Aik Hikayat
ایک حکایت

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک اجڈ دیہاتی نے کہیں ایک گھوڑا دیکھا۔ اس کے پاس پہلے ہی سے کچھ اور گھوڑے بھی تھے۔ اسے وہ گھوڑا بے حد پسند آیا اور اس نے گھوڑے کو حاصل کرنے کے لئے جدوجہد شروع کر دی، اور اسے حاصل کرنے کے لئے اپنے تمام ذرائع استعمال میں لانے لگا۔ نتیجے میں وہ گھوڑا اس ناقدرے کے ہاتھ لگ گیا۔ جیسے ہر اچھی چیز ہر کسی کے لئے نہیں ہوتی، ایسے ہی ہر نسلی چیز بھی ہر کسی کے لئے نہیں ہوتی۔ اعلیٰ چیزوں کو رکھنے کے لئے اپنا ظرف بھی بڑا کرنا پڑتا ہے، نازک اور قیمتی اشیاء کو احتیاط سے رکھنا ہوتا ہے۔ اگر چیزیں جاندار ہوں تو عزت، پیار اور مان بھی رکھنا ہوتا ہے اور حفاظت بھی کرنا ہوتی ہے۔
ایک دن اس شخص نے اپنی بے احتیاطی سے گھوڑے کو ایک گہرے کھڈے میں گرا دیا۔ بیچارہ گھوڑا تکلیف سے زور زور سے ہنہنانے لگا۔ کھڈا گہرا تھا اور اندھیری تہہ میں سے گھوڑے کی چمکتی رنگت ایک لکیر کی صورت جھلک سی مار رہی تھی۔ گھوڑے کا مالک کھڈے کے کنارے پہ کھڑا چپ چاپ اسکی تڑپ دیکھتا رہا، لیکن باہر نکالنے کا کوئی حیلہ نہیں کیا بلکہ اسکی کرب انگیز آوازیں اس کی خبیث فطرت کو تسکین دینے لگیں، ارد گرد کے کچھ لوگوں نے اسے سمجھایا کہ اتنا خوبصورت گھوڑا ہے اسے باہر نکالو، لیکن جانے کیوں اسے گھوڑے کی بے بسی تسکین پہنچا رہی تھی، اس لئے اس نے گھوڑے کو باہر نکالنے سے صاف انکار کر دیا۔ جب وہ اچھی طرح سے محظوظ ہوگیا تو سوچا کہ اور تو کوئی حل نہیں، کھڈے اور گھوڑے پہ مٹی ڈال کر زندہ ہی دفن کر دیتا ہوں۔
یہ سوچ کر اس نے ڈیرے پر موجود اپنے جیسے ہاریوں کو مدد کے لئے پکارا اور کھڈا بند کرنا شروع کر دیا، سب کے ہاتھ میں ایک ایک بیلچہ و تغاری تھی۔ جس سے وہ مٹی، بجری اور کوڑا کرکٹ کھڈے میں ڈالنے لگے، گھوڑا اس صورت حال سے گھبرا گیا اور بے بسی سے ہنہنانا شروع کر دیا۔ لیکن دیہاتی کی بے مروتی اور اس کے ساتھیوں کے سفاک تیور دیکھ کر گھوڑا بالکل خاموش ہو گیا، دیہاتی اور ساتھی مسلسل مٹی ڈالتے رہے اور کھڈے میں جھانک جھانک کر حیران ہوتے رہے، کہ جب بھی سفید گھوڑے کے اوپر مٹی ڈالی جاتی وہ جھرجھری لیتا اور مٹی جھٹک دیتا، وہ جوں جوں جھرجھری لیتا گھوڑے کی سفیدی واضح ہوتی جاتی۔
یہ سلسلہ کافی دیر چلتا رہا، جاہل کے پرانے ساتھی تھک گئے، انکی جگہ تازہ دم لوگوں نے لے لی، قریب سے مٹی ختم ہوگئی تو دور دور سے کچرے اور کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لاد لاد کر لانے لگے کہ بس کسی طرح کنواں بھر جائے، اور گھوڑا دفن ہوجائے۔ لیکن نسلی گھوڑے کی جان پہ بنی تھی، وہ لوگوں کے رویے سے صدمے میں بھی تھا اور تھک بھی گیا تھا، اس کے باوجود اپنی بقا کے لئے جھٹک جھٹک کے مٹی جھاڑتا رہا اور وہ مٹی اسکے قدموں میں بچھتی رہی، اور گھوڑا اسی گند مٹی کو اپنے پیروں تلے سیڑھی کی طرح روندتا کھڈے سے باہر نکل آیا، یہ منظر دیکھ کر گھوڑے کا دیہاتی مالک اور اس کے ساتھی صدمے اور سکتے میں آ گئے، ان کی حیرانی قابل دید تھی، اس غیر متوقع نتیجے پر وہ گھوڑے سے بھی بڑھ کر مجسمہ حیرت بنے ہوئے تھے۔
زندگی میں ہمارے ساتھ بھی ایسے واقعات رونما ہو سکتے ہیں، کہ ہمارے اوپر کچرا اچھالا جائے، ہماری کردار کشی کی جائے، ہماری صلاحیتوں کو داغدار کیا جائے۔ ہمیں طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جائے۔ گندگی کے اس گڑھے سے بچنے کا طریقہ یہ نہیں کہ ہم ان غلاظتوں کی تہہ میں دفن ہو کر رہ جائیں، جو کہ حاسدین اور دشمنوں کا مقصد ہوتا ہے، بلکہ ہمیں بھی ان بے کار کی چیزوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اوپر کی طرف اور آگے کی سمت بڑھتے رہنا چاہیے۔ بلکہ یہ حسد اور الزامات انسان کو آٹو گئیر لگاتے ہیں، خاک ڈالنے والے خاک ڈالتے رہیں گے انہیں سمجھ ہی نہیں آتی کہ وہ نادانستگی میں سامنے والے کا نہیں، اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں۔ خاک ڈالنے والے ڈالتے رہیں مگر پرعزم انسان اپنا راستہ کبھی نہیں بدلتا۔ بزرگوں کی بیان کی ہوئی حکایات صدیوں کے تجربات کا نچوڑ ہوتی ہیں، انہیں رد نہیں کیا جا سکتا اب تو متعدد بار تجربہ بھی ہوگیا۔

