Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Yaseen Malik/
  4. Team Management

Team Management

ٹیم مینجمینٹ

کسی بھی ادارے میں خواہ وہ سرکاری ہو یا نجی، اس کی بنیاد منافع کمانے کی غرض سے رکھی گئی ہو یا فلاحی ادارے کے طور پر، جو لوگوں کو مفت میں خدمات مہیا کرتے ہوں وغیرہ میں کام کرتے ملازمین کے مابین لڑائی جھگڑے اور تنازعات یعنی conflicts کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔ ملازمین کے مابین یہ کنفلیکٹس مختلف وجوہات کی بناء پر عمل میں آتے ہیں جیسا کہ ملازمین کے رنگ و نسل میں فرق، عادات اور رویوں میں فرق۔

خیالات اور سوچوں میں فرق، جزبات اور توقعات میں فرق، ادارے کی طرف سے دیئے گئے مراعات میں فرق اور جنس میں فرق وغیرہ وہ اہم اور بنیادی وجوہات ہیں جن کی بنا پر ایک ہی چھت کے اندر ایک ہی مقصد کے لئے اکھٹے کام کرنے والے انسانوں یعنی ورکروں کے مابین کنفلیکٹس پیدا ہوتے رہتے ہیں جس کے نتیجے میں ادارے کی کارکردگی پر منفی اثر پڑتا ہے۔ اس طرح کے صورتحال میں بعض اوقات ملازمین کے اندر گروپ بندی عمل میں آتی ہے اور یوں ہیومن ریسورس ضائع ہو جاتے ہیں۔

یہ کنفلیکٹس ظاہری بھی ہو سکتے ہیں اور پوشیدہ بھی۔ ظاہری کنفلیکٹس کا اندازہ لگانا قدرے سہل اور آسان ہوتا ہے جبکہ پوشیدہ کنفلیکٹس کا ادراک مشکل ہونے کے ساتھ ساتھ زیادہ نقصان دہ بھی ہوتے ہیں کیونکہ یہ اداروں کو اندر سے کھوکھلا کرتے ہیں۔ یہ ادارے کیلئے کینسر جیسے خطرناک مرض کی مانند ہوتے ہیں جس کا اگر بر وقت ادراک اور خاتمہ نہ کیا جائے تو اس کا نتیجہ ادارے کی دیوالیہ ہونے کی صورت میں نکلتا ہے۔

ان دونوں قسم کے کنفلیکٹس پر قابو پانا ادارے کے ہیڈ کی سب سے اہم ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری ہوتی ہے۔ ادارے کے ہیڈ جس کے لئے انگریزی میں Boss کا لفظ استعمال ہوتا ہے کو اتنا حساس ضرور ہونا چاہئے جو ان اختلافات کا صدِ باب کر سکے یا وہ ان اختلافات کو دور کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ ادارے کی باس کو چاہئے کہ وہ نہ صرف اسطرح کے تنازعات کا موزوں طریقے سے صدِ باب یقینی بنا سکتا ہو بلکہ اس کا ادراک کرنا بھی جانتا ہو۔

مؤخر الذکر زیادہ اہم ہے کیونکہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ باس اس طرح کے مسائل پر قابو پانے کی اہلیت تو رکھتا ہے لیکن اس بے چارے کو یہ ادراک نہیں ہوتا کہ اس کے ماتحت ورکروں کے مابین تنازعات اور اختلافات بھی ہیں۔ اس طرح کی صورتحال میں باس ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتا ہے وہ سوچتا ہے کہ وہ تو فل پوٹینشئل سے کام کرتا ہے اور ماتحت ورکرز بھی اسے آل دی بیسٹ کی رپورٹ دیتے ہیں لیکن پھر بھی جو آؤٹ پٹ نکلتے ہیں وہ ایکسپیکٹڈ آؤٹ پٹ سے کم ہوتے ہیں۔

یعنی "سب اچھا ہے" کہ باوجود بھی متوقعہ نتائج نہیں نکل رہے ہوتے۔ ایک اچھے مینیجر اور لیڈر کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ ایک ایسا ماحول پیدا کرے جس میں ماتحت ورکروں کو چین و سکون کا سامان میسر ہو۔ وہ ان کو کچھ اس طریقے سے انگیج رکھے کہ ان کے مابین اختلافات اور تنازعات پیدا نہ ہوں تاکہ ادارے کی کارکردگی متاثر نہ ہو۔ ہمارے ملک پاکستان میں بد قسمتی سے اس طرف توجہ بہت کم دی جاتی ہے یا بالکل نظر انداز کی جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ یہاں اکثر اداروں میں ایسا ماحول نظر آتا ہے جس میں ملازمین ایک دوسرے سے نالاں نظر آتے ہیں اور ان کی انہی رویوں سے ادارے گروتھ کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ میں یہاں اپنے کالج کی مثال دیتا ہوں یہ بہت اچھی کارکردگی شو کر رہا تھا یہاں بہت قابل اور اچھے اچھے لیکچررز اور پروفیسرز تھے۔ لیکن بدقسمتی سے پرنسپل کے ریٹائر ہونے پر ادارے کے اندر گروپ بندی ہونے لگی جس کا اندازہ ہم طالب علموں کو ملازمین اور ٹیچرز کا آپس میں ہونے والے سرگوشیوں سے ہوا۔

ہوا کچھ یوں کہ پرنسپل کے ریٹائر ہونے پر ایٹین گریٹ کے موجودہ تین چار اسسٹنٹ پروفیسرز کے مابین پرنسپل کے اختیارات کے حصول پر اختلافات پیدا ہوئیں۔ جس پروفیسر نے اختیارات سنھبالے بذات خود یا شائد ایجوکیشنل ڈپارٹمنٹ کی طرف سے اس کے ساتھ باقی پروفیسرز کام کرنے پر تیار نہیں تھے جس کے نتیجے میں ٹیچنگ سٹاف میں تین گروہ بن گئے۔ ایک گروہ موجودہ پروفیسر کو ایز آ پرنسپل ماننے کو تیار تھا۔

دوسرا گروہ نیوٹرل تھا جو دونوں کے حق میں تھا کہ جو بھی پرنسپل کی نشست پر بیٹھے گا وہ ہمیں منظور ہو گا اور تیسرا گروہ اس پرنسپل کو اختیارات ملنے پر راضی نہیں تھا۔ اس گروپ بندی کے نتیجے میں ادارے کی کارکردگی کو سخت دھچکا لگا جس کے اثرات ہم نے واضح طور پر محسوس کئے ادارہ کھنڈر کا سماں پیش کر رہا تھا۔ ہم بہت سے پروفیسرز کو دیکھتے کہ کنٹین کے پہلو میں چھٹی کے وقت تک یوں ہی بیٹھے رہتے اگرچہ وہ کلاسز تو لے لیتے لیکن دل لگی سے نہیں اور باقی کام بھی یوں ہی پڑا رہتا۔

بہرحال زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں میرا مقصد صرف یہ واضح کرنا تھا کہ کسی بھی ادارے کے اندر ملازمین کے مابین تنازعات کا سر اٹھانا فطری امر ہے جس کا ادراک کرنے اور موزوں طریقے سے ہینڈل کرنے کا گُر ادارے کے ہیڈ کو آنا چاہئے تاکہ ایکسپکٹڈ گولز کے حصول میں آسانی ہو اور جس سے ادارے کی گروتھ پر مثبت اثر پڑے۔ اگر ہر ادارے نے اس طرف توجہ دی تو یہ ملک و قوم کے مفاد میں بھی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ اس طرح کے مسائل سیاسی سطح پر بھی سر اٹھاتے ہیں، حتٰی کہ وزیراعظم کو بھی کابینہ میں ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جہاں وزرا کے مابین کسی فیصلے پر اختلاف پیدا ہو سکتا ہے۔ جسکا ہمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ اس صورت میں "لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی" کے مصداق پھر بڑی مشکل سے ان غلطیوں کا ازالہ ہوتا ہے۔

اس صورت میں حکمرانوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ کابینہ کو ساتھ لے کر چلنے کی عادت اپنائے اور ان کی اراء کو بھی اہمیت دے تاکہ وہ دل لگی سے کام کرے اور اپنی جسمانی و دماغی صلاحیتوں کو استعمال کرنے میں پس و پیش سے کام نہ لے۔ ہمارے ملک کی تاریخ اٹھا کر دیکھئے کہ اس کو گروہی تنازعات نے کتنا ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور اگر بغور مشاہدہ کیا جائے تو اسی گروہی تنازعات کے ناسور نے ملک کے دو لخت ہونے میں بھی کردار ادا کیا ہے۔

یہی گروہی تنازعات ہی تو ہیں جس کی وجہ سے ملک میں ایسے بہت سے منصوبوں پر کام تاخیر کا شکار ہے جو قوم کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ یہی گروہی تنازعات ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کے لئے گیم چینجر کی اہمیت رکھنے والا منصوبہ سی پیک پر کبھی کام شروع کیا جاتا ہے اور کبھی روک دیا جاتا ہے۔ یہی گروہی تنازعات ہی تو ہیں جس کی وجہ سے آج تک یہ قوم کوئی ایسا لانگ ٹرم اکنامک پلان نہ بنا سکا جس سے ویلنٹئر پر پڑی معیشت کو سہارا مل سکے۔

Check Also

Babo

By Sanober Nazir