University Couple Aur Shadian
یونیورسٹی کپل اور شادیاں
ایم ایس سی کے دوران ہمارا ایک گروپ بن گیا جس میں سعود، مصطفیٰ، سندس، سدرہ، طیبہ اور میں شامل تھے یعنی ہم تین لڑکوں اور لڑکیوں کا گروپ بن گیا۔ کسی کی آرگینک کیمسٹری اچھی تھی تو کسی کی فزیکل، یوں سب کو فائدہ ہو جاتا تھا۔ گروپ بننے کے ایک مہینے بعد مجھے کچھ گڑ بڑ محسوس ہوئی۔ سندس اور سعود کے آئی کنٹیکٹ سے میں بخوبی اندازہ لگا رہا تھا لیکن وہ مسلسل میری بات کو جھٹلا رہے تھے کہ ایسا ویسا کچھ نہیں ہے۔ میں نے بھی سوچا کوئی بات نہیں اگلی بار ثبوت کے ساتھ بات کروں گا۔ میرا یونیورسٹی میں بہت بڑا سرکل تھا۔
پروفیسر صاحبان، سیکیورٹی گارڈز اور مختلف ڈیپارٹمنٹ کے طلباء سے بھی اچھی سلام دعا تھی۔ اب آہستہ آہستہ کٹا کھل گیا۔ کبھی سندس بیمار ہے تو سعود صاحب اسے ڈاکٹر کے پاس لے کر جا رہے ہیں۔ سالگرہ پر تحائف کا لین دین ہو رہا ہے۔ سندس بیمار ہے تو میرے ساتھ کمرے میں بیٹھے سعود کو بھی بخار ہو رہا ہے۔ سعود صاحب بیمار ہیں تو یونیورسٹی میں سندس بھی اداس اداس سی گھوم رہی ہے۔ اب مجھے پکا یقین ہو گیا کہ دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ" ساری دال ہی کالی ہے"۔ کمرے میں سعود کو مرغا بنا کر اسے پانچ، چھ جوتے لگائے اور کچھ نشانیاں دی کہ فلاں دن فلاں دن؟
اب خود بتا رہا ہے یا پھر مزید جوتے کھانے کا ارادہ ہے؟" اچھا یار بتا رہا ہوں۔ سانس تو لینے دے" اس کے بعد سب کچھ بتا دیا اور میں نے پہلا سوال یہ پوچھا" سنجیدہ ہو؟ شادی کرنا چاہتے ہو یا بس ایویں؟" وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ سنجیدہ تھے۔ میں نے دونوں سے کہا اپنے اپنے گھر والوں سے بات کرو۔ سعود کی سب سے بڑی خوبی اس دن معلوم ہوئی جب اس نے یونیورسٹی کیفے ٹیریا پر سندس کی ملاقات اپنے والد صاحب سے کروائی۔ اس کے بعد سندس نے اپنے گھر والوں سے بات کی، بہت سارے مسائل تھے، بہت سی رکاوٹیں تھیں لیکن وہ لڑکی ہو کر کوشش کرتی رہی۔
ڈٹی رہی اور ایم فل کے بعد ایک دن دونوں کی مجھے کال آئی " ہماری شادی ہو رہی ہے" مجھے سن کر بے حد خوشی ہوئی۔ میں نے کہا" سندس کو کوئی لیتا نہیں تھا اور سعود کو کوئی اپنی لڑکی نہیں دے رہا تھا تو تم دونوں ایک دوسرے کو پیارے ہو گئے" دونوں سے میٹھی میٹھی سنی۔ اسی دوران تایا ابو وفات پا گئے تو میں ان کی شادی میں شرکت نہ کر سکا۔ کل دونوں کی فرسٹ اینیورسری تھی۔ شادی کے بعد سعود کی ماشاءاللہ اچھی گورنمنٹ جاب ہو گئی یہ سندس کا نصیب تھا۔ اس نے سعود کا ہاتھ اس وقت تھاما جب وہ کچھ نہیں تھا، تب شادی کی جب وہ معمولی تنخواہ پر ایک انڈسٹری میں کام کر رہا تھا۔ شادی کے بعد اللہ تعالیٰ نے آسانی کر دی۔
اب آتے ہیں اس تحریر کو لکھنے کا مقصد کیا ہے؟ یونیورسٹی ایک گھن چکر ہے۔ جہاں سعود جیسے لڑکے اور سندس جیسی لڑکیاں شاید آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ یہ ایک ایسی دنیا ہے جہاں چہرے، شخص اور کہانی کے کردار بدلنا معمولی سی بات ہے۔ ایک ایسی فیک دنیا جہاں کئی لڑکے اور لڑکیاں پہلے سے بک ہوتے ہیں۔ رشتہ طے ہو چکا ہے مگر ایک دوسرے سے پوشیدہ رکھتے ہیں اور ٹائم پاس کا سفر جاری رہتا ہے۔ میں نے ایسے کئی لڑکے دیکھے تو ایسی لڑکیوں کی بھی بہت بڑی تعداد دیکھی۔
آپ لڑکی ہیں اور سنجیدہ ہیں تو لڑکے سے ڈیمانڈ کریں، شرط لاگو کریں کہ وہ آپ کی ملاقات اپنے والدین سے کروائے۔ ان کی رضا مندی جان کر آپ اپنے گھر والوں سے بات کریں اور سندس جیسا کردار ادا کریں اگر آپ کی مجبوریاں ہیں تو تعلق قائم مت کریں۔ پیچھے ہٹ جائیں۔ اگر لڑکا ٹال مٹول کر رہا ہے تو مٹی ڈالیں، آگ لگائیں جو آپ کو اپنی فیملی سے نہیں ملوا سکتا وہ کبھی آپ کو اپنی بیوی نہیں بنائے گا۔
آپ لڑکے ہیں اور سنجیدہ ہیں تو لڑکی کو دیکھیے کیا وہ آپ کیلئے قدم اٹھا سکتی ہے؟ وہ اس وقت پر آپ کا ہاتھ تھام کر چل سکتی ہے جب آپ کے پاس کچھ نہیں ہے؟ وہ اپنے گھر والوں سے بات کر سکتی ہے؟ اور کیا آپ سعود کی طرح جدوجہد اور محنت کرنے والے لڑکے ہیں؟ اگر ہاں تو سلسلہ آگے بڑھائیں اور جائز بندھن میں بندھ جائیں ورنہ پیچھے ہٹ جائیں۔ عارضی تعلق بھی اس کینسر کی طرح ہوتا ہے جس کی تشخیص تب ہوتی ہے جب وہ آخری سٹیج پر پہنچ چکا ہے۔ اجتناب کریں احتیاط کریں۔