرن اور تعلیم یافتہ ہونے کے چکر میں ہم جدید بزرگوں نے روایات نہیں سنبھالیں۔

بچپن میں شب برات میں رات کو نوافل کے لئے جاگنا اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے مقابلے بازی ہوتی تھی جب تک کہ ٹانگیں لڑکھڑا نہ جاتیں۔ پھر سحری کھا کے دن چڑھے تک سوتے رہنا ہر کوئی سمجھتا اور رعایت دیتا تھا لیکن اب یہ جاگنا دنیاوی پڑھائی اور ڈگریز اور دنیا کے حصول کے لئے ہوگیا ہے اور ہم جدید بزرگ اس بات کو سمجھتے ہیں اور بچوں کی رات بھر مشقت کا سوچ کے دن کے آرام کا خیال رکھتے ہیں۔ آٹھویں، نویں اور دسویں محرم کو زیادہ تر عوام روزے سے ہوتی تھی اب بھی بچے ڈائیٹنگ کے نام پہ بھوکے رہتے ہیں، روزے کی برکت اور روحانی تقویٰ ندارد ہے۔

ایک دوسرے کے گھروں میں شرینی، حلوے اور پلاؤ کی قابیں سرپوش سے ڈھک کر بھیجنے کی روایت تھی۔ مجھے یاد ہے محرم کے احترام میں پی ٹی وی پہ دس دن کوئی ڈرامہ یا موسیقی کا کوئی پروگرام آن ائیر نہیں کیا جاتا تھا، لوگ جمعرات کو اپنے پیاروں کی قبروں پہ پھول ڈالتے اور سال کے سال قبروں پہ مٹی ڈلواتے تھے۔ دس دن گھروں میں پانی کا استعمال امام حسینؓ کی فرات کے کنارے کی پیاس کی یاد میں کم کر دیا جاتا تھا۔ گھروں میں حسیؓن ابن علیؓ کی مشکلات کے کئی قصے دہرائے جاتے تھے تاکہ ہمارے دل اپنے مذہب سے معمور رہیں دلوں کو رقت انگیزی کی عادت رہے۔

کونڈوں کا ختم دلوایا جاتا تھا۔ عام زندگی میں گھروں، مساجد اور ٹی وی پہ بھی شبینہ محفلوں کا انتظام کیا جاتا تھا۔ ربیع الاول کے ختم گھروں میں بھی دلوائے جاتے تھے پنجاب میں اب ربیع الاول مذہب سے زیادہ ایک معاشرتی تہوار کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ لوگ یہ ختم سڑکوں پہ باجے گاجے اور ڈھول کی تھاپ پہ دلواتے ہیں۔

خصوصاً اندورن لاہور میں جگہ جگہ شہریوں کو مفت طعام کی دعوت ہوتی ہے۔ فیملیز اور خواتین میک اپ اور چمکیلے کپڑوں سے لت پت کھانے پینے نکلتی ہیں۔ اور تو اور پچھلے برس تو جنت کی حور بھی بھول بھٹک کے یا گھبرا کے دنیا میں آن وارد ہوئی تھی افسوس ہوتا ہے اب زندگی میں کھانا پینا اور پہننا اوڑھنا اور تماشے لگانا ہی سبقت رکھتا ہے۔

رمضان کے اہتمام میں سے فقر و سادگی کم کر کے روزے کا مقصد ہی ہلکا کر دیا گیا ہے۔ عمل میں بھلے اونچ نیچ ہو جائے لیکن ثواب تو نیتوں پر ملتا ہے۔ تراویح پہ آٹھ اور بیس کی فرضیت پہ بحث چلتی تھی لیکن روز روز کے جھگڑوں سے بچنے کے لئے تراویح کو فرض کے درجے سے نکال کے مرضی کے درجے پہ رکھ دیا گیا۔ مرضی کا بھینسا تو تن آسانی ہی مانگتا ہے پھسکڑا مار کے بیٹھ جاتا ہے اب تراویح کون یاد رکھتا؟ نفلی عبادات یاد ہی نہیں رہتیں شبینہ عبادتیں سوشل میڈیا نگل گیا۔

رب سے دل کی مراد مانگنے کا اور قبول ہونے پہ شکرگزاری کے لئے بہترین ذریعہ کسی شرینی سے بچوں کا منہ میٹھا کروایا جانے کا عام اور مقبول طریقہ تھا، جو چپکے سے متروک ہی ہوگیا ہے۔ پھر ہم رفتہ رفتہ مہذب ہوگئے۔ مذہب زندگیوں سے نکل گیا اور آج اس مقام پہ کھڑے ہیں کہ کئی پچھتاوے دامن گیر ہیں۔

فضا آلودہ ہے، آسمان گدلا ہے، دل میلا ہے، دامن خالی ہے، ہر طرف ایک ہنگامہ اور شور ہے، زندگیوں میں سے مہر، محبت اور خلوص کی شرینی نکال کے اسے پرتکلف اور کمرشلائز کر دیا گیا۔ یہ تکلفات ابھی اور کتنے مہذب ہوں گے؟ اگلی نسلیں دیکھیں گی۔

Check Also

Bloom Taxonomy

By Imran Ismail