Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Wasim Qureshi
  4. Thank You Sir, Naukri Nahi Chahiye

Thank You Sir, Naukri Nahi Chahiye

تھینک یو سر، نوکری نہیں چاہیے

اپنی اس انا کو مار دیں ورنہ مار دیئے جائیں گے۔ اکثر ڈگری ہولڈرز اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے میں مصروف ہیں یا پھر اپنی انا کو ڈگری کی جگہ لے کر گھوم رہے ہیں۔ پچھلے دنوں میری ملاقات ایک نوجوان سے ہوئی جو یونیورسٹی کا گریجویٹ ہے مگر اس وقت ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں "شیف" کا کام کر رہا ہے اور بہت جلد اپنا ہوٹل بنانے والا ہے۔ اس کے مطابق کئی جگہوں پر کوشش کی مگر پندرہ بیس ہزار روپے سے زیادہ تنخواہ پر کوئی جاب نہیں ملی۔

ککنگ کا شوق تھا اکثر یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھ کر مختلف ڈشز ٹرائی کرتا رہتا تھا۔ اسی شوق کی بنا پر اسے ایک کمپنی میں کک کی جاب مل گئی اور اس نے یہ جاب 35000 روپے ماہانہ پر قبول کر لی۔ یہاں آٹھ مہینے تک جاب کرتا رہا اور کمپنی کے معیار اور آنے والے مہمانوں کی پسند کی ڈشز بناتے بناتے وہ اس کام میں مزید مہارت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ ایک سال بعد ہی کسی ملٹی نیشنل کمپنی کے مالک کو شیف کی ضرورت تھی۔ دوست نے بتایا تو یہ وہاں پہنچ گیا اور اس کی سلیکشن ہو گئی۔

ایک سال بعد ہی یہ لڑکا 70 ہزار تنخواہ پر معمور ہو گیا اور اس وقت نوے ہزار تنخواہ لے رہا ہے۔ کہہ رہا تھا کہ نوکری صرف اس لیے کر رہا ہوں کہ میرے پاس انویسٹمنٹ نہیں تھی اور اب میں رقم جمع کر رہا ہوں مزید ایک سال جاب کروں گا اور پھر اپنا ہوٹل بنا لوں گا۔ کہنے لگا "وسیم بھائی جب میں نے کک کی جاب کرنے کا سوچا تو میرے دوست اور فیلوز نے شدید تنقید کی کہ گریجویٹ ہو کر یہ والا کام کرے گا؟

لیکن میں نے اپنی انا کو ایک طرف رکھ کر اپنے پیشن اور موقعے سے فائدہ اٹھانے کو ترجیح دی۔ وہ آج بھی تیس چالیس ہزار تنخواہ والی جاب کی تلاش میں ہیں اور میں یہاں پہنچ گیا اور جلد اپنا ہوٹل بناؤں گا ان شاءاللہ"۔ ایک ہفتہ پہلے لاہور میں اپنے لیے بائیک بک کی یہ ایک نوجوان تھا اور یہ بھی یونیورسٹی کا گریجویٹ تھا۔ گفتگو کے دوران میرے سوال کے جواب میں کہا "چھ مہینے نوکری کیلئے دھکے کھاتا رہا۔ پھر سوچا کہ اووبر پر ڈرائیونگ کرتا ہوں۔ بینک سے کسی طرح گاڑی لی اور ڈرائیونگ شروع کر دی۔

کئی لوگوں نے تنقید کا نشانہ بنایا مگر میں نے پرواہ نہیں کی۔ اسی دوران مجھے کاسمیٹکس کی ایک کمپنی میں جاب بھی مل گئی۔ چھ گھنٹے جاب کرتا تھا اور اس کے بعد اووبر ڈرائیو۔ اووبر پر تقریباً تین ہزار روپے ایک دن کے بن جاتے تھے جو کسی بھی طرح ہینڈسم سیلری یا انکم سے کم نہیں۔ اب پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے بائیک شروع کر دی ہے۔ اب بھی بائیک سے تقریباً ایک ہزار روپے روزانہ کما لیتا ہوں اور کاسمیٹکس کا اب اپنا کام شروع کر دیا ہے۔

دن میں چار پانچ گھنٹے کاسمیٹکس کی مارکیٹنگ کرتا ہوں اور تین گھنٹے بائیک چلاتا ہوں۔ چند گھنٹے اے سی کے نیچے کرسی پر بیٹھ کر چند گھنٹے چند ہزار کی نوکری سے اچھا ہے کہ میں چھ گھنٹے گرمی میں محنت کرتا ہوں اور باقی کا سارا دن میں اور گھر والے اے سی میں سکون سے رہتے ہیں۔ بس میں نے گریجویٹ ہونے والی سوچ اور انا مار دی تھی"۔

اس پر کئی بار لکھا کہ سکلز سیکھیے، بھول جائیں کہ آپ کے پاس کون سی ڈگری ہے؟ پندرہ ہزار کی جاب کیلئے تیس جگہ دھکے کھانے سے بہتر ہے جہاں اتنے سال ڈگری پر ضائع کیے ایک دو سال لگا کر کوئی کام سیکھ لیں تاکہ آنے والے مزید سالوں تک دھکے کھانے سے بچ جائیں۔ یا پھر کوئی بھی چھوٹا کام شروع کر دیں۔ جہاں موقع ملے ایک بار گھس جائیں اور اپنی جگہ بنائیں۔

اپنی اس انا کو مار دیں ورنہ مار دیئے جائیں گے۔

Check Also

Ham Yousuf e Zaman Thay Abhi Kal Ki Baat Hai

By Syed Tanzeel Ashfaq