Teri Meri Kahani Hai
تیری میری کہانی ہے
آج شام چھ بجے آفس پہنچا تو ایک بوڑھی اماں اور چار سالہ بچی میرے منتظر تھے۔ میں نے بچی پر توجہ دی تو سوچا یہ تو میرب ہے لیکن آج اس کے ساتھ کون ہے؟ یہ بچی اپنے والدین کے ساتھ یہاں آتی تھی۔ میں نے اماں سے پوچھا کہ یہ عامر بھائی کی بیٹی میرب ہے وہ خود کہاں ہیں؟"۔۔ عامر 22 دن پہلے وفات پا گیا ہے۔۔
یہ جملہ سن کر وقت رک گیا جیسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔ عامر بھائی نابینا تھے دونوں میاں بیوی میں بہت زیادہ محبت تھی ایک دوسرے کا بہت احترام کرتے تھے۔ میرب مجھے ماموں اور اس کی والدہ مجھے بھائی کہتی تھیں۔ وہ آدھی قیمت پر راشن لیتے وقت مجھ سے بحث کرتیں تو عامر بھائی ڈانٹ دیتے تھے۔ میں کہتا تھا بولنے دیجیے عامر بھائی یہ ہم بہن بھائیوں کا معاملہ ہے۔ وہ اکثر میرے جملے سن کر خوشی کے آنسو بہاتی تھیں کیونکہ ان کا کوئی بھائی نہیں تھا صرف دو بہنیں تھیں۔۔
سسر کی وفات کے بعد عامر بھائی اپنی چھوٹی سالی اور ساس کو اپنے گھر لے آئے تھے۔ سالی کو بیٹی کی طرح پال پوس کر بڑا کیا اور اس کی شادی کی، ساس کو بالکل اپنی ماں کی طرح ساتھ رکھا وہی محبت اور عزت دی کبھی کوئی طعنہ نہیں دیا کبھی بدتمیزی نہیں کی۔۔
یہ سب مجھے میری بہن نے اس دن بتایا تھا جب میں نے کہا عامر بھائی آپ بہت خوش نصیب ہیں۔ یہ آپ کو ہاتھ پکڑ کر لاتی ہیں جوتے پہناتی ہیں ہر ہفتے گردے واش کروانے ہسپتال لے جاتی ہیں لیکن میں نے ان کے چہرے پر بیزاری نہیں دیکھی ہمیشہ سکون پایا ہے۔۔ اس دن میری بہن نے سب بتایا اور کہا وسیم بھائی یہی زندگی ہے یہ دو طرفہ قربانی اور سمجھوتے کا رشتہ ہے۔ یہ پیار، محبت اور عزت کا تعلق ہے۔ انہوں نے بھی میری ماں اور بہن کے لیے جو سب کیا وہ۔۔
اماں جی نے بتایا کہ "فوت ہونے سے کچھ گھنٹے پہلے عامر بھائی نے اپنی زوجہ سے کہا آج بازار جاؤ اور پیاری سی چوڑیاں پہن کر آؤ"۔۔ جواب ملا آج نہیں میں کل چلی جاؤں گی تو عامر بھائی نے بضد ہو کر اسرار کیا آج ہی پہن کر آؤ۔۔ در اصل جدائی کی تیاریاں بھی شان و شوکت سے کی جا رہی تھیں۔۔ وہ چوڑیاں پہن کر آئیں تو عامر بھائی نے اپنی آخری سانسیں لی۔۔
میرب کہتی ہے ابو جنت میں چلے گئے ہیں ہم جب وہاں جائیں گے تو ملاقات ہوگی۔۔ یہ سب سنتے ہوئے ہم بالکل خاموش تھے ہمارے آنسو بول رہے تھے۔ ارسلان بھائی روتے ہوئے کریانہ سٹور میں چلے گئے لیکن میرے لیے یہ بھی ممکن نہیں تھا۔ بیٹھنا اور سننا بھی ضروری تھا اس دوران میری نظر مسلسل میرب پر ٹکی ہوئی تھی ہر بار نٹ کھٹ سی شرارتیں کرنے والی گڑیا آج خاموش بیٹھی تھی کیونکہ باپ کا سایہ چھن گیا ہے۔۔
ماں جی کو کال آئی فون کی دوسری جانب میری وہ بہن تھی جو کہہ رہی تھی وسیم بھائی سے بات کروا دیں۔ میرے پاس نہ تو الفاظ تھے نہ ہمت تھی۔ ماں جی سے کہا پلیز پھر کبھی میں خود بات کر لوں گا لیکن آج نہیں کر سکتا۔۔ میرے ذہن میں عامر بھائی کے جملے گھوم رہے تھے وہ جب پچھلی بار آئے کہنے لگے " وسیم بھائی! زندگی مختصر رہ گئی ہے کوئی پتا نہیں اگلی مرتبہ آؤں گا یا نہیں"۔۔ ارے عامر بھائی۔۔ اللہ تعالیٰ آپ کو زندگی دے ایسا مت سوچا کریں۔۔ لیکن ان کا آخری جملہ تھا" مجھے لگتا ہے اب میرے پاس وقت بہت کم ہے۔ میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں چھ ماہ سے آپ کی اس سپورٹ نے ہمارے لیے بہت ساری آسانیاں پیدا کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اور سب کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین"۔ وہ یہ کہتے ہوئے چلے گئے تھے۔ نیک آدمی تھے جان گئے ہوں گے اللہ تعالیٰ کے پاس جانے کا وقت قریب ہے۔
ارسلان بھائی نے راشن دیا بل بنانے لگے تو میں نے کہا "آج آدھی قیمت نہ لیں بس سامان دے دیں اور آدھی قیمت کا بل میرے ذاتی کھاتے میں ڈال دیں"۔ احمد کو بھیجا کہ اوپر سکول سے میرب کیلئے سٹیشنری وغیرہ لے کر آؤ۔ خود کو سنبھالا میرب کے ساتھ تھوڑی بہت چھیڑ چھاڑ کی ہنسی مذاق کیا کچھ دیر تک ہنستے رہے پھر اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے رخصت کر دیا۔۔
زندگی اور کچھ بھی نہیں۔۔
تیری میری کہانی ہے۔۔