Hain Jahan Mein Ache Log Abhi Baqi
ہیں جہاں میں اچھے لوگ ابھی باقی

پچھلے برس دسمبر میں ہماری ایک کراچی سے تعلق رہنے والی دوست عالیہ نے اپنے بیٹے کی شادی طے کی انکی چھوٹی بہن سعدیہ ہماری چشمہ سے دوست ہیں، ہمارے درمیان بہت اچھی دوستی اور کافی بے تکلفی ہے، ہم وہاں بھی برابر برابر ہی رہتے تھے یہاں بھی یہی صورت حال ہے۔ عالیہ اکثر چشمہ آتیں اور بہن کے ہاں طویل قیام کرتیں، یوں سعدیہ کی نسبت سے ہم بھی انہیں بلاتکلف صرف عالیہ جی ہی کہتے ہیں۔
بیٹا پڑھ لکھ کر مکینیکل انجینئر بن گیا اور ساتھ ہی اٹامک انرجی کمیشن میں گریڈ 17 میں جاب لگ گئی، اب عالیہ جی کو بیٹے کی شادی اور بہوکی تلاش تھی۔ ابھی اپنے منہ سے بات نکالی ہی تھی کہ ایک جاننےوالی خاتون نے اپنی بھانجی کا رشتہ بتایا وہ بچی بھی انجنئیر تھی۔ عالیہ جی بھانجی کی خالہ کے ساتھ لڑکی کے گھر گئیں، اپنے بیٹے کی تعلیم اور جاب کا بتایا اور شربت کے گلاس پہ سیدھا رشتہ ڈال دیا، اٹامک انرجی والوں کی ایک دھوم ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے دھوکہ دہی نہیں کرتے ان کے محکمے کا پن نمبر انکے خاندان کی تمام تفصیلات کی بنیاد سے لیکر عمارت تک کا پتہ دیتی ہے جیسے مرضی کھوج لیں، نام ہی کافی ہے۔
اگلے روز ہاں کا جواب آگیا، اب عالیہ جی نے کیا کیا کہ لڑکی والوں سے کہا ایک روپے کا جہیز درکار نہیں ہے کیونکہ میں نے بری نہیں بنانی البتہ میرے پاس اپنے کافی زیورات کے سیٹ رکھے ہیں، وہی اجلوا کے پہنا دوں گی۔ ہمیں پچھلے برس گھر الاٹ ہوا تھا، میں نے کمروں کے اور ضرورت کے حساب سے نیا فرنیچر بھی ڈلوایا ہے اور بیٹے نے گاڑی بھی قسطوں پہ لی ہے۔ بیٹا گاڑی کی قسطیں پہلے ہی بھر رہا ہے۔ بّری کی مد میں لیا گیا ادھار ہمیں زیر بار کر دے گا بیٹا جوان ہے برسرروزگار ہے شادی کی عمر ہے اب بری جوڑنے کی خاطر بیٹے کو کنوارا نہیں رکھ سکتی۔
جہیز آکے جگہ گھیر لے گا ہمیں چلنے پھرنے اورگھر کو استعمال کرنے میں دقت ہوگی سامان ڈبوں میں بند ادھر ادھر رلتا پھرے گا اس لئے اسے ہماری مہربانی نہیں اپنا احسان سمجھیے گا۔ چھ ماہ بعد شادی کی تقریب رکھی گئی، سعدیہ فیملی کے ساتھ جہاز پہ کراچی کو روانہ ہوئی۔ پچیس ہزار شادی کی مد میں حصہ ڈالا اور بہن کے ہاتھ پہ رکھ دیا، تیسری بہن نے دس ہزار دئیے اور عالیہ جی کے بھائی بھی دس ہزار روپوں کے حصے کے ساتھ شریک ہوئے۔
بارات گئی اور دلہن لے کے آگئی، دلہن کے ساتھ صرف دو سوٹ کیسوں میں اس کا ذاتی سامان اور جوڑے تھے۔ دلہن کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اپنے گھر کے مطابق اچھا سا استقبال کیا اور دلہن کو اس کے کمرے میں پہنچا دیا گیا۔ دلہن سسرالیوں کے حسن سلوک اور اپنائیت سے بے حد متاثر ہوئی۔ اگلے دن گھر میں عالیہ جی کے صرف سگے بہن بھائی موجود تھے۔ دلہن کمرے سے باہر آئیں اور کچن میں ساس اور خلیا ساس کے ساتھ ناشتہ بنانے میں مدد کی، ہلکا پھلکا ہنسی مذاق بھی ہوتا رہا جس سے اجنبیت کی دیوار کہیں دور پرے جا گری۔
ولیمہ کے بعد عالیہ جی کے سب بہن بھائی گھروں کو نکل رہے تھے کہ انہوں نے بہن بھائیوں کو انکی دی ہوئی رقوم بڑی محبت سے اپنی طرف سے تحفہ کہہ کر لوٹا دیں کہ بیٹے کی شادی کی خوشی میں یہ اپنی طرف سے دے رہی ہوں یوں بھی میں سب سے بڑی ہوں تم سب کا حق ہے۔ میں نے بیٹے کی شادی کا بار کسی کے اوپر نہیں ڈالنا کیونکہ میں خود بھی زیر بار نہیں ہوئی تم لوگوں کی شرکت ہی سب سے بڑی بات ہے۔
سال بھر ہوگیا ہے، شادی کے وقت دلہن بھی جاب پہ تھی اور ورک فرام ہوم کر رہی تھی۔ اب تمام فیملی ہنسی خوشی رہ رہی ہے۔ موجودہ زمانے کے زندہ ضمیر لوگ ہیں مثال کے لیے ماضی میں نہیں جانا پڑا، ہمارے معاشرے کی چلتی پھرتی کہانیاں ہیں جنہیں عام کرنے کی ضرورت ہے۔ تب ہی سوچا تھا یہ روشن کہانی لکھوں گی آج قرض اتر گیا۔ کتنا آسان ہے ناں شادی کرنا بیٹے کا گھر بسانا اور دلہن لانا، ہم نے کیوں ہّوا بنا رکھا ہے۔

