Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zaara Mazhar/
  4. Bache Ghar Se Kyun Bhagte Hain?

Bache Ghar Se Kyun Bhagte Hain?

بچے گھر سے کیوں بھاگتے ہیں؟

کسی زمانے میں جن اشیائے صرف کو آسائشات سمجھا جاتا تھا رفتہ رفتہ وہ سب ہماری ضروریات کا روپ دھار چکی ہیں۔ آپ سب پڑھنے والے ذرا ماضی قریب میں جھانکیں تو یاد آئے گا کہ گھروں میں پوری فیملی کے لئے ایک ہنڈیا بنانے کا رواج تھا، بیشتر گھروں میں خواتین مل جل کے صفائی ستھرائی کا اور سلائی کڑھائی تک خود کرتی تھیں باہر سے مدد لینے کا رواج نہیں تھا۔

ان مصروفیات میں دن تمام ہو جاتا تھا، بچوں کو پالنے پوسنے میں بھی کافی مشکلات تھیں پیمپرز کا نام و نشان تک نہیں تھا انسان کے بچے کے حوائج ضروریہ کے اوقات مقرر کرنے کے لئے مائیں ہلکان ہو جاتیں تاکہ بچہ جگہ جگہ گندگی نہ پھیلاتا پھرے، حتٰی کہ رات سوتے میں بھی ماں کے دھیان میں رہتا کہ بچے کو نیند نیند میں ہی فارغ کروا لے تاکہ بستر سوکھا رہے اور کام نہ بڑھے۔

فون شاید ہی کسی گھر میں ہوتا ہوگا جسے عموماً تالا بھی ڈال دیا جاتا تھا۔ گنی چنی موسم کی چار چھ سبزیاں ہوتیں وہی ادل بدل کے پکا لی جاتیں۔ اچھے گھرانوں میں گوشت بھون کے سبزی شوربہ بن جاتا سالن اگر کم پڑ جاتا تو دوسرے وقت گلاس بھر پانی ڈال کے شوربہ بڑھا لیا جاتا تاکہ سالن پورا ہو جائے بچوں کی مجال نہ تھی کہ کھانے میں چوں چراں کریں۔

جس نے چپ چاپ کھا لیا وہ فرمانبردار، جس نے نہیں کھایا اسے کھانے کے ساتھ دو جوتے بھی کھلا دئیے جاتے۔ کپڑوں کے جوڑے عموماً دو چار نہیں تو چھ ہوتے جن میں سے چار کو نیا رکھنا ہوتا تھا تاکہ کہیں آنے جانے میں کام آئیں اور وراثت میں چھوٹے بہن یا بھائی کو دے دئیے جائیں۔ کپڑے جوتے عید کے عید ہی بنتے تھے، موچی عام ملتے تھے جوتے گنٹھوا کے پہننا عیب نہیں تھا موچیوں کا روزگار چلتا رہتا تھا۔

زندگی ٹھاٹھ میں تھی، فی خاندان زیادہ اولاد کا رواج تھا درجہ بدرجہ ایک دوسرے کی کتابیں لیتے سب بچے پڑھ ہی جاتے تھے، جو آج کل سوٹ بوٹ پہن کر گھومتے ہیں۔ گھروں میں عموماً ایک سائیکل اور ایک موٹر سائیکل ہوتی تھی سب وہی استعمال کرتے، چھٹی والے دن گھر میں ہی دھو مانجھ لی جاتیں اور تیل گریس ڈال کے ڈھیلے نٹ پیچ کس لئے جاتے لو جی فراری کی سواری اگلے ہفتے بھر کے لئے لش پش ہو جاتی۔

معاشرے میں افراتفری اور بھیڑ چال نہیں تھی، امیر غریب کا فرق کہیں محدب عدسے سے ڈھونڈنا پڑتا۔ نئے ہزارئیے نے چڑھتے ہی نیا چاند چڑھا دیا اور اچانک بہت کچھ بدل ڈالا، پرانے ریت گیت اور رسم رواج دھندلانے لگے۔ دو چار بچے فی خاندان کا تناسب ہونے کی وجہ سے بچوں کو زیادہ توجہ ملنے لگی ہر بچہ ہتھیلی پہ چھالا بن کے پلنے لگا۔ ہر بچے کے لئے الگ نصابی کتابوں کے علاوہ بھی رنگ برنگی کتابوں کے ڈھیر لگے رہتے ورنہ ایک ایک نصاب تین چار بچے پڑھ جاتے تھے۔

نئی کتابیں لینا لاڈ کے ساتھ ایک مجبوری بھی تھی کہ ہر سال نصاب میں کچھ نہ کچھ بدل دیا جاتا۔ گھروں میں ہیلپرز رکھنے کی ضرورت ہر خاتون کو رہنے لگی کیونکہ مشترکہ خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا تھا، گھر گھر کیبلز لگ چکی تھیں نہ گھر میں کوئی بڑی بوڑھیاں تھیں جو روک ٹوک کرتیں۔ سٹار پلس دیکھتے وقت نکل جاتا کام ادھورے رہنے لگے تو کئی ملازمین کی گنجائش نکل آئی۔

خانسامے بھی آگئے، کپڑے دھونے اور صفائی کرنے کے لئے بھی مدد گاروں کی چھوٹی موٹی فوج بن گئی، استری بھی کروا لئے جاتے۔ اب خانساماں کو دس بیس ہزار ایک وقت ہانڈی بنا کے اگلے وقت شوربہ بڑھانے کے تو نہیں دئیے جا سکتے تھے سو سب کی پسند کے الگ الگ کھانے بنوائے جاتے۔ جو خانساماں افورڈ نہیں کر سکتی تھیں انہوں نے چوبیس گھنٹے چلتے کوکنگ چینلز کی تراکیب ٹرائی کرنی شروع کر دیں اتنی ورائٹی کہ صدیوں پرانا مسٔلہ آج کیا پکائیں حل ہوگیا۔

ہوتے ہوتے یہاں تک حال ہوگیا کہ مہینوں بعد ایک کھانے کی ترکیب کی باری آتی۔ لاڈ لڈاتی ماں اونواں اونواں کرتے بچے سے پوچھتی آج کیا بنائیں؟ جبکہ ماضی قریب میں گھر کے سربراہ کی مرضی کو ملحوظ رکھا جاتا تھا۔ بچہ جھٹ سے کہتا آج وہ بنائیں جو پہلے کبھی نہ کھایا ہو ماں سکرین آن کرتی جو بھی لائیو پک رہا ہوتا کچن میں بھی پکنے لگتا۔ فیشن کے نام پہ کئی کئی جوڑے جوتے بن جاتے اور نئے نئے اٹھا کے ہیلپرز اور ان کے بچوں کو عطا کر دئیے جاتے۔

موبائل آئے تو ایک سے دو، دو سے چار اور چار سے گھر کے فی افراد دو ہینڈ سیٹ تک بات رکی۔ کمپیوٹر اور اس ملتے جلتے کئی گیجٹس گھروں کی ضرورت بن گئے۔ گاڑی بھی فی فرد کے حساب سے پورچ میں کھڑی ہوگئیں۔ شوہروں کو بیوی کم ہیروئن کی چاہت رہنے لگی، بیوٹی پارلرز بھی خوب خوب آباد ہوئے۔ بچوں کی پرائویسی کے لئے اور اپنی زندگی انجوائے کرنے کے لئے بچوں کو الگ سلایا جانے لگا۔

والدین بھی مگن بچے بھی مگن۔ زندگی میں سے مصائب و آلام نکل گئے، زندگیاں آسان ہوگئیں اور خوشیاں کشید کی جانے لگیں۔ اچانک کووڈ 19 نے وارد ہوکے کئی اور مسائل کھڑے کر دئیے آن لائین کلاسز کے لئے الگ الگ گیجٹس۔ الگ الگ سمز۔ تمام ہیلپرز اپنے گھروں کو لوٹ گئے، نازک خاتون خانہ جس نے بیڈ توڑنے اور سجنے سنورنے کے علاوہ کم ہی کچھ کیا تھا بری طرح پھنس گئیں۔

کس کس کا دھیان رکھیں؟ کھانا پکائیں کہ صفائی کریں، کپڑے دھوئیں کہ بچوں کے مقدمے نمٹائیں؟ کچھ بھی سمٹ کے نہ دیتا، کام یوں سوار رہتے کہ گویا دل کو رو لوں تو جگر کو پیٹوں میں والا حال رہنے لگا۔ چوبیس گھنٹے گھر میں رہنے والے فارغ رہنے اور وقت گزاری کے لئے کئی طرح کے گیجٹس اور گیمز تک بچوں کی رسائی ہوگئی۔ موبائل تو ان تمام گیجٹس پہ سب سے نچلے درجے کی ملکیت ہے۔

ایک چٹی ان پڑھ ہیلپر کے پاس بھی موبائل ہوتا ہے آپ کیسے سوچ سکتے ہیں کہ بچے کو موبائل نہ دیا جائے؟ یہ سب تو مجبوریاں ہیں اور ہر گھر میں عام ہیں۔ ملبوسات میں جدت اور ورائٹی گیجسٹس اور گاڑیوں کے نئے نئے میک اور ماڈل لانچ کئے جانے لگے تو ہر نیا ماڈل بچوں کی ضرورت، عشرت اور فطرت بن گیا خواب تو کچھ رہا ہی نہیں سب کچھ رسا ہی رسا۔

اب جب بچوں کو ہر طرح کی آسائشات بن مانگے ہی ملنے لگیں تو کھانے پینے کی اشیاء میں سے ذائقہ نکل گیا، ایک بار کی کھائی چیز کو دوبارہ چھکنے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ ہر ریستوران کا الگ ذائقہ اور ہر ملک کی کروڑ ہا تراکیب۔ کانٹی نینٹل ڈشز بھی عام ہوگئیں کیا کھائیں، کیا چھوڑیں؟ جو منہ سے نکلے فوڈ پانڈا الہٰ دین کے چراغ کی طرح حاضر۔

مرضی سے سونا جاگنا، یہ سب عیاشیاں کبھی صرف بادشاہوں کا نصیب ہوتی تھیں۔ اس سے بڑی آسائشات کیا ہوں گی کہ اب ہر بچہ بچی ماضی کے ایک بادشاہ اور ملکہ جیسی سہولیات والی زندگی بسر کر رہا ہے۔ ہر چیز با سہولت اور آٹومیٹک۔ مثال کے لئے ملک فارس کا بادشاہ جمشید تو سب کو یاد ہوگا ورنہ ہمارے پرانے ادب میں اب بھی سو رہا ہے، جس کے پاس ایک خوبصورت نازک بلوریں پیالہ تھا۔

تاریخ میں جامِ جم اور ساغرِ جمشید کے نام سے مشہور ہے جس میں دنیا بھر میں ہونے والے واقعات دکھائی دیتے تھے اور ان معلومات کی بنیاد پہ اپنی آج کی سٹیٹیجی طے کرتا تھا اس لئے اسے دنیا بھر کے ممالک پہ برتری حاصل رہتی تھی۔ یہ موبائل وہ تاریخی جام جمشید ہی تو ہے۔ ہر سہولت ایک ٹچ کے فاصلے پر ہے گرمی میں گرمی کا اور سردی میں سردی کا توڑ ہے، بتائیے کیا آج کا دور کسی بادشاہ کی عیاشی سے کم ہے؟

جب یہ سب کچھ ہوگیا کچھ نیا نہیں رہا، کچھ پانے کی خواہش نہیں رہی تو جوانوں کے جنونی اور گڑبڑاتے ہارمونز نے کچھ نیا کرنے کی ٹھانی، ایسے ٹھانی کہ ایک بچہ تو اپنے تھرل میں ربّ سے ملاقات کرنے پہنچ گیا۔ جنون میں اپنی شہ رگ کاٹ لی، چٹھی لکھ گیا کہ دیکھوں موت کس ذائقے کی ہے یا ربّ سے مل کر کیسا لگے گا؟ کاش یہ سائنسدان فطرت کو یوں عریاں نہ کرتے کچھ حجاب رہنے دیتے۔

بہت زیادہ سہولیات اور ان کی عمومیت بھی سم قاتل ہیں ان گیجٹس نے اور آسانیوں کی پہنچ نے بچوں کے سامنے دنیا ننگی کر کے رکھ دی ہے اس لئے دنیا کی ہر لذت ان کی چکھی ہوئی ہے اب وہ کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں چاہے وہ گھر سے بھاگ کے شادی کا پریکٹیکل کرنا ہو یا موت کا ذائقہ چکھنا ہو۔

کیا یہ ممکن ہے ماضی پلٹ آئے

اگر دنیا کو گول گھمایا جائے۔

Check Also

Doctors Day

By Naveed Khalid Tarar